"KMK" (space) message & send to 7575

خسارے والی کمپنی اور پانچ لاکھ تنخواہ والا منیجر

ہم جیسے فُقرے مسافروں کو دہری مصیبت کا سامنا ہے۔ایک یہ کہ روپے کی قیمت تحت الثریٰ پر پہنچ چکی ہے اور جو یورو ڈیڑھ دو سال پہلے ڈیڑھ سو روپے کا تھا اب ساڑھے تین سو روپے کا ہو چکا ہے‘ یعنی دوگنے سے بھی زیادہ مہنگا۔ دوسری مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ یورپ میں بھی مہنگائی ہو گئی ہے اور جو چیز پہلے پانچ یورو کی تھی اب وہ لگ بھگ دس یورو میں ملتی ہے۔ یعنی جو چیز ڈیڑھ سال پہلے پاکستانی روپوں میں ساڑھے سات سو روپے کی ملتی تھی اب وہ سیدھی سیدھی ساڑھے تین ہزار روپے میں پڑتی ہے۔ بے شمار ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں لینے کو دل کیا جو کبھی ہماری دسترس میں ہوتی تھیں مگر اب جیب میں ہاتھ ڈالنا تو ایک طرف رہا صرف سوچ کر ہی پسینہ آ گیا اور شو کیس سے نظریں چرا کر آگے نکل گئے۔ یہ تو مسافرت کا ٹھرک ہے جو قریہ قریہ لیے پھر رہا ہے وگرنہ اب دیار ِغیر کا سفر کرنا آسان نہیں ہے۔ مہنگائی زیادہ اور جیب میں پیسے کم ہوں تو سارا سفری بجٹ ہی برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سو پردیس میں اس مسافر کا بجٹ خاصا سکڑ چکا ہے۔
بجٹ کی اس خرابی کو دور کرنے کے دو طریقے ہیں ‘پہلا یہ کہ آمدنی بڑھائی جائے اور دوسرا یہ کہ اخراجات کم کیے جائیں۔ آمدنی بڑھانے کا تو اس مسافر کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا لہٰذا اس کا دوسرا حل نکالا کہ اخراجات کم کیے جائیں۔ اخراجات کو کم کرنے کیلئے جو اقدامات کیے تھے وہ یہ کہ لوکل ٹرانسپورٹ کا خرچہ کم سے کم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پیدل چلتا ہوں۔ ناشتہ صبح اپنے اپارٹمنٹ میں بناتا ہوں اور سوائے چھوٹے چھوٹے سووینیئرز خریدنے کے کسی چیز کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس لیے یہاں میرا معاملہ تو بہرحال کسی نہ کسی طرح چل رہا ہے جبکہ وطنِ عزیز میں پیش ہونے والے بجٹ میں دونوں قسم کی خرابیاں بدرجہ اُتم ہیں۔ اخراجات ایسے کہ امیر کبیر ممالک کے حکمران ہم پر رشک کریں اور آمدنی اتنی کم کہ فقیر بھی خود پر رشک کریں ‘تاہم ملک ِعزیز کے معاشی بزرجمہروں کے پاس اس ساری ذلت کو عزت میں بدلنے کا ایک ہی تیر بہدف نسخہ ہے اور وہ یہ کہ مزید قرض لیا جائے اور قرض بھی بالکل ویسا جیسا کہ چچا غالب کا فارمولا تھا کہ :
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
سوہماری قومی فاقہ مستی یہ رنگ لا رہی ہے کہ بقول وزیراعظم میاں شہباز شریف ہم نے آئی ایم ایف کا ہر مطالبہ بے چون و چرا تسلیم کر لیا ہے‘ لہٰذا اب قرض اور ہمارے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں ہے۔لیکن دوسری طرف قرض لینے میں بے مثل شہرت رکھنے والے اسحاق ڈار جنہیں ان کی اسی خاص خوبی کو مدنظر رکھتے ہوئے ولایت سے بلایا گیا اور اچھے بھلے مفتاح اسماعیل کو نہایت ہی بھونڈے طریقے سے فارغ کیا گیا‘فرماتے ہیں کہ آئی ایم ایف ہمیں پہلے سری لنکا بنانا چاہتا ہے اور پھر قرض دینا چاہتا ہے۔یعنی موصوف نے سارا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈال دیا ہے۔اللہ مجھے بدگمانی پر معاف کرے کہ میں اس حقیقت کے باوجود کہ مجھے بجٹ نامی گورکھ دھندے اور جھوٹ کے پلندے کی الف بے کا بھی علم نہیں لیکن حالیہ والے بجٹ کو دیکھتا ہوں تو مجھے دکھائی دیتا ہے کہ سارے کا سارا بجٹ ہی گمراہ کن اعداد اور سفید جھوٹ کیساتھ ساتھ نہایت ہی تلخ قسم کے حقائق کا ایسا مجموعہ ہے کہ اس کو دیکھ کر کوئی بے وقوف بھی آپ کو قرض نہیں دے سکتا کجا کہ آئی ایم ایف آپ کو قرضہ دے دے۔جیسا کہ اوپر اعتراف کر چکا ہوں کہ مجھے بجٹ نامی گورکھ دھندے کا زیادہ علم نہیں ہے مگر جو چیزیں بالکل سامنے کی ہیں ان کے بارے میں معاشیات کا علم ہونا ضروری نہیں ہے۔جیسا کہ مجھے ادھر پردیس میں اس بات کا علم ہے کہ میں اپنی جیب میں موجود پیسوں سے ادھر اللے تللے نہیں کر سکتا لہٰذا ہاتھ کھینچ کر خرچہ نہ کیا تو پردیس میں دیوالیہ ہونے کی نوبت آ سکتی ہے۔ اب بھلا اس حقیقت اور سچائی کا ادراک ہونے کیلئے ماہرِ اقتصادیات ہونا کیا ضروری ہے؟ جس طرح پردیس میں اپنی معاشی حالت اور اخراجات کو کنٹرول نہ کرنے کی صورت میں جو صورتحال مجھے پیش آ سکتی ہے وہ مجھے دیوار پر لکھی صاف دکھائی دے رہی ہے بالکل اسی طرح اس بجٹ کے موٹے موٹے دو تین پوائنٹ مجھے بڑی آسانی سے سمجھ آ رہے ہیں۔
یہ کل 14,460ارب روپے کا بجٹ ہے‘جس میں آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکس سے ہونے والی وصولی ہے۔ چودہ ہزار چار سو ساٹھ ارب روپے میں ٹیکسوں سے آمدنی کا تخمینہ 9200 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ مزید 2963 ارب روپے کی آمدنی ایسی ہے جو ٹیکسوں کی وصولی کے علاوہ شامل کی گئی ہے۔ یعنی کل آمدنی 12163ارب روپے ہے۔ یہ وہ آمدنی ہے جو صرف اور صرف ہوا میں ہے۔ یعنی یہ صرف سرکار کا اندازہ ہے کہ وہ اتنی رقم اکٹھی کر لے گی۔ جبکہ حالت یہ ہے کہ موجودہ سال میں کل حاصل کیا جانے والا ٹیکس 7640ارب روپے ہے۔ بندہ پوچھے کہ اس خراب صورتحال میں جبکہ چالیس فیصد ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں اور بہت سی اس مرحلے میں داخلے کیلئے تیار کھڑی ہیں۔ تعمیراتی شعبہ دمِ مرگ پر ہے اور باقی ہر قسم کا کاروبار بیٹھا ہوا ہے بھلا اگلے سال میں حالیہ ٹیکس وصولیوں سے 1560ارب روپے زیادہ ٹیکس اس طرح وصول ہوگا؟ اور تقریباً تین ہزار روپے کا نان ٹیکس ریونیو کہاں سے آئے گا؟ اگر اس محض فرضی اور بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی آمدنی کو درست بھی مان لیں تو اس میں سے 5276ارب روپے صوبوں کا حصہ چلا جائے گا۔ اب جو خالص (خیالی) آمدنی باقی بچتی ہے وہ صرف 6887ارب روپے ہے اور باقی سب کچھ مانگے تانگے کا ہے۔1906ارب روپے اِدھر ادھر سے مانگے تانگے کی مد میں ہیں یعنی Non-Bank Borrowingہے۔2527ارب روپے خاص بیرونی وصولیاں (پاکستانیوں کی بیرونی ممالک سے بھیجی جانے والی رقوم) ہیں اور مبلغ 3124ارب روپے بینکوں سے حاصل ہونے والا قرضہ ہے۔ یعنی کل 7557ارب روپے خیراتی اور قرض کی مد والی آمدنی ہے۔
ادائیگیوں والی صورتحال اتنی خراب ہے کہ اسے دیکھ کر رونا آتا ہے۔ 7303ارب روپے صرف سود کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ یعنی آمدنی (خیالی) 6887روپے ہے اور سابقہ قرضوں پر سود 7303ارب روپے ادا کرتے ہیں۔ دفاعی بجٹ 1804ارب روپے کا ہے۔ ترقیاتی بجٹ 1340ارب روپے کا ہے جس میں سے 450ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں مفت خوروں اور نکموں کو ادا کیے جائیں گے۔ حکومت چلانے کیلئے صرف 714ارب روپے موجود ہیں۔ یہ وہ بجٹ ہے جس کیلئے اسحق ڈار کو عزت و آبرو سے بلایا گیا‘اس کی سیل شدہ پراپرٹی کو بغیر قانونی کارروائی واگزار کیا گیا۔ اس کے ضبط شدہ بینک اکاؤنٹ بحال کیے گئے اور مفتاح اسماعیل کو خواروخستہ کیا گیا۔
کسی خسارے میں چلنے والی کمپنی نے پلاننگ منیجر کیلئے اخبار میں اشتہار دیا۔ منتخب ہونے والے اسحاق ڈار جیسے قابل شخص کو پانچ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر نوکری کی خوشخبری سناتے ہوئے اس کو بتایا کہ اب تم نے ایسی پلاننگ کرنی ہے جس سے کمپنی کا خسارہ بھی پورا ہوجائے اور تمہاری تنخواہ کا بندوبست بھی ہو جائے۔ بد خواہوں کا کہنا ہے کہ وہ پلاننگ منیجر تھوڑے عرصے بعد کمپنی کے رہے سہے اثاثے بیچ باچ کر اپنی چار ماہ کی تنخواہ بحساب پانچ لاکھ روپے ماہانہ بمعہ منافع کھرے کرکے چپکے سے کھسک گیا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ شاہ جی کا فرمانا ہے کہ بدخواہوں کی ہر بات پر یقین کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں