"KMK" (space) message & send to 7575

ادارے ایسے برباد نہیں ہوتے … (1)

ملکِ عزیز کی اقصادی بوری نہ صرف یہ کہ پھٹی ہوئی ہے بلکہ اس کا سوراخ بھی روز بروز بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اب بھلا ایسی صورت میں اس بوری کو بھرنا کس طرح ممکن ہے؟ ظاہر ہے ایسی بوری کو بھرنا ممکن نہیں ہے۔ اس روز افزوں بڑے ہوتے ہوئے سوراخ میں آپ مزید قرضوں کا جتنا بھی اناج ڈالیں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس بوری کو بھرنے کے لیے جو کام سب سے ضروری اور فوری کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ اس بوری کی مرمت کی جائے۔ اس کے پھٹے ہوئے حصے کو سِیا جائے اور اس سوراخ کو بند کیا جائے۔ فی الوقت ہماری اقتصادی بربادی کے پیچھے دو عوامل سب سے اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ملکی آمدنی کا بیشتر حصہ کرپشن‘ کمیشن اور کک بیکس کی صورت اوپر ہی اوپر سے غائب ہو جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ خسارے میں چلنے والے وہ ریاستی ادارے ہیں جن کے باعث ہر سال اربوں روپے اس سوراخ سے نکل کر کھوہ کھاتے جا رہے ہیں۔ خسارے سے چلنے والے اداروں نے ملکی معیشت کی بوری میں جو سوراخ کررکھا ہے وہ ہر گزرتے دن پہلے سے بڑا ہوتا جا رہا ہے‘ لہٰذا بوری میں کچھ ٹک بھی نہیں رہا اور ہم اسے بھرنے کی کوشش میں قرض دار در قرض دار ہوئے جا رہے ہیں۔ ان سوراخوں کے خسارے کو پورا کرنے کیلئے کبھی موٹروے اور ایئرپورٹ گروی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کبھی آئی ایم ایف کے آگے کشکول پھیلاتے ہیں‘ کبھی دوست عرب ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں‘ کبھی ورلڈ بینک سے قرضہ لیتے ہیں اور کبھی بے رحم اور لٹیر ے چینی بینکوں سے بھاری سود پر رقم ادھار لیتے ہیں۔ لیکن معاملہ روز بروز ستیاناس سے سوا ستیاناس ہوتا جا رہا ہے۔ سارے ادھار‘ سارے قرضے‘ ساری ملکی آمدنی‘ بیرونی ممالک سے پاکستانیوں کی بھیجی گئی ساری رقوم اور حاصل ہونے والا زرِمبادلہ درآمد اور برآمد کے درمیان شدید عدم توازن اور مختلف اداروں کے خسارے کو پورا کرنے میں نہ صرف خرچ ہو جاتا ہے بلکہ ہر سال آمدنی اور خرچے میں موجود منفی فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
ملک کی مجموعی آمدنی کم ہے اور خرچے زیادہ ہیں۔ ایسی صورت میں ملکی معیشت کو منفی سے مثبت میں لانا تو دور کی بات ہے اسے برابر کرنا بھی موجودہ حالات میں ناممکنات میں سے دکھائی دیتا ہے؛ تاہم بوری میں موجود سوراخوں کو تو کسی حد تک سِیا جا سکتا ہے اور وہ پیسہ جو روزانہ کی بنیاد پر ان سوراخوں سے نکل کر ضائع ہو رہاہے‘ کم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکمران ہیں کہ آئی ایم ایف کے نام پر ہر چوتھے دن گیس‘ پٹرول اور دیگر اَن گنت مدات میں‘ سرکاری فیسوں میں بے پناہ اضافہ کرکے ملک کے چوبیس کروڑ عوام کی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنا رہے ہیں لیکن ان سوراخوں کو بند کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ یہ بات درست ہے کہ ان سوراخوں کو بند کرنے سے چند ہزار لوگ متاثر ہوں گے لیکن کیا دو لوگوں کو گوشت کھلانے کیلئے پوری بھینس کو ذبح کرنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟
اس ملک کی اقتصادی بوری میں جو سوراخ ہیں ان میں پی آئی اے‘ ریلوے‘ بجلی کی ترسیلی کمپنیاں‘سٹیل ملز اور دیگر درجن بھر ادارے ہیں جو ہر سال حکومت کے سینکڑوں ارب روپے اپنے خسارے کو پورا کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ پی آئی اے کے پاس تیس جہاز ہیں۔ ان میں سے بارہ عدد بوئنگ 777کے مختلف Varientہیں جبکہ گیارہ عدد ایئر بس A320 کے مختلف ماڈل ہیں اور سات عدد اے ٹی آر جہاز ہیں۔ یہ کل ملا کر تیس عدد جہاز بنتے ہیں۔ ان تیس جہازوں میں سے گیارہ جہاز تو اڑنے کے قابل ہی نہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ پی آئی اے کے پاس ان کی مرمت کے لیے درکار پرزے خریدنے کیلئے رقم موجود نہیں ہے۔ حال یہ ہے کہ دو عدد بوئنگ 777گزشتہ تین سال سے خراب کھڑے ہیں اور ان تین میں سے ایک جہاز تو دو سال سے اڑان بھرنے کے قابل نہیں۔ ایئربس A320کا یہ عالم ہے کہ دو عدد جہاز 2021ء سے خراب کھڑے ہیں اور تین عدد اس سال خراب ہوئے ہیں۔ سات عدد اے ٹی آر جہازوں میں سے ایک 2020ء سے‘ ایک 2022ء سے اور ایک اس سال خراب ہوا ہے یعنی کل گیارہ جہاز اڑنے کے بجائے زمین پر صاحبِ فراش کھڑے ہیں۔ ان میں سے تین عدد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ناقابلِ مرمت ہیں یعنی سکریپ میں جائیں گے۔
پی آئی اے کی یہ حالت دو دن میں نہیں ہوئی بلکہ یہ گزشتہ کئی دہائیوں سے آہستہ آہستہ بربادی کی اس نہج پر پہنچی ہے۔ گزشتہ سال تیس جہازوں پر مشتمل قومی ایئرلائن کا مجموعی خسارہ اسی ارب روپے سے زیادہ تھا۔ اندازہ ہے کہ اس سال یہ خسارہ ایک سو بارہ ارب روپے سے زیادہ ہو گا نئے مالی سال کے پہلے تین ماہ کا خسارہ اڑتیس ارب روپے ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 171فیصد زائد ہے۔ یعنی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس ادارے کی حالت ہر سال مزید خراب ہو رہی ہے جو ادارہ گزشتہ بیس‘ پچیس سال سے ہر سال مزید خرابی کی طرف گامزن ہے اب اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ اگلے سال منافع میں چلا جائے گا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں۔ صرف چند ہزار ملازمین کے احتجاج کے خوف سے ہر سال سو ارب روپے سے زائد رقم ڈکار جانے والے ادارے کو قائم رکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی لاعلاج بیمار ہاتھی کو روزانہ لاکھوں روپے کے خرچ سے وینٹی لیٹر پر محض اس لیے زندہ رکھنے کی کوشش کی جائے کہ کہیں اس کا مہاوت اور کھانا کھلانے والا بے روزگار نہ ہو جائے۔اب اس کو چلانے کیلئے ایک اور کمپنی بنائی جا رہی ہے اور اس کے تمام پرانے قرضے اور خسارے اس نئی کمپنی کو منتقل کر دیے جائیں گے۔ یعنی پی آئی اے کو خسارے سے پاک کمپنی بنا دیا جائے گا۔ کان کو ادھر سے پکڑنے کی بجائے دوسری طرف سے گھما کر پکڑا جائے گا۔ خسارہ اور قرضے اگر دوسری کمپنی کو منتقل کردیے جائیں گے تو یہ بوجھ پی آئی اے کی کمر سے تو اُتر جائے گا مگر یہ سارا بوجھ جس نئی کمپنی کی کمر پر بھی لاد دیا جائے اس کا حقیقی بوجھ تو ریاست پر ہی رہے گا۔ پی آئی اے کو اس بات کی کلین چٹ دی جائے گی کہ اب وہ نئے سرے سے خسارہ کرنا شروع کردے کیونکہ اب اس کے نام پر کوئی قرضہ یا گھاٹے کا لیبل موجود نہیں ہے۔
ہزاروں افراد پر مشتمل عملے والی اس ایئر لائن کے پاس فی الوقت صرف انیس جہاز ہیں جو اڑان بھرنے کے قابل ہیں مگر مستقبل میں پرزوں کی خریداری کیلئے رقم نہ ہونے کے باعث مزید جہازوں کے گراؤنڈ ہونے کے امکانات کا خطرہ ابھی سر پر ہے۔ ابھی گزشتہ سے پیوستہ روز کی بات ہے کہ پی آئی اے کی اندرون ملک کی دس پروازیں منسوخ ہوئیں‘ تاہم اللوں تللوں کا یہ عالم ہے کہ سابقہ وزیر ہوا بازی سرور خان کے 262پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہونے کے بیان کے بعد سے پی آئی اے کی یورپ اور برطانیہ کیلئے براہِ راست پروازوں پر پابندی ہے لیکن یورپ اور برطانیہ وغیرہ میں نہ صرف یہ کہ بیشتر سٹیشنزابھی تک کھلے ہوئے ہیں اور وہاں کا عملہ کسی کام کے بغیر ایک عرصے سے زرِ مبادلہ میں بھاری تنخواہیں وصول کر رہا ہے بلکہ حال ہی میں برطانیہ میں 70ہزارپاؤنڈ سالانہ تنخواہ پر ایک عدد نئے کنٹری منیجر کا تقرر بھی کیا گیا ہے اور ایک عدد پسنجر سیلز منیجر ‘ ایک فنانس منیجر اور ایک مزید منیجر مانچسٹر میں تعینات کیے گئے ہیں جن میں ہر ایک کی سالانہ تنخواہ 55ہزاربرطانوی پاؤنڈ ہے۔ جو مجموعی طور پر پاکستانی کرنسی میں ساڑھے نو کروڑ روپے بنتی ہے۔ ان سٹیشنز پر آمدنی صفر ہے جبکہ دفاتر کے کرائے اور دیگر سٹاف کی تنخواہوں کی مد میں پہلے ہی کروڑوں روپے ماہانہ کا خرچ ہو رہا تھا اوپر سے مزید چار افسران کو مفت کی تنخواہیں وصول کرنے کیلئے برطانیہ بھیج دیا گیا ہے۔ تنخواہوں کے علاوہ دیگر مراعات علیحدہ ہیں۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں