"KMK" (space) message & send to 7575

شفاف کا مفہوم اور ماسٹر عبدالقادر مرحوم

انتخابات تو اس ملک میں ایک عرصے سے ''شفاف‘‘ ہی ہوتے آ رہے ہیں‘ تاہم اس عاجز کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات جس قدر صاف اور شفاف ہوں گے اس کی ماضی میں اگر کوئی مثال دی جا سکتی ہے تو وہ صرف پرویز مشرف کا ریفرنڈم ہو سکتا ہے۔ اللہ بخشے ماسٹر عبدالقادر صاحب کو‘ انہوں نے ایک بار شفاف کی تعریف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ شفاف سے مراد ایسی شے ہے جس کے آر پار دکھائی دے۔ شے جتنی زیادہ شفاف ہو گی اس کے آر پار اتنا ہی زیادہ صاف اور واضح دکھائی دے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آئندہ انتخابات کے لیے کی جانے والی ''تیاریوں‘‘ پر نظر دوڑائیں تو ابھی سے آر پار اتنا صاف اور واضح دکھائی دیتا ہے کہ الیکشن کی شفافیت پر رتی برابر شک نہیں رہ جاتا۔
نگرانوں کا کام صرف اور صرف غیر جانبدار انتخابات کروانا ہوتا ہے۔ غیر جانبداری کا یہ عالم ہے کہ موجودہ حکمران سیٹ اَپ میں ہمارے دو دوست تو ایسے ہیں جو عمران خان کے دور میں ایک طویل عرصے تک نیب کی قید وبند میں رہے۔ انسان آخر اپنی جبلت اور جذبات پر کتنا قابو پا سکتا ہے اور رنج و ملال اور طیش سے کتنا بچ سکتا ہے؟ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایسا بندہ اگر انتقام نہ بھی لے تو کم از کم انصاف نہیں کر سکتا‘ لیکن ادھر ایسے لوگ متعین کر دیے گئے ہیں جو ذاتی مصائب کا شکار ہوئے‘ اب ان سے جوابی طور پر انصاف کی توقع کرنا بھی حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں مگر ادھر یہی ہو رہا ہے۔
مجھے اقرار ہے کہ میں نہ تو قانونی ماہر ہوں اور نہ ہی مجھے اس معاملے میں کوئی خوش فہمی ہے‘ میں تو صرف مملکتِ خداداد پاکستان میں عام آدمی کے ساتھ ہونے والے قانونی سلوک کا موازنہ اس ملک کی ایلیٹ کے ساتھ ہونے والے سلوک سے کرتا ہوں۔ ظاہر ہے ملکی قانون تو صرف ایک ہے اور آئین بھی ایک ہی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں آئین اور قانون کا مفہوم بھی ہر دور میں مختلف نکالا جاتا ہے اور یہ ساری قانونی اور آئینی تشریحات زور آوروں کا موڈ اور مرضی دیکھ کر کی جاتی ہیں تاکہ پہلے سے برہم مزاج مزید برہم نہ ہو جائے اور طویلے کی بلا بندر کے سر پر نہ پڑ جائے۔ اس محاورے کی کیا تشریح کریں‘ بالکل آسان سا محاورہ ہے اور ہر ایک کو اس کی پوری جانکاری ہے۔
اب اس بات پر کیا قانونی بحث کی جائے کہ مجرم (ملزم نہیں) کی حفاظتی ضمانت کا کیا قانون ہے اور مفرور و اشتہاری کی گرفتاری کا کیا طریقہ کار ہے۔ ہمارے بزرجمہر میاں نواز شریف کی پاکستان آمد سے قبل ہی مل جانے والی حفاظتی ضمانتوں کی جو مرضی دلیل دیں لیکن اس قسم کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی کہ ماضی میں ایسی سہولت کسی عام پاکستانی شہری از قسم موچی‘ ڈرائیور‘ خانساماں‘ کسان‘ کلرک‘ تانگہ بان یا کسی سکول ٹیچر کو دی گئی ہو۔ پارٹی ترجمان اگر ان کو ملنے والے عدالتی اور سرکاری پروٹوکول کا موازنہ کرتے ہیں تو عمران خان کے عدالت کے باہر گاڑی میں بیٹھ کر حاضری لگوانے سے کرتے ہیں۔ اب بھلا ایک ماورائے قانون سہولت کا موازنہ دوسری ماورائے قانون سہولت سے کر لیا جائے تو دونوں کے درست ہونے کا اخلاقی اور قانونی جواز کہاں سے نکل آتا ہے؟ ہاں! یا تو ایسا ہو کہ اس قسم کی سہولت کا تذکرہ کرتے ہوئے کوئی ایسی مثال دی جائے جو کسی عام پاکستانی شہری کو اس سے قبل دی گئی ہو یا کم از کم یہی کر دیں کہ ان حالیہ قائم کردہ مثالوں کو پی ایل ڈی (The All Pakistan Legal Decisions) کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ مقتدر لوگوں کو ملنے والی یہ سہولت بطورِ نظیر عدالتوں میں استعمال ہو اور عام پاکستانی بھی اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہو سکے۔
شاہی قلعے جیسے محفوظ قومی ثقافتی ورثے میں مغل بادشاہوں کے ایوانِ عدل کے عین سامنے بننے والے ہیلی پیڈ پر گزشتہ چار سال سے عدالتی مفرور جب فاتحانہ شان اور لیڈرانہ کروفر کے ساتھ اترے ہوں گے تو اس عاجز کو یقین ہے کہ مغلیہ بادشاہوں کی روح کو بڑا سکون ملا ہوگا کہ سینکڑوں برس گزرنے کے باوجود اس خطے میں اب تک چنیدہ انصاف و قانون ہی رائج ہے۔ شہنشاہیت کب کی رخصت ہو گئی مگر شاہانہ ذہنیت اب بھی موجود ہے۔ آئین و قانون کا اطلاق اب بھی اسی طرح ہو رہا ہے جس طرح مطلق العنان بادشاہت کے دور میں ہوا کرتا تھا۔ ایوانِ خاص کے درو دیوار اپنی پرانی روایات کی پاسداری پر یقینا خوش ہوئے ہوں گے اور مغل بادشاہوں کی روح کو یک گونہ سکون ملا ہوگا کہ مملکتِ جمہوریہ میں بھی وہی کچھ رائج ہے جو مغلیہ بادشاہت میں رائج تھا۔
اوپر سے رہی سہی کسر نگران حکمرانوں نے نکال دی ہے اور نظامِ عدل کی پھرتیوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے از خود میاں نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں ٹرائل کورٹ کی دی گئی دس سال کی سزائے قید معطل کر دی ہے۔ حالانکہ چار دن صبر کر لیا جاتا تو یہی کام عدالتوں نے بھی کر دینا تھا‘ مگر اللہ جانے اتنی پھرتیوں سے کیا نکالنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا ذکر چلے تو نگران فرماتے ہیں کہ قانونی معاملات کو دیکھنا ان کا نہیں عدالتوں کا کام ہے لیکن میاں نواز شریف کی دس سالہ سزا کا معاملہ آیا تو پنجاب کی نگران کابینہ اس معاملے میں عدالتی کارروائی کا انتظار کرنے کے بجائے اچانک سے کود پڑی اور اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدالت کی جانب سے دی گئی دس سالہ قید کی سزا کو معطل کردیا۔ کیا پنجاب کابینہ‘ جو محض نگران کابینہ ہے اور فی الوقت اس کی واحد ذمہ داری یہ ہے کہ اس صوبے میں آئندہ ہونے والے انتخابات کے لیے غیر جانبدارانہ بندوبست کرے‘ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ الیکشن کے ایک فریق کو‘ جو بظاہر اگلا غیر اعلان شدہ امیدوار برائے وزارتِ عظمیٰ ہے‘ اس قسم کی سہولت مہیا کرے جو غیر جانبداری کے نام پر باقاعدہ تہمت ہے۔
اس ملک میں اپنے پسندیدہ شخص کے سر پر ہما بٹھانے کا سلسلہ گو کہ بالکل بھی حیران کن نہیں ہے لیکن اس سے قبل جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ بہرحال کسی حد تک پردے میں ہوتا تھا اور معاملات اس طرح کھل کھلا کر سامنے نہیں آتے تھے۔ ملتان سے رانا اقبال سراج دو دن کیلئے غائب ہوا تھا تو واپس آکر اعلان کیا تھا کہ اس کو محکمہ زراعت والے غلط فہمی میں اٹھا کر لے گئے تھے۔ کھاد کے کاروبار سے وابستہ رانا اقبال سراج کی وضاحت معقول ہونے کے باوجود ضرب المثل بن گئی اور لوگوں کی تفننِ طبع کا باعث بنی مگر اب معاملات کس طرح چل رہے ہیں؟ شیخ رشید چلہ کاٹ کر آتے ہیں تو یہ نہیں بتاتے کہ کس جماعت کے ساتھ چلے پر گئے تھے اور کس علاقے میں تبلیغ کرکے واپس آئے ہیں۔ فرخ حبیب نے پریس کانفرنس میں یہ نہیں بتایا کہ وہ اتنے دن کہاں تھے ۔ عثمان ڈار نے کئی روز کی سیروسیاحت کے بعد ٹی وی پر آکر انٹرویو دیا تو نہ انہوں نے بتایا کہ وہ سیر کرنے کس علاقے میں گئے تھے اور نہ ہی اینکر نے ان سے یہ سوال کیا۔ اب گو کہ سچائی بیان نہیں کی جا رہی مگر کسی سے پوشیدہ بھی نہیں ہے۔ اب کسی کو کچھ بتانے یا سمجھانے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی اب کسی کو اس بارے میں کوئی پروا ہے۔
اللہ ماسٹر عبدالقادر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے‘ شفاف کی کیا عمدہ تشریح سمجھا گئے تھے کہ آج کامل اکیاون سال بعد بھی نہ صرف پوری تصویر منظر نامے کے ساتھ ذہن پر نقش ہے بلکہ پوری صحت کے ساتھ لاگو بھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں