"KMK" (space) message & send to 7575

رجوع

لکھنا تو کچھ اور تھا مگر شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور آئینِ پاکستان کے تحت فرد کو حاصل آزادی کو یوں سرِ بازار رسوا ہوتے دیکھ کر ارادہ بدل لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر شاہ محمود قریشی کے خلاف لکھے گئے کالموں کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اس عاجز کے کالموں کی تعداد شاید سب سے زیادہ ہو گی اور اس کی وجہ شاہ محمود قریشی سے کسی قسم کا کوئی ذاتی بغض و عناد نہ تھا۔ کسی قسم کے سیاسی مفادات سے قعطاً لاتعلق اس قلمکار کی بھلا کسی بھی سیاستدان سے ذاتی دوستی یا دشمنی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟ مجھے شاہ محمود قریشی کی جن باتوں سے اصولی اختلاف تھا وہ تو اب بھی اپنی جگہ قائم ہیں لیکن فی الوقت ان کا یارا نہیں کہ شاہ محمود قریشی ریاستی جبر کا شکار ہے اور ایسے موقع پر ان باتوں کو دہرانا ''مرتے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف ہے اور یہ عاجز اتنا کم ظرف نہیں کہ ان پرانی باتوں کو یاد کرے۔ اللہ شاہ محمود قریشی کو اس دورِ ابتلا سے نجات دے اور آسانیاں عطا کرے۔ جب وہ آزاد ہوں گے تو ہم بھی لکھنے میں کسی قسم کی رُو رعایت کئے بغیر قلم کا نشتر تیز کر لیں گے مگر فی الوقت تو وہ جس ظلم‘ زیادتی‘ جبر اور لاقانونیت کا شکار ہیں اس پر قلم نہ اٹھانا اس جبر اور فسطائیت کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے جو اس وقت ہمارے ہر طرف نہ صرف موجود ہے بلکہ صاف صاف دکھائی بھی دے رہی ہے۔
اپنے خطے کے سیاستدانوں سے تعلقات خراب کرنے میں یدطولیٰ رکھنے والے اس عاجز سے اگر کسی سیاستدان کے تعلقات اس حد تک مناسب ہوں کہ کسی تقریب میں ملیں اور سلام دعا کرلیں تو اس کا کریڈٹ اس کالم نگار کو نہیں بلکہ اُس سیاستدان کو جاتا ہے جو خود پر کی جانے والی تنقید کے باوجود دل بڑا کرکے در گزر سے کام لیتا ہے اور بیشتر سیاستدانوں کی طرح بول چال بند کرنے کے بجائے ہاتھ ملانے اور حال چال پوچھنے کی کرم نوازی کرتا ہے۔
ایک بار ایسا ہوا کہ اسلام آباد سے ملتان آنے والی فلائٹ میں سوار ہوا تو اسی فلائٹ میں سید یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔ حالانکہ سید یوسف رضا گیلانی وسعتِ قلبی اور تحمل و بردباری کے حوالے سے ملتان کے تقریباً سب سیاستدانوں میں بہتر ریکارڈ کے حامل ہیں‘تاہم میرے معاملے میں وہ اس درگزر سے کام نہیں لیتے جو اُن سے نہ صرف منسوب ہے بلکہ درست بھی ہے۔ ہم ایک شہر میں رہتے ہیں‘ لہٰذا مختلف تقریبات میں ٹاکرا بھی ہو جاتا ہے‘ تاہم سلام دعا یا ہاتھ ملانے کا مرحلہ اسی صورت میں آتا ہے کہ ہم اتفاقاً بالکل آمنے سامنے آ جائیں۔ بصورتِ دیگر وہ مجھے نظر انداز کرتے ہیں اور میں بھی انہیں لپک کر ملنے کی کوشش نہیں کرتا۔ خیر اُس روز بھی جہاز میں سید یوسف رضا گیلانی اور میں اس طرح بیٹھے تھے کہ ہم تقریباً آمنے سامنے تھے۔ وہ اس طرح کہ اے ٹی آر جہاز میں دائیں ہاتھ پر سب سے اگلی سیٹ کا رُخ آگے ہونے کے بجائے پیچھے کی طرف ہوتا ہے جبکہ دوسری قطار سے لے کر آخری قطار تک کی سیٹوں کا رخ آگے کی طرف ہوتا ہے۔ میں دائیں ہاتھ والی پہلی قطار میں تھا اور میرا منہ جہاز کی باقی سواریوں کی طرف تھا جبکہ گیلانی صاحب بائیں ہاتھ کی دو سری قطار میں تھے۔ یعنی وہ اور میں عین سامنے تو نہیں تھے تاہم وتری طور پر آمنے سامنے تھے اور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے حسبِ معمول مجھے نظرانداز کیا‘ ادھر میں بھی اپنے سامنے تشریف فرما ایک دوست سے باتیں کرتا رہا۔
ملتان ایئرپورٹ پر جب میں جہاز سے اُترا تو کیا دیکھتا ہوں کہ نیچے عزیزم رؤف کلاسرا اپنے ہینڈ کیری کو وصول کرنے کا منتظر ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی اور میں آگے پیچھے جہاز سے اترے اور دونوں ہی رؤف کلاسرا کی طرف چل پڑے۔ اب کیونکہ براہِ راست ٹاکرا ہو گیا تھا لہٰذا ہم دونوں نے مروتاً ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملالیا تاہم جس سرد مہری اور بے دلی سے ہم دونوں نے ہاتھ ملایا رؤف کلاسرا نے اسے محسوس کرتے ہوئے کہا: مرشد! آپ کا گیلانی صاحب سے کوئی مسئلہ ہے؟ میں نے مسکرا کر اسے کہا کہ میرا تو ان سے کوئی مسئلہ نہیں اور بھلا ہو بھی کیا سکتا ہے‘ تاہم ان کو ضرور مجھ سے کچھ مسئلہ ہے کہ ہر بار خرابی میری طرف سے ہی ہوتی ہے۔
ملتان کے گدی نشینوں اور خصوصاً حضرت بہاء الحق ؒ کے قریشی گدی نشینوں کی سرکار ِانگلیشہ کی خدمت گزاری اور جنگِ آزادی میں مجاہدین عرف باغیوں کی سرکوبی میں انگریز حکمرانوں کی مدد اور عوضانے میں جاگیروں کے حصول کے حوالے سے یہ عاجز قلم اٹھاتا رہا ہے اور انگریز دربار سرکار میں کاسۂ لیسی کرنے والے گدی نشینوں کی آل اولاد کو اسی طرزِ عمل کی توسیع بھی قرار دیتا رہا ہوں‘ تاہم اس بار خلاف ِتوقع اور خلافِ معمول شاہ محمود قریشی نے جس ثابت قدمی اور حوصلے کا ثبوت دیا ہے اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔
چند ماہ پہلے تک میرا خیال تھا کہ یہ شاہ محمود قریشی اور مقتدرہ کے مابین شاید نورا کشتی ہے اور اس بات کی تصدیق کی خاطر میں نے شاہ محمود قریشی کے ایک قریبی عزیز سے اس بات کی پروا کئے بغیر کہ وہ اسے کیسا محسوس کرتا ہے پوچھا کہ آپ قریشی گدی نشین بھلا اتنے بہادر کب سے ہو گئے ہو کہ زور آوروں کے سامنے ڈٹ جاؤ اور دنیاوی لوبھ اور اقتدار کے بجائے مصائب اور مشکلات کا راستہ اختیار کر لو؟ وہ دوست مسکرایا اور کہنے لگا: ہمیں بھی اس پر حیرت ہے لیکن اس حیرت کیساتھ ساتھ ہمارے دل میں شکوک و شبہات بھی ہیں کہ شاید یہ سب کچھ ویسا نہ ہو جیسا کہ دکھائی دے رہا ہے اور میرا تو ذاتی خیال بھی یہی ہے کہ یہ سب کچھ طے شدہ ہے اور جلد ہی سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ اس دوست نے میرے شک کو تقویت پہنچاتے ہوئے کہا کہ ملتان کے مخادیم کو میں آپ سے کہیں بہتر جانتا ہوں۔ یہ اقتدار کی پر پیچ گلیوں کو مقتدرہ کی مدد سے طے کرتے ہوئے مسندِ اقتدار تک پہنچنے کے جس فن کے ماہر ہیں اس کے پیش نظر یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ جدوجہد اور استقامت کا راستہ اپنائیں‘ بس چند روز کی بات ہے اور پھر شاہ محمود بذریعہ مقتدرہ پی ٹی آئی کی قیادت سنبھال کر اس کے دانت نکال دیں گے۔ میں نے اُن صاحب کی بات سے اتفاق تو کر لیا لیکن وہ چند روز کے بعد والی صورتحال کے بارے میں ان کا تجزیہ اور میرا خیال شاید درست نہیں تھا۔
شاہ محمود قریشی نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس پر اگر کسی کو کوئی شک تھا تو وہ حالیہ ریاستی جبر نے دور کردیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب مقتدرہ شاید اس خوف سے آزاد ہو چکی ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور عوام کا موڈ کیا ہے۔ معاملات کو اپنی مرضی کا رُخ دینے اور انتخابات سے اپنی مرضی کے نتائج لینے کیلئے اب ایسے اقدامات سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا جو کبھی چھپائے جاتے تھے اور انہیں پردے میں رکھنے کی سعی کی جاتی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ سب کو وہ سب کچھ صاف دکھائی دے رہا ہے۔جو پہلے پوشیدہ ہوتا تھا‘ تاہم انہیں ہی دکھائی نہیں دے رہا جنہیں یہ دکھائی دینا چاہئے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں۔
مقتدرہ کیلئے یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مشکل اور ٹیڑھے الیکشن ہیں کہ پہلے ایک منصوبہ بنتا تھا جو آخر تک بخیرو خوبی چلتا تھا اور مرضی کے نتائج بھی دیتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ہر چوتھے روز کوئی نیا منصوبہ بنتا ہے جو دو تین دن بعد ناکارہ ثابت ہوتا ہے اور پھر نیا منصوبہ بنتا ہے اور اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوتا ہے۔ نہ کوئی منصوبہ چل رہا ہے اور نہ کوئی حل نکل رہا ہے۔ اوپر سے مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسے لوگ ثابت قدمی اور استقامت کی راہ پر چل پڑے ہیں اور ہم اپنے پرانے خیالات سے رجوع کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں