"KMK" (space) message & send to 7575

لہربہر اور خدا کا قہر

اس ملک میں اور کچھ ہو یا نہ ہو مگر بیانات کے اعتبار سے یہ مملکت اتنی زرخیز اور بارآور ہے کہ خوش گمان ہمہ وقت ان بیانات سے دل بہلاتے رہتے ہیں۔ اس قوم کا سب سے شاندار پہلو یہ ہے کہ کبھی کسی نے ان بیانات کا منطقی‘ معاشی یا عقلی جائزہ لینے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ بس میرے لیڈر نے جو کہہ دیا وہ صرف سچ ہی نہیں بلکہ حرفِ آخر ہے اور اس کے بعد قیامت ہے۔ جسے دیکھو وہ پوپلے منہ سے جو جی میں آتا ہے کہہ دیتا ہے اور طبلچی ہیں کہ داد کے ڈونگرے اور تالیاں پیٹنے کیلئے پہلے ہی تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ قوم نہ ہوئی گویا خاندانِ شغلیہ ہو گیا۔
وزرا اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ وہ ملکی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تنخواہ وصول نہیں کریں گے۔ قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے بھی تنخواہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ طبلچی اس پر واہ واہ کی گردان لگائے بیٹھے ہیں۔ اب اعلانات کی تصدیق کہاں سے کی جائے؟ اصل معاملہ تو بہت بعد میں کھلتا ہے جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کا بطور وزیراعظم لندن میں اپنے پلے سے علاج کروانے والے اعلان کی حقیقت بھی بعد میں کھلی تھی‘ مگر اسمبلی میں علاج پلے سے کروانے کے اعلان پر تالیاں بجائی جا چکی تھیں۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن تک اپنی تو پہنچ نہیں کہ وہاں سے اس سلسلے میں تصدیق کی جا سکے۔ فنانس ڈویژن میں بھی یہی حال ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن والا اپنا کتابی حق وصول کرنے کیلئے ہر بندے کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ اس عاجز کے پاس نہ تو وکیلوں کو ادا کرنے کیلئے فیس ہے اور نہ ہی عدالتوں میں خوار ہونے کیلئے وقت ہے۔ باقیوں کو چھوڑیں صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے تنخواہ سے دستبرداری والے اعلان سے مرشدی مشتاق احمد یوسفی یاد آگئے ہیں۔اب پردیس میں یوسفی صاحب کی کتابیں تو میسر نہیں کہ وہ اقتباس سطر بہ سطر اور لفظ بہ لفظ قلمبند کر سکوں لہٰذا صرف اور صرف یادداشت پر بھروسا کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں۔ لفظ اوپر نیچے ہو سکتے ہیں اور تحریر میں وہ روانی اور جولانی بھی نہیں ہو گی جو مشتاق یوسفی صاحب ہی کا خاصہ ہے لیکن اس عاجز کی یادداشت اتنی خراب بہرحال نہیں ہے کہ اصل مدعا یاد نہ ہو۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کی معافی اور یوسفی صاحب کی روح سے معذرت کیساتھ قارئین سے بھی درخواست ہے کہ زیر زبر کی غلطیاں نکالنے کے بجائے لطف لیں اور اس عمر میں بھی اس عاجز کی برسوں قبل پڑھی ہوئی تحریر کو یاد کے نہاں خانے میں محفوظ رکھنے پرداد دیں کہ غلطیاں پکڑنے کے بجائے ان سے درگزر کرنا کہیں زیادہ بھلا کام ہے۔
انہیں گھر میں خانساماں چاہیے تھا اور وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ بدذائقہ کھانا بنانا صرف تعلیم یافتہ بیگمات تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کام میں پیشہ ور خانساماں بھی کسی سے کم نہیں۔ اسی تحریر میں وہ ملازمت کے امیدوار ایک خانساماں سے انٹرویو کا حال لکھتے ہیں کہ ایک خانساماں ملازمت کے سلسلے میں ان کے پاس آیا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس کا انٹرویو لیتے اس کمبخت خانساماں نے ان کا انٹرویو شروع کر دیا۔ پہلے ان کا نام‘ پتا اور ذریعۂ معاش پوچھا۔ پھر گزشتہ خانساموں کے بارے تفصیلات معلوم کیں کہ وہ نوکری کیوں چھوڑ کر گئے۔ پھر پوچھا کہ ہم مہینے میں کتنی بار کھانا باہر سے کھاتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ ہم جو خوبیاں اس میں تلاش کر رہے وہ انہیں ہم میں تلاش کر رہا ہے۔ اوقاتِ کار کا پوچھا تو کہنے لگا کہ جھاڑو پونچھا نہیں کروں گا، مہمانوں کے ہاتھ ہرگز نہیں دھلواؤں گا، برتن نہیں دھوؤں گا اور میز بھی نہیں لگاؤں گا۔ پوچھا کہ پھر تم کیا کرو گے؟ تو کہنے لگا: جو آپ کہیں کروں گا‘ میں تو تابعدار ہوں۔ پھر کہنے لگا کہ روٹی میں ملباری کے ہوٹل سے کھاؤں گا۔ وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ صاحب! میں نے ہاتھ بیچا ہے زبان نہیں بیچی۔ تنخواہ بارے دریافت کیا تو کہنے لگا: اگر سودا آپ نے لانا ہے تو تنخواہ (اب ٹھیک طرح سے یاد نہیں؛ تاہم فرض کریں) سو روپے لوں گا اگر سودا بھی میں نے لانا ہے تو تنخواہ ستر روپے ہوگی۔ قارئین! اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ ہمارے کائیاں صدرِ مملکت اور سمجھدار وزیروں نے تنخواہ لینے سے انکار کیوں کر دیا ہے۔
ادھر پنجاب کی وزیراعلیٰ نے صوبے میں ایک عدد سٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ آپ یقین کریں یہ اعلان سن کر میری تو ہنسی نکل گئی۔ مجھے اس اعلان سے ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا ہے۔ یہ تب کی بات ہے جب موبائل تھیٹر ہوا کرتے تھے اور سر کس کی طرح قصبے قصبے‘ گاؤں گاؤں گھوما کرتے تھے۔ ایک دیہات میں ایسا ہی تھیٹر آیا۔ تھیٹر کے ایک فنکار نے ''ٹانگے والا خیر منگدا‘‘ گانا شروع کردیا۔ گانا ختم ہوا تو ایک دیہاتی تماشائی نے اُٹھ کر دوبارہ اسی گانے کی فرمائش کر دی۔ فنکار سمجھا کہ شاید اسے میرا یہ گانا بہت پسند آ گیا ہے اس نے لہک لہک کر دوبارہ وہی گانا سنایا۔ جب گانا ختم ہوا تو وہی تماشائی پھر کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ یہی گانا پھر سنایا جائے۔ چارو ناچار گلوکار نے تیسری بار یہی گانا سنایا۔ ابھی گانا بمشکل ختم ہوا تھا کہ وہی تماشائی چوتھی بار کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ یہی گانا ایک بار اور سنایا جائے۔ تھیٹر کا گلوکار روہانسا ہو کر کہنے لگا کہ اس نے اور گانے بھی تیار کر رکھے ہیں وہ بھی سن لیے جائیں۔ تماشائی کہنے لگا: پہلے توں ایہہ گانا تے ٹھیک طراں گا کے وکھا‘ فیر تیرے دوجے گانے وی سن لواں گے (پہلے تم یہ گانا توٹھیک طرح سے گا کر دکھاؤ‘ پھر تمہارے دیگر گانے بھی سن لیں گے)۔ عرض ہے کہ پہلے پرانے ہسپتالوں کو تو ٹھیک طرح چلا لیں پھر نئے ہسپتالوں کو بھی دیکھ لیں گے۔ عالم یہ ہے کہ پرانے ہسپتالوں کا بُرا حال ہے۔ نشتر ہسپتال میں تزئینِ نو کے نام پر لٹ مچی ہے۔ اچھے بھلے فرش اکھاڑ کر نئی ٹائلیں لگائی جا رہی ہیں۔ حتیٰ کہ تھوڑا عرصہ قبل ہی جن وارڈز میں ڈاکٹروں نے ذاتی کاوشوں سے نئی ٹائلیں لگوائی تھیں انہیں اکھاڑ کر سینٹرل کنٹریکٹ کے ذریعے ہونے والی تزئین کے تحت دوبارہ ٹائلیں لگوائی گئی ہیں۔ خواہ ضرورت تھی یا نہیں؛ تاہم یہ ساری تزئینِ نو پورے پنجاب کے ٹیچنگ ہاسپٹلز میں ہو رہی ہے اور اس چکر میں کروڑوں روپے کا کھانچہ لگایا گیا ہے اور اس تمام خرچے کے بعد ہسپتال کیلئے دوائیوں کی خرید کیلئے ایک پیسہ نہیں بچا۔ غریب مریضوں کو پرانے فرش والے ہسپتال میں مفت دوائیاں مل رہی تھیں‘ اب نئی ٹائلوں والے وارڈز میں دوائی میسر نہیں اور سرکار چلی ہے نیا سٹیٹ آف دی آرٹ کینسر ہسپتال بنانے۔
ہر طرف بچت کا دور دورہ ہے اور چاروں طرف اخراجات کم کرنے کی دھوم مچی ہوئی ہے ‘ اسی دوران وزیراعلیٰ پنجاب بلٹ پروف مرسیڈیز گاڑی کی تزئینِ نو یعنی اَپ گریڈیشن پر 27 ملین روپے کا فنڈ مانگا گیا ہے اور ظاہر ہے یہ مل بھی جائے گا کہ انکار کی تاب کسے ہو گی ؟ ابھی میں نے کالم یہیں تک ہی لکھا تھا کہ ڈاؤننگ ٹاؤن سے عزیز دوست خالد منیر کا فون آگیا۔ باتیں تو وہی عام سی ہوئیں مگر میاں چنوں کے رہائشی دوست کے اس فون سے اسی چھوٹے سے شہر کا رہائشی اور جیولن تھرو کا مایہ ناز کھلاڑی ارشد ندیم یاد آگیا۔ ایک طرف ہمارے رہنماؤں کے حکومتی پیسوں پر اللے تللے ختم نہیں ہو رہے اور دوسری طرف اس اولمپک لیول کے کھلاڑی کے پاس موجود اکلوتا عالمی سپورٹس لیول کا جیولن (نیزہ) اپنی عمر ِطبعی سے آگے گزر چکا ہے اور مزید کھیل یا پریکٹس کے قابل نہیں رہا‘ مگر اس کے پاس دوسرا جیولن نہیں ہے اور سرکار کے پاس اسے چھ سات لاکھ روپے کا دوسرا جیولن لے کر دینے کیلئے فنڈز نہیں ہیں۔ الیکشن میں مطلوبہ کارکردگی دکھانے والے سابق نگران وزیزاعظم کو کروڑوں روپے کی بلٹ پروف کار عنایت کی جا سکتی ہے مگر عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے والے کو چند لاکھ کا جیولن لے کر دیتے ہوئے مشکل پیش آرہی ہے۔ کہیں لہر بہر ہے اور کہیں خدا کا قہر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں