احتساب: ایک بھُولا بسرا خواب

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیئر مین نیب کے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ جلد از جلد کسی کو چیئر مین نیب مقرر کرے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے۔ سپریم کورٹ کی یہ ہدایت وقت کی اور آئین کی اہم ضرورت ہے‘ ورنہ یوں لگ رہاتھاکہ احتساب کے عمل میں کسی کی کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔ پچھلے پانچ برس سے مفاہمت کا جو دروازہ کھلاتھا اس کے بند ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ تقریباً ایک ماہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے جس طرح ایک دوسرے پر محبت کے پھول برسائے اور جس طرح ایک دوسرے کے صدقے واری جارہے ہیں‘ وہ اپنی جگہ ایک اچھی روایت ہے لیکن احتساب کے معاملے میں صورتحال کوئی امید افزا نہیں۔ قصر صدارت سے رخصت ہوتے وقت جیسے آصف علی زرداری صاحب کی عزت افزائی ہوئی اس کے جواب میں انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ پانچ سال وہ جناب نوازشریف کی قیادت میں مل کر کام کریں گے۔ یہ صورتحال 1996ء کے بالکل برعکس ہے جب وطن عزیز میں احتساب کا ڈھول زور شور سے بج رہاتھا۔ جناب فاروق لغاری ملک کے صدر تھے۔ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو فارغ کردیا تھا۔علاوہ اور باتوں کے محترمہ کی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات کی ایک طویل فہرست تھی جو ان کی حکومت کے ختم ہونے کی بڑی وجہ بتائی گئی۔ اس ماحول میں احتساب کی ضرورت بڑی فطری تھی۔ لگتا تھا یہ پوری قوم کے دل کی آواز ہو۔ لہٰذا عبوری حکومت کے دور میں احتساب کا قانون بنا جس کے تحت جسٹس غلام مجدد مرزا احتساب کمشنر مقرر ہوئے۔ سابق وزیر اعظم اوران کے خاوند کے خلاف مقدمات درج ہوئے اور تفتیش شروع ہوگئی۔ مختصر عبوری دور میں کچھ ہوا یا نہ ہوا‘1997ء کے انتخابات ہوگئے۔ نئی حکومت دوتہائی اکثریت کے ساتھ آ ئی اور پہلے سے بھی زیادہ جذبے کے ساتھ احتساب کا نعرہ لگایا۔سابق دفتر لپیٹ دیے گئے۔قومی احتساب سیل کے نام سے ایک نیا ادارہ وجود میں آیا جس کے سربراہ سیف الرحمن مقرر ہوئے۔ وہ تقریباً ڈھائی سال تک احتساب سیل کے سربراہ رہے۔ جتنے اختیارات اور وسائل ان کے پاس تھے شاید ہی کسی اور کو ملے ہوں۔ اپنے ادارے کے علاوہ ایف آئی اے اور آئی بی کے اداروں میں بھی وہ دخل اندازی کا مکمل اختیار رکھتے تھے اور حکومتِ وقت کا مکمل اعتماد انہیں حاصل تھا۔ اپنے اختیارات اور وسائل کو استعمال کرتے ہوئے وہ اور تو شاید کچھ نہ کرسکے لیکن ایک مشہور امریکی رسالے میں اپنی تصویر اور کارکردگی چھپوانے میں کامیاب رہے۔ ذاتی کاروباری مسائل حل کرنے کے لیے بھی انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال خوب کیاکہ جس بینک کے مقروض تھے اس کے ایک سینئر افسرکو حکم عدولی کی سزا میں پکڑ کر جیل میں ڈال دیا۔ احتساب کا یہ ناپسندیدہ باب جنرل پرویز مشرف کے حکومت پر قبضے کے ساتھ ختم ہوا اور نئے سرے سے احتساب کا ڈھول پٹنا شروع ہوا۔ اس دفعہ احتساب کے ادارے کا نام نیب تجویز ہوا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے لئے فوجی سربراہ لائے گئے۔ لیکن صد افسوس کہ یہ سب اپنے فوجی حاکم کی آنکھ کے اشارے اور ان کی سیاسی مصلحتوں کے پابند تھے۔ بہت مقدمات درج ہوئے۔ کافی لوگ قید وبند کی صعوبتوں سے گزرے۔ بڑی بڑی رقموں کی وصولی کا دعویٰ بھی ہوا‘ لیکن کوئی ایک بڑی مچھلی بھی جال میں نہ پھنسی۔ خاص طور پر وہ بڑے بڑے سیاسی لوگ تو بالکل محفوظ رہے جن کے خلاف الزامات نے احتساب کے نعرے کو جنم دیا تھا۔ آہستہ آہستہ نیب کا ادارہ پرویز مشرف حکومت کی سیاسی ضرورتیں پوری کرنے کا ایک موثر ذریعہ بن گیا۔جس کسی سیاستدان کی حکومت کو ضرورت ہوتی اس کے خلاف نیب کا جال پھینک کر اسے قابو کیا جاتا اور جنرل صاحب کے قدموں میں ڈال دیا جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے پرویز مشرف دور ختم ہوا اور پاکستانی قوم نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ سنا۔ اس نعرے کے تحت قائم ہونے والی حکومت نے مفاہمت کا جھنڈا بلند کیا اور اپنا معمول کا کاروبار شروع کردیا۔ اس دفعہ یہ کاروبار کروڑوں کی بجائے اربوں میں تھا جس کے نتیجے میں عوام کو حج سکینڈل ، پاکستان انشورنس کارپوریشن کی اربوں کی رقم خوردبرد ہونے اور ایفی ڈرین کی خبروں کے تحفے ملے۔ بے شمار چھوٹی موٹی کارروائیاں اس کے علاوہ تھیں۔ اداروں کی تباہی کا عمل شروع ہوا۔ پاکستان ریلوے مکمل طور پر بلوری رنگ میں رنگی گئی۔ پی آئی اے کا نالائق انتظامیہ کے ہاتھوں حشر ہوا اور پاکستان کی واحد سٹیل مل عبرت کا نشان بن گئی۔ یوں پانچ سال پورے ہوئے تو قوم کو سمجھ آئی کہ جمہوریت کا انتقام کیسا ہوتاہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ پھر احتساب کا نعرہ گونجا جس میں انتخابی تقریروں کی وجہ سے اور بھی گرما گرمی پیدا ہوئی۔ دامن پر کرپشن کا الزام رکھنے والے سیاستدانوں سے ایک ایک پائی وصول کرنے کے اعلان ہوئے اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا عزم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس سوچ کا بھی اعادہ ہوا کہ جن لوگوں نے پرویز مشرف کے دور میں خوب ہاتھ رنگے تھے ان کو بھی نہیں بخشا جائے گا اور جو اربوں روپے انہوں نے ناجائز طریقے سے لوٹے تھے سب واپس لئے جائیں گے۔ مگر ع ’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو قائم ہوئے تقریباً چار مہینے ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک صرف نیب کے سربراہ کے نام پر بحث مباحثہ جاری ہے۔ کب اس کا تقرر ہوگا؟ کب وہ کام شروع کرے گا؟ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کسی کو فکر ہے نہ پروا۔ یوں لگتا ہے انتخابی تقریریں اور اربوں روپے نکلوانے کی باتیں ایک سپنا تھا جو قوم کو دکھایا گیا۔ مزید بدقسمتی یہ کہ موجودہ دور میں مختلف کاموں کے حوالے سے الزامات کے جھکڑ چلنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے بارے میں نہ کوئی وضاحت دی جاتی ہے نہ کوئی صفائی۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جو اس وقت ہورہا ہے ہونا ہوہی تھا لیکن تیز وتند انتخابی تقریریں محض خون گرم کرنے کا بہانہ تھا اور اربوں روپے نکلوانے کی باتیں ایک سہانہ خواب تھا جو قوم کو دکھایا گیا۔لیکن ایسے خواب دکھانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قول اورفعل میں اتنا کھلا تضاد اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وقتی کامیابی کے لیے ایسے خواب دکھانے والوں کو خالق کائنات ہدایت دے اورایسے خواب دیکھنے والوں پر اﷲ اپنا رحم کرے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں