نیا بجٹ حکومت کیلئے ایک نیا امتحان ہے۔ اس کو پاس کروانا بھی جوئے شیر لانے کے متراد ف ہوگا۔ حکومت کو ایک طرف اپوزیشن کو مطمئن کرنا ہو گا تو دوسری طرف عوام اور تیسری طرف آئی ایم ایف کو۔ یہ سب اتنا آسان نہیں ہوگا۔ معاشی بدحالی کا مقابلہ کرنا دشمن سے جنگ لڑنے سے بھی زیادہ مشکل اور ٹیکنیکل کام ہے۔ حکومت کی نیت درست سہی مگر پھر بھی کچھ کام ایسے ہیں کہ جو اَب کریں تو بھی مسئلے اور نہ کریں تو بھی۔آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل دردِ سر ہی ہوتی ہے چاہے اس کے نتیجے میں قرضے کی قسط مل ہی کیوں نہ جائے۔ قرض دینے والے کے اپنے نخرے ہوتے ہیں اور ہمیں وہ برداشت کرنے ہی کرنے ہیں۔ وہ کون کون سے نخرے ہیں اوران کے اثرات کیا ہوں گے‘ ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستان کا آ ئندہ مالی سال (2025-26ء)کا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا جا رہا ہے جب ہم آ ئی ایم ایف کی سخت شرائط کے نرغے میں ہیں۔ حالیہ سٹاف لیول معاہدے کے تحت بین الاقوامی مالیاتی فنڈز نے پاکستان کو اگلی قسط دینے کیلئے 11 اہم شرائط لگادی ہیں۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئند ہ مالی سال 2025-26 ء کے لیے تقریباً 17,600 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے‘ جو پروگرام کے اہداف کے مطابق ہو۔ اس بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کا حجم تقریباً 1.07 کھرب روپے رکھا گیا ہے‘ جبکہ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق سود کی ادائیگیاں 8.7 کھرب اور مجموعی مالی خسارہ 6.6 کھرب روپے تک ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ پاکستان کو مالی سال 2026ء میں بنیادی بجٹ سرپلس حاصل کرنا ہوگا۔ موجودہ سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو پارلیمنٹ میں مطلوبہ اکثریت اور سیاسی حمایت درکار ہوجائے گی‘خاص طور پر اس وقت جب بجٹ میں نئے ٹیکس یا اخراجات میں کٹوتی وغیرہ شامل ہوں‘ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں اس پر ضرور مخالفت کرسکتی ہیں تاکہ عوام میں انہیں پذیرائی مل سکے۔ آ ئی ایم ایف غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے کی بھی تجویز دیتا ہے تاکہ جتنا ہوسکے مالی خسارہ کم سے کم ہو۔ اور یہ بات درست بھی ہے کہ جتنا مالیاتی خسارہ کم ہوگا ملک کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات بھی کم ہو تے جائیں گے‘ اور معاشی استحکام کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ لیکن بجٹ میں جو نئے ٹیکسز لگانے کا سوچا جارہا ہے اس سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں کہ حکومتی ارکان کس منہ سے عوام کا سامنا کریں گے؟ ٹیکسوں میں اضافے اور سبسڈی میں ممکنہ کمی کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ نئے ٹیکس لگنے سے اشیا کی قیمتیں مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے چاروں صوبوں سے تقاضا کیا ہے کہ وہ زرعی آمدنی پر نئے ٹیکس قوانین مؤثر طور پر نافذ کریں۔ یہ معاملہ اتنا آ سان تو نہیں‘ اس سے زمیندار طبقہ بہت متاثر ہوگا۔ زرعی شعبہ قومی جی ڈی پی کا 24فیصد ہے مگر ٹیکس محاصل میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے‘ اب آ ئی ایم ایف کا پریشر بھی ہے تو اس وقت سوچا جارہا ہے کہ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ایوانوں میں اس کی مخالفت میں آوازیں سنائی دے سکتی ہیں‘ احتجاج مظاہرے اور حکومت مخالف مہم کا آغاز بھی ہوسکتا ہے۔ قانون سازی کا معاملہ ہو یا بجٹ پاس کروانے کا معاملہ ہو‘ تحریک عدم اعتماد کی باتیں بھی ہورہی ہیں تو ایسے وقت میں حکومت کیلئے ایک نئی سردرد کھڑی ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس گورننس ڈائیگناسٹک کی بنیاد پر حکمرانی اصلاحات کا منصوبہ ہے‘ اس کا مقصد یہ ہے کہ بدعنوانی‘ کمزور ادارہ جاتی ڈھانچے اور ناقص طرزِ حکمرانی جیسے اہم مسائل کی نشاندہی کر کے انہیں دور کرنے کے لیے اصلاحاتی اقدامات تجویز کیے جائیں۔ اس پر حکومت پہلے ہی ایک سال میں خاصا کام کرچکی ہے۔یہ پلان ایک سال قبل شروع ہوا تھا اُس وقت بھی آ ئی ایم ایف کی جانب سے پریشر آنے پر حکومت نے ہوش کے ناخن لیتے ہوئے عملی طورپر کام کا آغاز کیا تھا‘ لیکن ضروری ہے کہ یہ سب کاغذی کارروائی تک محدود نہ رہے بلکہ عملی طورپر اس کے نتائج بھی سامنے آئیں۔ چوتھی شرط سماجی تحفظ کے حوالے سے ہے جس کے تحت حکومت کو غریب طبقے کی مدد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی بلا مشروط نقد مالی امداد (کفالت پروگرام) کی رقم میں سالانہ بنیادوں پر اتنا اضافہ کرنا ہوگا کہ مہنگائی کے اثرات زائل ہو سکیں اور اس امداد کی حقیقی قوتِ خرید برقرار رہے۔
آئی ایم ایف نے ہدایت کی ہے کہ حکومت پاکستان ایک منصوبہ مرتب کرے جس میں 2028ء کے بعد کے لیے مالیاتی شعبے کی حکمتِ عملی تیار اور شائع کرنا ہے یعنی موجودہ اصلاحات کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے طویل مدتی مالیاتی استحکام اور ادارہ جاتی ڈھانچے کا خاکہ پیش کیا جائے۔ اسے جون 2026ء تک شائع کرنا ہے۔ توانائی کے شعبے میں سالانہ بنیاد پر بجلی کے ٹیرف کی ازسرِنو تعین اور بروقت اطلاق کرنا ہے‘ یعنی ہر سال بجلی کے بنیادی نرخ کا از سر نو تعین کیا جائے گا اور اس میں رد وبدل (اضافہ یا کمی) کیا جائے گا تاکہ بجلی بنانے‘ پہنچانے اور تقسیم کرنے کی پوری لاگت صارف سے وصول ہو سکے اور سبسڈی یا گردشی قرض کا بوجھ نہ بڑھے۔ یہ نوٹیفکیشن اور نیا ٹیرف شیڈول مالی سال کے آغاز پر نافذ ہوگا۔ گیس کے نرخوں میں ہر چھ ماہ بعد ایڈجسمنٹ کرنا ہو گی یعنی حکومت 15 فروری 2026 ء تک گیس کی قیمتوں میں نیم سالانہ بنیادوں پر ایڈجسٹمنٹ (تبدیلی) کا نوٹیفکیشن جاری کرے گی۔ حکومت نے منصوبہ بنایا ہے کہ بجلی کی طرح گیس میں بھی سبسڈی نظام کی اصلاح کی جائے‘ یعنی کم آمدنی والوں کو ٹارگٹڈ سبسڈی اور امیر صارفین کو پوری قیمت ادا کرنا ہوگی۔بظاہریہ حکومت کی جانب سے اچھا اقدا م ہے مگر جب بھی گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو ہر صورت احتجاج ہوگا‘ چاہے بجلی کی قیمتیں بڑھنے پر جس حد تک خطرناک احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں ویسا نہ ہو مگر حکومت کو پریشانی ضرور ہوسکتی ہے۔ صنعتی شعبہ بھی اس پر تشویش ظاہر کرے گا۔ خصوصی ٹیکنالوجی زونز اور صنعتی رعایتوں کا 2035ء تک خاتمے کا منصوبہ دیا گیا ہے‘ یعنی حکومت ایک ایسا منصوبہ یا پلان مرتب کر کے پیش کرے گی جس میں جو زونز قائم کئے گئے ہیں اور ان کو جو مراعات دی جارہی ہیں وہ 2035ء تک مکمل طورپر ختم کردی جائیں گی۔ آخری شرط تجارتی شعبے میں درآمدی پالیسی سے متعلق ہے۔ آئی ایم ایف نے ہدایت دی ہے کہ پاکستان جولائی 2025ء کے آخر تک پارلیمنٹ میں تمام ضروری قانون سازی پیش کرے تاکہ استعمال شدہ گاڑیوں کی تجارتی درآمد پر عائد تمام مقداری پابندیاں ختم کی جا سکیں۔ موجودہ پالیسی کے تحت صرف تین سال پرانی کار درآمد ہو سکتی ہے‘ اسے بڑھا کر پانچ سال کیا جائے گا اور رفتہ رفتہ باقی پابندیوں (انجن سائز وغیرہ) بھی ختم کی جائیں گی۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ پاکستانی آٹو انڈسٹری کی کافی عرصے سے جو اجارہ داری رہی ہے اس فیصلے سے ختم ہو سکے گی۔
آئی ایم ایف کی یہ کڑی شرائط ہمارے کرموں کا پھل ہیں۔ ماضی کی غلطیاں ہیں جنہیں ہم سب نے بحیثیت قوم اب بھگتنا ہے۔ کوئی حکومت‘ سیاسی جماعت اب اکیلے ملک کو اس دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ پوری قوم کو اس معاشی چیلنج کیلئے اکٹھا ہونا ہوگا‘جیسے بھارت کے خلاف جنگ میں اکٹھے ہوئے۔ حکومت کہاں کہاں مجبور ہے‘ کہاں کہاں اس کے پاس گنجائش ہے‘ اس بارے میڈیا آگاہی دے اور عوام تعاون کریں۔ اس معاشی دلدل سے نکلنے کے لیے معاشرے کا ہر فرد زور لگائے تو ہی ہم نکل پائیں گے۔ بجٹ بننے سے زیادہ اہم ایک قوم بننا ہے۔