بجٹ اور اہم سوالات!

ہر حکومت اپنے ملک کے عوام کو خوبصورت خواب دکھاتی ہے۔ ایسا ہی ایک خواب وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ برس پاکستانی عوام کو دکھایا تھا کہ مالی سال 2025-26ء کا بجٹ عوامی ہو گا‘ لیکن رواں مالی سال کا بجٹ بھی عوامی کے بجائے اشرافیہ اور مافیاز کا بجٹ معلوم ہوتا ہے۔ بجٹ دستاویزات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے پاس معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے یا معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے ہم بس بجٹ دستاویزات تیار کرتے جا رہے ہیں اور قرض لے کر ملک چلانے اور اخراجات کو بڑھانے ہی پر ہماری توجہ ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے بار بار انتباہ کے باوجود اپنے اخراجات کم نہیں کیے۔ رواں مالی سال کے بجٹ میں جو اہداف مقرر کیے تھے وہ بھی حاصل نہیں ہو سکے۔ حکومت خود تسلیم کر چکی ہے کہ رواں مالی سال کے دوران گندم‘ کپاس‘ چاول اور گنے جیسی بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13 فیصد سے زائد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے پاس آئندہ مالی سال کے دوران زرعی شعبے کی بہتری کا کوئی پلان نظر نہیں آ تا۔ زرعی شعبے سے اس عدم توجہی کی وجہ سے آئندہ مالی سال کے دوران صرف کپاس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے تقریباً چار ارب ڈالر خرچ کرنا ہوں گے۔ اسی طرح حکومت نے بڑی صنعتوں کی شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا تھا لیکن ان کی کارکردگی منفی 1.5 فیصد رہی ہے۔ زرعی شعبے کی شرح نمو 0.56 فیصد رہی۔ کہا جا رہا ہے کہ رواں مالی سال معاشی شرح نمو 2.7 فیصد رہے گی۔ یہ تبھی ممکن ہے جب رواں مالی سال کی آخری سہ ماہی کے دوران معاشی شرح نمو ساڑھے پانچ فیصد تک پہنچے ‘ لیکن پہلی تین سہ ماہیوں کی مایوس کن معاشی شرح نمو کو دیکھا جائے تو آخری سہ ماہی میں ساڑھے پانچ فیصد کا ہدف کیونکر حاصل ہو سکے گا؟
حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ پالیسی ریٹ کو 11فیصد پر لے آئی ہے‘ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی ہے اور تیل بھی سستا کردیا ہے‘ اس سے معیشت میں کچھ تو گروتھ ہو گی‘ لیکن کیا حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کی طرف کوئی توجہ مرکوز کی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ حکمران عوام کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھائے رکھتے ہیں۔ دنیا کے سامنے قرض کیلئے ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ ہماری معاشی حالت خراب ہے‘ یہاں غربت بڑھ گئی‘ بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح آئے روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر کبھی بجلی تو کبھی تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے غریب عوام پر بوجھ ڈالا جاتا ہے مگر یہ حکمران اپنا طرزِ حکمرانی درست نہیں کرتے۔سب عوام کو لارے لگاتے ہیں کہ اب کی بار آخری بار‘ آئندہ خوشحالی آئے گی‘ مگر کیسے آئی گے‘ یہ نہیں بتاتے۔
سرکاری دستاویزات عوام سے دھوکا دہی کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ اشرافیہ کو نوازنے کے طریقے نکالے جاسکتے ہیں مگر غربت کو کم کرنے‘ اپنے اخراجات کو کم کرنے کے طریقے نہیں وضع کیے جاسکتے۔ جواز یہ دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کا پریشر ہے مگر آئی ایم ایف نے تو یہ بھی کہا کہ سبسڈیز بند کی جائیں‘ اخراجات کم کیے جائیں‘ اشرافیہ کو دی گئی ٹیکس رعایت ختم کی جائے۔ حکمران ان شرائط پر تو عملدرآمد نہیں کرتے مگر جہاں غریبوں پر بوجھ ڈالنے کی بات آتی ہے وہاں فوراً عملدآمد کر گزرتے ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران اشرافیہ اور بااثر حلقوں کو 5840 ارب سے زائد کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ گزشتہ برس یہ 3880 ارب روپے تھی اوراُس وقت بھی حکمران یہ دعویٰ کررہے تھے کہ اب یہ ٹیکس چھوٹ نہیں ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام کا خون نچوڑکر ٹیکس ہدف پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے‘ لیکن دوسری طر ف اشرافیہ کو 5840 ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹ دی ہے۔ 4253 ارب 50 کروڑ روپے سیلز ٹیکس‘ 800ارب 80کروڑ انکم ٹیکس‘ 785ارب 90کروڑ کسٹم ڈیوٹی کی مد میں چھوٹ دی گئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی مقامی سپلائی پر 1496 اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر 299 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی گئی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ٹیکس کا بوجھ صرف غریبوں اور تنخواہ دار طبقے پر ڈالا جاتا ہے لیکن اشرافیہ اور بڑے بڑے ٹیکس نادہندگان کو شکنجے میں نہیں لایا جاتا۔ وزیراعظم‘ وفاقی وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر اوردیگر جو دعوے کرتے رہے کہ ہم سبھی طبقات کو ٹیکس نیٹ میں لارہے ہیں‘ اب کسی کو ٹیکس چھوٹ نہیں ملے گی‘ کیا وہ اس پر کوئی نوٹس لیں گے؟ شاید نہیں! اور ہر سال کی طرح رواں مالی سال میں بھی یہ دعوے دھرے رہ جائیں گے۔اشرافیہ کوملنے والی ٹیکس چھوٹ کی سزا غریب عوام بھگت ر ہے ہیں۔
حکمران کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر ملک سے ایک سال میں سات لاکھ 27 ہزار سے زائد افراد روزگارکیلئے بیرونِ ملک کیوں چلے گئے؟ ان میں ہزاروں وہ درخشندہ ستارے بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے میدان میں مہارت رکھتے تھے۔ ان میں ہزاروں ڈاکٹرز‘ پی ایچ ڈیز‘ انجینئرز‘ صحافی اور اساتذہ شامل ہیں جو اپنے اپنے میدان میں کامیابیوں کی بلندی پر پہنچے ہوئے تھے‘ مگر پھر بھی انہیں پاکستان میں اپنا مستقبل روشن نظر نہیں آیا اس لیے وہ بیرونِ ملک منتقل ہو گئے۔ ہمارے حکمران اپنی تقریروں میں عوام کے بنیادی مسائل پر بہت باتیں کرتے ہیں‘ اپنی انتخابی مہمات میں بھی خوبصورت الفاظ سے عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں لیکن جب حکومت میں آتے ہیں تو عوام کے بنیادی مسائل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ وہ بنیادی مسائل جن پر توجہ مرکوز کرنے سے قومیں ترقی کرتی ہیں ان میں تعلیم سرفہرست ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے تو ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی تھی لیکن اس کے باوجود تعلیم کے شعبے پر جی ڈی پی کا صرف 0.8فیصد خرچ ہوسکا۔ اس وقت ملک میں 38فیصد بچے ایسے ہیں جو سرے سے سکول ہی نہیں جاتے۔ اسی طرح صحت کے میدان میں بھی اصلاحات لانے کی بہت باتیں ہوئی تھیں لیکن اب مجھے اس شعبے کے اعداد و شمار عوام کے سامنے رکھتے ہوئے شرم آرہی ہے۔ اس شعبے پر جی ڈی پی کا صرف 0.9فیصد خرچ کیا گیا۔ تعلیم اور صحت کے میدان میں پورے خطے میں سب سے بدتر حالات ہمارے ہاں ہیں۔ یہاں لوگ فٹ پاتھ پر زندگیاں گزار رہے ہیں‘ ان کے پاس ایک وقت کا کھانا کھانے کے پیسے نہیں‘ کوڑے دانوں سے باسی ڈبل روٹی تلاش کرکے کھارہے ہیں۔ لوگوں کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں‘ بچیوں کی شادی کیلئے پیسے نہیں‘ وہ درد بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔ معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں ہم انہیں بھکاری بنا رہے ہیں۔ بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں دینے کے بجائے ہم مافیاز اور اشرافیہ کو سپورٹ کرنے میں لگے ہیں۔ کیا حکمرانوں کو عوام کا کوئی احساس نہیں‘ اشرافیہ کو ملک اور اس ملک میں بسنے والوں کا کوئی احساس نہیں؟ یہ سخت ناانصافی ہے کہ ایک طرف مخصوص طبقات کو مسلسل ٹیکس رعایت دی جا رہی ہو اور دوسری طرف غربت‘ مفلسی‘ بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہو‘ کروڑوں بچے سکول سے باہر ہوں‘صحت کی سہولتوں کا فقدان ہو۔ ایک ماں اپنے بچے کو لے کر علاج کی غرض سے دربدر کی ٹھوکریں کھارہی ہواور دوسری جانب اشرافیہ عالیشان محلات میں زندگی بسرکررہی ہو۔ ہمیں اس ناانصافی کو ختم کرنا ہوگا۔ اب تو عالمی ادارے بھی ہمارے حکمرانوں کو جگارہے ہیں کہ خدارا غربت کو کنٹرول کرو۔عالمی بینک کے مطابق اس وقت 44.7 فیصد پاکستانی عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ لیکن حکومت یہ اعداد و شمار چھپا رہی ہے۔ پاکستان کے حکمران‘ کابینہ میں شامل وزرا اور حکومتی اتحادی شادیانے بجارہے ہیں۔ شاید ان کے نزدیک ملکی ترقی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک سال میں گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ ہوگیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں