یہ منظر کتنا کربناک ہے کہ ایک ماں اپنی گود میں بچے کو اٹھائے خیمے کی تلاش میں بھٹک رہی ہے‘ ایک کسان اپنی محنت کی کمائی کو سیلابی پانی کے ریلوں میں ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور ایک بزرگ اپنے مکان کی دیواروں کو گرتے دیکھ کر پتھر بن گیا ہے۔ پنجاب کا حالیہ سیلاب صرف پانی کا ریلا نہیں بلکہ عوام کے خوابوں‘ مستقبل اور برسوں کی محنت کا جنازہ ہے جو اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گیا‘ گھر‘ کھیت‘ گاؤں اور شاید ہماری قومی غیرت بھی۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک پنجاب میں 21لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان چاول کی فصل کو پہنچا ہے‘ صوبے میں نو لاکھ 70ہزار 929ایکڑ پر لگی چاول کی فصل سیلاب کی نذر ہو چکی ہے۔ اسی طرح ایک لاکھ 10ہزار 850ایکڑ کپاس کی فصل‘ ایک لاکھ 86ہزار 419ایکڑ مکئی کی فصل‘ دو لاکھ 20ہزار 344ایکڑ گنے کی فصل‘ چار لاکھ 500 ایکڑ چارہ اور ایک لاکھ 15ہزار 260ایکڑ سبزیاں بھی برباد ہو گئی ہیں۔ یہ فصلیں نہ صرف قومی غذائی ضروریات کیلئے اہم تھیں بلکہ ان کے ساتھ کسانوں کے خواب جڑے تھے‘ جو ان فصلوں کے ساتھ ہی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ ان فصلوں کی بربادی سے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگے گی۔ کپاس کی تباہی ٹیکسٹائل سیکٹر کو متاثر کرے گی‘ جس کا شمار کلیدی برآمدی شعبوں میں ہوتا ہے۔ چاول کی فصل کی بربادی نہ صرف برآمدات بلکہ ملکی غذائی ضروریات پر بھی اثر انداز ہو گی۔ سبزیوں کی تباہی کا مطلب ہے کہ اب ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گا جس سے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔
کیا حکومت نے سوچا کہ وہ اس صورتحال پر کیسے قابو پائے گی؟ کسان پہلے ہی قرضوں‘ کھاد ‘ ڈیزل اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے‘ اب ان کے پاس فصل رہی نہ مویشی۔ اطلاعات کے مطابق اب تک ہزاروں مویشی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔ یہ جانور کسانوں کی جمع پونجی تھے۔ سیلاب کی وجہ سے کسان کی زندگی اجڑ گئی ہے‘ جس کے ان کی ذہنی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے نظر آتے ہیں۔ کسانوں کی اس کسمپرسی کے پیشِ نظر بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سے صوبے میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘ مگر حکومت اس مطالبے کو سیاسی نعرہ سمجھ کر نظرانداز کر رہی ہے۔ملک کو اس وقت جس تباہ کن سیلابی صورتحال کا سامنا ہے اس تناظر میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ایک قدرتی آفت ہے؟ اگر ہمارے حکمران اس حوالے سے سنجیدہ رویہ اختیار کرتے تو پھر بھی ہمیں مون سون کی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے اتنا زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا؟دنیا کے کئی ممالک کو ہر سال سمندری طوفانوں اور دریاؤں کی طغیانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہاں بروقت حکومتی تدابیر سے نقصانات کی شرح کم سے کم رہتی ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی ایسی کوئی آفت آتی ہے‘ حکومت آئندہ اس کے تدارک کیلئے بروقت اقدامات کے دعوے کرتی ہے‘ وزرا فوٹو سیشن کراتے ہیں‘ میڈیا پر شور مچتا ہے ‘ اور پھر چند دن بعد سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔ متاثرین برسوں خیموں میں سڑتے رہتے ہیں اور حکمران ایوانوں میں اپنے کامیابیوں کے قصے سناتے نہیں تھکتے ہیں۔
یہ ایک بھیانک حقیقت ہے کہ حکومت نے حالیہ سیلاب کے دوران امدادی سرگرمیوں کو مؤثر بنانے کے بجائے نمود و نمائش کو ترجیح بنایاہوا ہے۔ وزرا کے قافلے‘ ہیلی کاپٹر‘ میڈیا کوریج‘ سب کچھ ہے بس عوام کی زندگی بچانے والی بروقت امداد غائب ہے۔ نہ راشن وقت پر پہنچ رہا ہے‘ نہ خیمے‘ نہ دوائیں۔ متاثرین کو بھوک اور وبائی امراض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومت کا فرض مشکل وقت میں شہریوں کو سہارا دینا ہوتا ہے لیکن افسوس کہ یہاں دکھاوے کے دورے اور کھوکھلے وعدے ہی سب کچھ ہیں۔ یہ صرف نااہلی نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت دونوں کا یہی رویہ ہے۔ ایک طرف اربوں روپے ترقیاتی منصوبوں اور نمائشی فورسز پر ضائع کیے جاتے ہیں‘ دوسری طرف قدرتی آفات کے وقت عوام کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس قدرتی آفت میں عوام کی بروقت امداد کے بجائے یہ کہنا کہ سیلاب جیسی آفت سے نمٹنے کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی نہ کرنا پچھلی حکومتوں کا قصور ہے‘ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ پنجاب میں ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔اگر پچھلی حکومتوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا تو موجودہ حکومت نے کیا کیا ؟ اب تک اربوں روپے ڈویلپمنٹ کے نام پر لگائے جا چکے ہیں مگر قدرتی آفات کیلئے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی جا سکی۔ سیلاب کی وجہ سے چاول‘ کپاس اور گنے کی فصل تو تباہ ہوئی ہی ہے لیکن اگر متاثرہ علاقوں سے سیلابی پانی کی بروقت نکاسی یقینی نہ بنائی گئی تو آئندہ دنوں میں گندم کی کاشت بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔نکاسی آب میں تاخیر سے گندم کی بروقت کاشت ممکن نہیں ہو سکے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ملک یقینی طور پر قحط کے دہانے پر کھڑا ہو گا۔ چاول‘ کپاس اور سبزیاں پہلے ہی تباہ ہو چکی ہیں‘ اگر گندم کی فصل بھی متاثر ہوئی تو عوام کو آٹے کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سیلاب کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں۔ اس مرتبہ اس قدرتی آفت نے تقریباً ملک کے ہر کونے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ 20جون سے اب تک مون سون بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں نو سو سے زائد افراد جاں بحق اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں‘مجموعی طور پر 41لاکھ افراد متاثر ہوئے‘ 21 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے اور چار ہزار سے زائد دیہات ڈوب گئے۔ خیبر پختونخوا میں سولہ سو عمارتیں متاثر ہوئیں اور پانچ سو سے زائد مکمل تباہ ہو گئیں۔ عالمی تخمینوں کے مطابق معیشت کو 409 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس نقصان میں زیادہ حصہ ریاستی نااہلی اور حکومتی بے حسی کا ہے۔
ہمارے پاس ڈیم بنانے کے مواقع تھے لیکن ہم نے سب کچھ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی تباہی مچاتا ہے اور جب بارش نہیں ہوتی تو خشک سالی مارتی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی مجرمانہ غفلت ہے۔پاکستان اُن دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہمارے ہاں بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے‘ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقوں میں خشک سالی اور شمال میں لینڈ سلائیڈنگ زمین کو اجاڑ رہی ہے۔ اس موسمیاتی تباہی کے باوجود جنگلات کی کٹائی برابر جاری ہے۔
آج لاکھوں سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ انہیں مناسب خوراک اورعلاج معالجے کی سہولتیں میسر نہیں۔ عالمی ادارے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کے پھیلاؤ سے خبردار کر رہے ہیں لیکن حکومت اب بھی اجلاسوں اور بیانات میں مصروف ہے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کیمپ ناکافی ہیں‘ وسائل بدانتظامی کی نذر ہو رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ خوابِ غفلت سے جاگا جائے۔ فوری طور پر شفاف امدادی نظام بنایا جائے۔ متاثرہ علاقوں میں موبائل ہسپتال اور ہنگامی صحت یونٹ قائم کیے جائیں تاکہ وبائی امراض کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر پر عملی اقدامات شروع کیے جائیں تاکہ بارش کا پانی تباہی نہیں بلکہ زندگی بنے۔ شجر کاری کو سیاسی نعرے کے بجائے حقیقت بنایا جائے اور قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو جدید وسائل اور مکمل اختیارات دیے جائیں۔اگر ہم نے اپنی ترجیحات نہ بدلیں اور آنیوالے برسوں میں یہی روش برقرار رہی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ نسلیں سوال کریں گی کہ جب سب کچھ ہمارے سامنے تھا تو ہم نے کچھ کیوں نہ کیا؟ اور شاید اس وقت ہمارے پاس جواب دینے کو کچھ نہ ہو۔