"MEC" (space) message & send to 7575

ریاستی خدمت گار سے سیاسی سہولت کار تک

آج کی فلاحی ریاست کی تخلیق کا کلیدی مقصد عوام کو گڈ گورننس کی فراہمی ہے اور اس کا تصور ایک مضبوط اور فعال بیوروکریسی کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ ایسی ریاست میں عوام کی بھلائی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بیوروکریسی کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ بیوروکریسی ہی ریاست میں میرٹ اور شفافیت سے حکومتی پالیسیوں اور ترجیحات پر عمل درآمد کرواتی ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد پاکستان کو ورثہ میں نوآبادیاتی نظام کی تخلیق شدہ بیوروکریسی ملی۔ جس کی مخصوص تربیت اور ذہنیت کی وجہ سے ان کا عوام سے کوئی ربط نہ بن سکا۔
قائد اعظم ؒ اس ذہنیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اسی لیے 25 مارچ 1948ء کو چٹاگانگ میں سول افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ''آپ کو اپنا فرضِ منصبی خادموں کی طرح سرانجام دینا ہے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ آپ سرکاری ملازم ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ آپ ریاست کی خدمت ملازمین کی طرح کریں۔ اور بحیثیت سرکاری ملازم اپنے فرائض کی بجا آوری میں کسی وزیر یا وزارت کی مداخلت کے باوجود خطرہ مول لینے سے بھی گریز نہ کریں‘‘۔1947ء سے 1971ء تک تو بیوروکریسی سیاسی اثرورسوخ سے ماورا اپنے فرائض سرانجام دیتی رہی۔ بھرتیوں، تبدیلیوں اور ترقیوں میں سیاسی کردار نہیں ہوتا تھا۔ اس دور کے سی ایس پی کیڈر کے افسران اپنی ٹریننگ، قابلیت اور ذہانت کی بدولت ریاستی امور اور فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے لگے‘ جس کی وجہ سے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے مابین اختیارات کی رسہ کشی اور چپقلش شروع ہو گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کرسیٔ اقتدار سنبھالنے کے بعد بیوروکریسی کو سیاسی اور منتخب نمائندوں کے تابع کرنے کی ٹھانی‘ اور 1300 افسران کو جبراً نوکری سے برخاست کر دیا۔ 1973ء کی انتظامی اصلاحات کے ذریعے سی ایس پی کیڈر کو ختم کر دیا گیا‘ اور سول سروسز کے 1956ئ، 1962ئ، 1972ء کے آئینی تحفظات کو بھی ختم کر دیا گیا۔ اس طرح Spoils System کی طرز پر سیاسی بھرتیوں کا دروازہ کھول دیا گیا۔ بھٹو کے ان اقدامات سے بیوروکریسی میں عدم استحکام کے کلچر نے جنم لیا‘ جس کی وجہ سے افسران ریاست اور عوام کے خادم بننے کے بجائے محفوظ سیاسی پناہ گاہیں ڈھونڈنے لگے‘ اور یہیں سے بیوروکریسی جیسے ادارے کے زوال اور تباہی کا آغاز ہوا۔1985ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے بیوروکریسی کو ذاتی، سیاسی مقاصد اور دوام کے لیے استعمال کرنے کی روایت ڈالی۔ تمام اختیارات کا منبع خود بن گئے۔ تمام حکومتی معاملات چیف منسٹر Directives سے چلائے جانے لگے۔ ایک پوسٹنگ کے چار چار CM ڈائریکٹیوز جاری ہوتے اور بیچارے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری سروسز اسی شش و پنج میں رہتے تھے کہ کس کی مانی جائے اور کس کی نہ مانی جائے۔ محکمہ مال، پولیس، کسٹمز اور ایف آئی اے جیسے اداروں میں خلاف قانون ہزاروں سیاسی بھرتیاں کرکے میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ اس دور میں انسداد ملیریا کے ایک افسر کو ڈی جی ایل ڈی اے کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ یہاں تک کہ صوبے میں چیف سیکرٹری سے لے کر پٹواری تک تمام تعیناتیاں سیاستدانوں کے آشیرباد سے کرکے بیوروکریسی کے پورے ادارے اور حکومتی مشینری کو یرغمال بنا لیا گیا۔ Relaxation of Rules کا ایک نیا کلچر بھی متعارف ہوا‘ جس سے ریاست کا قانونی اور انتظامی ڈھانچہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا۔لیکن افسوس بیوروکریسی نے اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے سہولت کاری کا بیڑہ اٹھایا۔ انھوں نے حکمرانوں کی خوشنودی، خوشامد کے بل بوتے پر اہم عہدوں کو اپنا ''نصب العین‘‘ بنا لیا۔ جس سے میرٹ اور گڈ گورننس کا تصور بے معنی ہو کر رہ گیا۔
اس کے بعد 1997ء میں شہباز شریف کی جانب سے افسران کی تضحیک اور تحقیری رویے سے خوفزدہ ہو کر افسروں نے سیاستدانوں کی غلامی میں ہی عافیت جانی‘ لیکن اس دور میں کرپشن کی کوئی داستان سامنے نہیں آئی۔ 2008 کے بعد چیف منسٹر سیکرٹریٹ سے بیوروکریسی کے منظور نظر افسروں نے حکومت سنبھال لی‘ اور وہیں سے بیوروکریسی میں وفاداری، سہولت کاری اور لوٹ مار کا کلچر تخلیق ہوا اور افسران نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی۔ یہاں تک کہ یہ سہولت کار میرٹ کی دھجیاں اڑا کر دس بارہ سال کی نوکری کے بعد صوبائی سیکرٹری اور ڈی سی او اور پھر ڈی جی ایل ڈی اے کے عہدوں پر پہنچ گئے۔ اور پھر اسی سائنسدان ٹولے نے سولر پاور، سالڈ ویسٹ، صاف پانی جیسے منصوبوںکی سربراہی دس سے بیس لاکھ کی اضافی تنخواہوں سے سنبھال کر قانون اور ضابطوں کو پامال کرکے لوٹ مار کی ایسی اندھیر نگری مچائی۔ عوامی فلاح کے منصوبوں کے نام پر لوٹ مار کی ایسی ہوشربا داستانیں رقم کی گئیں کہ اعتبار تو کیا ایمان ہی اٹھ گیا ہے۔ شہر کی صفائی کے نام پر سرکاری خزانے کا ہی ''صفایا‘‘ کرکے ''ہاتھ کی صفائی‘‘ کو مقصدِ حیات بنا لیا گیا۔ اور پھر مرکز میں اسی وفادار طبقہ نے وفاقی سروس میں تاریخی ڈاکٹرائن Either you are with us or against us کے میرٹ سے تعیناتیوں اور ترقیوں سے پورے پاکستان کی سول سروسز کو اتفاقِ سول سروسز میں بدل دیا۔ اور ناپسندیدہ افسروں کا مستقبل تاریک کر دیا۔ بیوروکریسی کا وفاداری اور سہولت کاری کا نظام سندھ اور بلوچستان میں بھی جاری رہا۔ صرف حالیہ دور میں پختونخوا میں تحریکِ انصاف نے پولیس اور بیوروکریسی کو سیاسی دبائو سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کی۔
ہماری قومی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بیوروکریسی کے ادارے کو تباہ کر دیا گیا۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے Nexus نے گورننس کے پورے نظام کو کرپشن اور بدعنوانیوں سے لت پت کر دیا۔ کلیدی اداروں کی تباہی کا ذمے دار بھی یہی گٹھ جوڑ ہے۔ اس گٹھ جوڑ سے سیاستدانوں نے ریاست کو ذاتی جاگیر میں بدل دیا اور تمام گورننس اس طبقے کے سیاسی اور مالی مفادات کے تحفظ میں جت گئی ہے۔ جس کا اثر کچھ یوں ہوا:
محب وطن کے نام پر عنواں بدل گیا/طاقت کی آس میں خدمت کا جذبہ بدل گیا
آزاد تب بھی نہ تھے، اب بھی نہ ہوئے ہم/ فرق صرف اتنا ہے کہ زنداں بدل گیا
لیکن حال ہی میں judicial activism اور فعال نیب نے روشنی کی کرن پیدا کی ہے۔ آشیانہ ہائوسنگ سکیم اور کمپنی سکینڈلز میں اعلیٰ افسران کی حالیہ گرفتاریاں اور تحقیقاتی عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاستدانوں کے یہ سہولت کار بھی اب شکنجے میں آ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب بازی پلٹ رہی ہے۔ ہمیشہ Do More کرنے والے یہ وفادار آج کل No More کہتے نظر آرہے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بیوروکریسی میں اصلاحات کرکے اس کو سیاسی تسلط سے آزاد ہوکر کام کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی Spoils System 1831 کے تحت سول سروسز میں سیاسی تقرریاں کی جاتی تھیں لیکن جلد ہی اس کے منفی اثرات سامنے آنے پر اس کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ آخر کار1883 اور 1939 میں کانگریس نے ''سول سروسز ایکٹ‘‘ پاس کیے‘ جسے پنیڈلٹن اور ہیچ ایکٹ بھی کہتے ہیں۔ تعیناتی اور ترقی کے معاملات کو سیاسی اثر سے پاک کر دیا گیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی بیوروکریسی سیاسی اثر و نفوذ سے آزاد ہوکر ا پنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دے رہی ہے۔وطن عزیز میں آج تک بیوروکریسی اصلاحات کے لیے 38 کمیٹیاں اور کمیشن بنائے گئے۔ ان کی تجاویز کے مطابق بیوروکریسی کو ٹریننگ، بھرتی، تعیناتی اور ترقی جیسے معاملات میں سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کروانا ناگزیر تھا‘ لیکن بدقسمتی سے Political Will کی عدم موجودگی اور ذاتی مفادات کے پیش نظر ان تجاویز پر عمل نہ ہو سکا‘ جس کی وجہ سے آج تک یہ ریاست اور عوام بری گورننس اور استحصالی نظام کے چنگل سے نہیں نکل سکے۔
حالیہ انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف ایک ناقابل تردید حقیقت بن کر قومی منظرنامے پر چھا چکی ہے۔ آئندہ چند روز میں حکومت سازی کے بعد سب سے اہم اور اوّلین مرحلہ انتظامی مشینری کا انتخاب ہو گا‘ جو گورننس اور میرٹ کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کو دہرے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف ماضی میں ہونے والی کرپشن اور ''بیڈگورننس‘‘ سے نبرد آزما ہونا ہے‘ اور دوسری طرف قانون سازی اور اصلاحات کرکے قوم کو ایک ایسی انتظامی مشینری فراہم کرنا ہے جو حقیقی معنوں میں سول سروسز کے وقار اور کھوئے ہوئے مقام کو بحال کر سکے اور ایسے افسران کا انتخاب کرے عوامی خدمت جن کا ایمان ہو تاکہ آنے والے وقت میں فلاحی ریاست اور گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں