امید کیا ہے؟امید وہ ہے‘ جو ہر طرح کے کٹھن حالات میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ناممکن کو ممکن اور جدوجہد کو کامیاب بنانے میں امید بہت اہمیت کی حامل ہے۔امید آپ کو احساس دلاتی ہے کہ جو ہو گیا سو ہو گیا‘ زندگی ابھی باقی ہے ‘ پھر سے کوشش کرو‘ خدا پہ بھروسہ رکھو‘ایک بار پھر سے اٹھو کہ تم کر سکتے ہو۔ امید وہ ہے‘ جو ننانوے بار ہارے ہوئے بادشاہ کو ایک چیونٹی سکھاتی ہے‘ پھر سے لڑنے کی ہمت اور کوشش کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔امید وہ ہے ‘جو منزل کو قریب کرکے دکھاتی ہے‘تھکن کی پرواہ نہیں رہتی‘امید‘ خدا پہ بھروسہ ہے۔وطن ِعزیز کی بات کریں‘ تو اس قوم نے ایک طویل مدت امید کا سفر طے کیا ہے۔ تقریباً سات دہائیوں سے یہ قوم جمہویت اور آمریت کے دو پاٹوں کے درمیان پستی چلی آرہی ہے۔کبھی بھٹو صاحب نے ''روٹی ‘کپڑا اور مکان‘‘کی امید دلا کر قوم کے جذبات سے کھیلا‘ تو کبھی ضیاالحق نے نظامِ مصطفی کا علم بلندکیا۔ جنرل ضیا کی سیاسی باقیات میںسے میاں نواز شریف سامنے آئے اور ''قرض اتاروملک سنوارو‘‘ کے نعرے پر قوم کو بیوقوف بنایا ۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا اور مختلف ادوار میں پرویز مشرف‘ آصف زرداری اور شریف برادران قومی امنگوں کا خون کرتے رہے۔
بلاشبہ قوموں کی زندگی میں عظیم لیڈر امید کی کرن ثابت ہوتے ہیں‘ نیلسن منڈیلا‘ ماوزے تنگ‘ امام خمینی اور مہاتیر محمد کی مثالیں‘ ہمارے سامنے ہیں۔ان لوگوں نے اپنے ویژن اور لگن کی بدولت اپنی اقوام کو پستی کے اندھیروں سے نکال کر عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ہماری قوم طویل عرصہ سے احساس ِمحرومی اور پستی کی گہرائیوں میں پڑی ہے اور قوم کو اب عمران خان کی صورت میں امید کی کرن نظر آرہی ہے۔آج عمران خان کی زبردست کامیابی کو دیکھتے ہیں‘تو اس کے پیچھے یقین ِ محکم اور انتھک جدوجہد کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے کہ سچی لگن سے کس طرح ناممکن کو ممکن بنایا جاسکتا ہے اورکس طرح مسلسل شکست کو زبردست فتح میں بدلا جا سکتا ہے۔عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو نمایاں مقام دلایا۔ کپتان خود آکسفرڈ کے گریجویٹ اور اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لے کر دور حاضر تک وہ ترقی پسند‘ انقلابی ذہن‘ سماجی ذہن‘ جدید رجحانات والے اور تغیر پسند طبیعت کی حامل شخصیت ہیں۔ بلاشبہ ورلڈ کپ سے لے کر شوکت خانم ہسپتال کے منصوبے تک‘ عمران خان کی زندگی کئی چیلنجز سے بھری پڑی ہے‘ جن میں خان صاحب نے بہترین کامیابیاں حاصل کیں۔کون جانتا تھا کہ کرپشن اور بدعنوانی کی دلدل میں پھنسے اس سیاسی نظام کے خلاف تن تنہا آواز اٹھانے والا عمران خان ایک دن وفاق کی علامت کے طور پر سامنے آئے گا‘مگر اس وقت یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عمران خان کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور وہ پاکستان کے نئے وزیراعظم بننے جارہے ہیں ‘مگر ان کے مخالفین کویہ کامیابی ہضم نہیں ہو رہی اور سیاسی قبضہ گروپ اپنی جاگیریں چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔ '' ووٹ کو عزت دو‘‘کے نعرے پر الیکشن لڑنے والی مسلم لیگ (ن) اب ووٹ کو عزت دینے پر تیار نہیں۔ ان احمقوں کو لگتا ہے کہ ووٹ کو عزت تبھی ملے گی‘ جب ووٹ انہیں ملیں گے۔دوسری طرف مولانا فضل الرحمن نے اپنی شکست سے بدحواس ہو کرالیکشن کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کردیا ہے۔شاید وہ چاہتے ہیں کہ تب تک الیکشن ہوتا رہے‘ جب تک وہ جیت نہ جائیں۔الغرض بدحواسی کے عالم میں جو جس کے منہ میں آرہاہے‘ بولے چلا جا رہا ہے‘لیکن سب بھول رہے ہیں کہ ہر اندھیر نگری کی ایک حد ہوتی ہے‘ جس کے بعداجالا مقدر ہوتا ہے۔ اب ان کی اندھیر نگری کا دور ختم ہوا چاہتا ہے‘ اب تمام نوٹنکی بازوں سے درخواست ہے کہ جس جمہوریت کے حسن کا ٹوپی ڈرامہ انہوں نے سالہا سال سے رچایا ہوا ہے‘ اسی جمہوریت کے حسن کا تقاضا ہے کہ عوام کے فیصلے کو تسلیم کریں اور نئی حکومت کے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہوئے اسے کام کرنے کا موقع دیں۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کو وزارت ِعظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتے ہی بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ سب سے اہم چیلنج جو خان صاحب کو درپیش ہوگا وہ معیشت کا ہے‘ کیونکہ معیشت کسی بھی ریاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اس وقت قومی خزانہ تقریباً خالی ہے‘ جس کے حوالے سے حال ہی میںنگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون انکشاف کرچکے ہیںکہ سابقہ حکومت نے الیکشن سے قبل تمام پیسہ اللوں تللوں میں ضائع کرکے آنے والی حکومت کی ناکامی کی پیش بندی کی ہے‘ جبکہ ملک اس وقت 95بلین ڈالر کا مقروض ہے‘ اورتجارتی خسارہ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے ۔ دوسرا بڑاچیلنج خارجہ پالیسی کا ہے‘کیونکہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ ہمارے ایٹمی اثاثہ جات اور صلاحیت کے درپے ہے اور ہماری فوج اور دفاعی نظام کو کمزور کرکے ہمیں لیبیا ‘عراق اور شام بنانا چاہتی ہے۔ امریکہ پاکستان کی امداد بند کرچکا ہے اور پاکستان پر ڈبل گیم کے الزام لگا رہا ہے ‘جبکہ بھارت ایل اوسی پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے اور افغانستان کے راستے بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاںکروا رہا ہے۔ افغانستان بھی پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ لڑرہا ہے۔یہ تمام معاملات نئی حکومت کو بہت محتاط انداز میں دیکھنے ہوں گے‘ کہ دوست ممالک کو ناراض کیے بغیر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔اس کے بعد پانی و بجلی کا مسئلہ ہے ۔گزشتہ دہائی کے دوران کوئی ایک بھی بڑا یا قابل ذکر منصوبہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نہیں شروع کیا گیا۔ہم ہر سال لاکھوں گیلن پانی سمندر میں ضائع کردیتے ہیںاورستر فیصد بجلی تیل سے پیدا کرتے ہیں۔ڈیم نہ بنانے اور بھارتی ڈیموں کی تعمیر پر چپ سادھنے کی وجہ سے ملک میں پانی کا بحران سر اٹھانے کو تیار کھڑا ہے۔ بھارت اس وقت ہمارا بیشتر پانی روکنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے۔اس کے علاوہ UNICEFکے مطابق پاکستان کے دو تہائی گھروں میں آلودہ پانی پیا جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے سالانہ اموات کی شرح 53ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ملک میں 30-40فیصد اموات آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ نئی حکومت کو اس مسئلہ پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہوگی‘پھر ایک بڑا مسئلہ تعلیم اور صحت کا ہے‘ جسے ریاست کی عدم توجہی کی وجہ سے نجی اداروں نے سنبھالا دیا ہوا ہے۔سرکاری سکولوں کا تصور تو قریباً معدوم ہوکر رہ گیا ہے ‘جس کی وجہ سے امیر اور غریب کے لیے دو مختلف تعلیمی نظام بن گئے ہیں۔صحت کا یہ عالم ہے کہ اس کا بجٹ صرف15-20 ارب روپے ہے‘ جس کی وجہ سے مختلف اعداد و شمار کے مطابق آج پاکستان میں دو کروڑ ہپاٹائٹس کے مریض ہیں‘ ستر لاکھ شوگر کے مریض ہیں اوردو لاکھ سے زائد ایڈز کے مریض ہیں۔
عمران خان اپنے قوم سے کیے گئے خطاب میں غربت کے خاتمے ‘ معیشت کی بہتری‘ بلا امتیاز احتساب ‘سوشل جسٹس‘ خارجہ تعلقات کی بہتری اور گڈ گورننس جیسے مسائل کے حل کے لیے پختہ عزم کا اظہار کرچکے ہیں‘ جس کی وجہ سے قوم بھی ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرچکی ہے ‘قوم کی سوچ اس وقت Idealismکی بلند ترین سطح پر ہے‘کیونکہ کرکٹ اور غیر سیاسی میدانوں میں عمران خان کا ماضی بے داغ ہے‘ اس لیے عوام انہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔عمران خان کو قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ جیسا کہ دنیا میں انتخابات کے بعد قومیں Move Forwardکے جذبہ سے آگے بڑھتی ہیں‘اسی طرح یہ ملک صحیح سمت میں گامزن ہوسکتا ہے۔عمران خان خودبھی کئی مرتبہ اظہارکرچکے ہیں کہ اچھے حکمران بری قوم کو اچھا بناتے ہیں‘اس حوالے سے خان صاحب کو اپنا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوگا ‘ وزارتوں‘ تعیناتیوں‘ پالیسیوں اورانتظامی معاملات میں قوم کی امیدوں کا بھرم رکھنے کے لیے کچھ مشکل فیصلے بھی کرنا پڑیں گے ۔
خوش نہ ہو جانا کہیں تاجِ حکومت لے کر
تخت آتا ہے ساتھ مصیبت لے کر
میرے لوگوں نے بہت رنج سہے ہیں شاہا!
ان سے دھوکہ نہ کیا جائے اطاعت لے کر
کیونکہ اب اگرملک کے لیے کچھ نہ کیا گیا‘قوم کی ا منگوں اور امیدوں کو حقیقت کا روپ نہ دیا گیا‘ تو شاید عوام کے پاس خودکشی کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔‘ قوم کو بھی ادراک کرنا ہوگا کہ کن مشکل حالات میں عمران خان نے اقتدار سنبھالا ہے اور بلاشبہ ان کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ نہیں کہ راتوں رات تمام مسائل حل ہوجائیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی حکومت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے ‘ اسی صورت ہم ایک خوشحال اور تابناک مستقبل کی امید کرسکتے ہیں۔