برسوں پہلے گزرے زمانہ کا ذکر ہے کہ ایک ملک کے باسی جوق در جوق کسی جانب گامزن تھے۔ ستم ظریفیٔ زمانہ کی وجہ سے مایوسی، خوف، بھوک، افلاس، غربت اور تنگدستی ان کے مرجھائے ہوئے چہروں سے مترشح تھی اور ارد گرد کے ماحول کو مزید افسردہ بنا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد تمام لوگ ایک جگہ جمع ہونے لگے اور سب نے حسرت و یاس بھری نگاہیں ایک جانب مرکوز کر لیں۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ اداس چہرے کسی مسیحا کی تلاش میں بھٹک بھٹک کر تھک چکے ہیں‘ اور آج کسی آخری امید کے تحت یہاں پہنچے ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں وہ ملک کون سا تھا؟ وہ لوگ کون تھے؟ اور اس جگہ کس کے لیے اور کیا کرنے جمع ہوئے تھے؟ وہ ملک آج کی سپر پاور امریکہ تھا‘ اور مفلوک الحال لوگ امریکی شہری تھے‘ جن کی حالت اس وقت یہ تھی کہ ان کے بینک دیوالیہ ہو چکے تھے‘ سٹاک مارکیٹ شدید زبوں حالی کا شکار تھی‘ حصص صرف پندرہ فیصد رہ گئے تھے۔ تقریباً ایک چوتھائی لوگ بیروزگار ہو چکے تھے اور شہروں میں یہ حالت تھی کہ لوگ ایک وقت کی روٹی کے محتاج ہو گئے تھے اور بھیک مانگنے پر مجبور تھے۔ ملک کی صنعتی پیداوار آدھی رہ گئی تھی۔ ان کا زرعی، معاشی اور معاشرتی نظام بری طرح تباہ ہو چکا تھا۔ یہ سخت کساد بازی کا زمانہ تھا‘ جسے تاریخ میں "Great Depression" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ زمانہ مارچ 1933ء کا تھا‘ اور وہ لوگ جس مقام پر جمع ہوئے تھے وہ امریکی دارالحکومت تھا۔ اس روز ملک کے نومنتخب صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے عوام سے خطاب کیا اور انہیں ایک نئی امید دی۔ اپنے زمانۂ صدارت میں انتظامی، معاشی اور سماجی اصلاحات نافذ کیں اور ملک کی حالت سدھار کر ایک نئی ڈگر پر چلا دیا۔
روز ویلٹ نے جو اقدامات کیے انہیں ''نیو ڈیل‘‘ کا نام دیا گیا اور اس کی بنیاد پر نیشنل انڈسٹری ریکوری ایکٹ منظور ہوا۔ روزویلٹ کا خیال تھا کہ فری سرمایہ دارانہ نظام دنیا کی جدید معیشتوں کو چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتے تھے کہ عام آدمی کو حکومتی پالیسیوں کے متعلق بتایا جا سکتا ہے۔ اس خیال کو متشکل کرنے کیلئے انہوں نے ماہرِ سماجیات جارج گیلپ کی مدد حاصل کی۔ یہاں سے پہلی مرتبہ عوامی رائے جاننے کے لیے گیلپ سروے کروانے کا سلسلہ شروع ہوا‘ جو آج تک جاری ہے۔ وہ صنعت کے میدان میں اجارہ داری کے خاتمے اور مسابقت کے فروغ کے حامی تھے۔ اس قانون کی منظوری کا مقصد صنعتکاروں سے ٹیکس اور دیگر واجبات کی وصولی تھا۔ روزویلٹ نے کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے لیے جدوجہد کی اور لیبر یونین کے قیام کے لیے قانون سازی بھی کی۔ اس دور میں سوشل سکیورٹی ایکٹ کی منظوری دی گئی جس کے تحت امریکہ کو فلاحی ریاست قرار دیا گیا۔ ریٹائرمنٹ، پنشن، بیروزگاری، خاندانوں کی امداد، عوام کی صحت کی دیکھ بھال اور معذوروں کو امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ روزویلٹ نے نیشنل لیبر ریلیشز ایکٹ پر بھی دستخط کیے اور اس قانون کو تمام نجی اداروں تک توسیع دے دی‘ جس کی وجہ سے تمام کارخانے اور تجارتی مراکز اپنے کارکنوں کو تمام فوائد دینے کے پابند ہو گئے۔ اس کے علاوہ روزویلٹ کے زمانے میں ٹینیسی ویلی اتھارٹی کے نام سے ایک عظیم الشان منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا‘ جس نے سات ریاستوں کے لئے خوشحالی کے دروازے کھول دیئے۔ اس میں 29 ڈیم ہیں اور یہ نظام سیلاب کی روک تھام کے علاوہ آب پاشی اور بجلی کی پیداوار میں بھی بہت مدد دیتا ہے۔ نیز ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ ٹینیسی ویلی ایکٹ کے تحت سستی پن بجلی کی پیداوار، سیلاب پر قابو پانے اور زرعی زمین کی زرخیزی میں اضافے کے لیے موثر اقدامات کیے گئے۔
صدر فرینکلن روزویلٹ نے جمہوریت کی مخالفت کی بجائے ایک نئے طریقے سے اسے مزید مضبوط بنانے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی برین واشنگ کرنے، ان کے لاشعور میں چھپی خواہشات اور جذبات سے کھیلنے کی بجائے عوام کے ساتھ ایک نئے طریقے سے ڈیل کیا جائے گا۔ یہیں سے مذکورہ بالا ''دی نیو ڈیل‘‘ تھیوری کا آغاز ہوا‘ اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک معذور شخص روز ویلٹ‘ جو 39 برس کی عمر میں پولیو کا شکار ہو کر ویل چیئر پر آ گیا تھا، نے اپنی لگن اور ویژن کی بدولت اقتدار کے صرف پہلے 100 روز کے اندر ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کرکے دنیا میں ایک ممتاز مقام دلا دیا۔
آج یہ مفصل کہانی بیان کرنے کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ عروج و زوال ہمیشہ سے قوموں کی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ آج اگر ہم خود کو 1933ء کے امریکہ کے تناظر میں دیکھیں تو ہماری حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ہمیں بھی کم و بیش انہی مسائل کا سامنا ہے جو اس وقت امریکی عوام کو درپیش تھے۔ ہماری قوم بھی آج ایک فرینکلن ڈی روزویلٹ کی متلاشی ہے جو ہمارے ملک کو قدموں پر کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور لگتا یہ ہے کہ یہ تلاش عمران خان کی صورت میں ختم ہونے کو ہے‘ کیونکہ حالیہ انتخابات میں زبردست کامیابی کے بعد عمران خان نے بھی پہلے 100 روز میں سوشل جسٹس سمیت متعدد قابلِ قدر اصلاحات لانے کا اعادہ کیا ہے‘ جس میں پانچ برس میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کیلئے ملکی تاریخی کی سب سے زبردست حکمت عملی سامنے لائی جائے گی۔ اس پالیسی کے ذریعے ہنر دینے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ پیداواری شعبے کی بحالی اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی تیزی سے ترقی کی راہ ہموار کی جائے گی۔ پاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے کم ٹیکس، برآمدات پر چھوٹ اور اضافی سہولیات پر مبنی امدادی پیکیج کا اعلان کیا جائے گا۔ مزدورں کیلئے لیبر پالیسی بنائی جائے گی۔ نجی شعبے کے ذریعے پانچ برسوں کے دوران کم لاگت سے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے ''وزیراعظم اپنا گھر پروگرام‘‘ شروع کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے ذریعے صنعتی شعبے کو فروغ ملے گا، روزگار کے اسباب پیدا ہوں گے۔ ملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لئے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کیلئے فریم ورک بنایا جائے گا۔ حکومتی گیسٹ ہائوسز کو ہوٹلز میں بدلنے کا عمل شروع کیا جائے گا‘ اور انہیں عوام کیلئے کھولا جائے گا۔ ایف بی آر کیلئے اصلاحاتی پروگرام متعارف کرایا جائے گا۔ پہلے سو روز میںمعیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصار کم کرنے کیلئے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کی جائے گی۔ برآمدات میں اضافے کیلئے وزیراعظم کی سربراہی میں ''کونسل آف بزنس لیڈرز‘‘ قائم کی جائیگی، جو مندرجہ بالا اہداف کے حصول کیلئے حکمت عملی مرتب کرے گی۔
''پاکستان ویلتھ فنڈ‘‘ کے قیام کے ذریعے ریاست کے زیر ملکیت اداروں میں انقلاب کی بنیاد رکھی جائے گی۔ وزارتوں سے الگ کر کے آزاد بورڈ آف گورنرز مقرر کیے جائیں گے‘ اور ان پر بہترین صلاحیتوں کے حامل منتظمین (چیف ایگزیکٹو آفیسرز) کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کی ابتدا ہنگامی طور پر قومی ایئر لائن‘ ریلویز، جنکوز اور ڈسکوز سے کی جائے گی۔ فوری طور پر دیرپا اور سستی بجلی پر منتقل ہونے کیلئے تحریک انصاف کی انرجی پالیسی پر کام کا آغاز کیا جائے گا۔ قومی مالیات میں شراکت داری کی حکمت عملی کے نفاذ کو مربوط بنایا جائیگا۔ قومی سطح پر بچت کی حوصلہ افزائی کیلئے بینکوں میں جمع کروائے جانیوالے سرمائے کا حجم جی ڈی پی کے پچاس فیصد تک بڑھانے کیلئے منصوبہ مرتب کیا جائیگا۔ اس کیساتھ بڑے منصوبوں کیلئے انفراسٹرکچر لینڈنگ بینک کے قیام کا عمل شروع کیا جائے گا۔
اگر اس اصلاحاتی ایجنڈے کا جائزہ لیا جائے تو بڑی حد تک روزویلٹ اصلاحات کی جھلک کی نظر آتی ہے جس نے امریکہ کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ لیکن بات صرف پوری ایمانداری اور جانفشانی سے عملدرآمد کروانے کی ہے اور اگر انہیں مکمل طور پر لاگو کر دیا جاتا ہے تو یقین جانئے وطن عزیز کوترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈالنے میں کوئی امر مانع نہیں رہے گا۔ اس وقت پوری قوم بہت زیادہ پُرامید ہے کہ خان صاحب نے جو خواب قوم کو دکھائے‘ وہ ایک دن ضرور شرمندۂ تعبیر ہوں گے۔ لیکن اس کے لیے قوم کو بھی اپنے حصے کا کردار ادا کرنا پڑے گا اور اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنے فرائض کو پوری دلجمعی اور لگن سے سرانجام دینا ہو گا۔ اپنے اندر سماجی‘ اصلاحی سوچ کو پروان چڑھانا ہو گا۔ اسی صورت میں ہم پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ