"MEC" (space) message & send to 7575

معاشی کہرام

ملک میں جاری معاشی بحران ایک کہرام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ عجب گومگو کی سی کیفیت ہے۔ عام آدمی سے لے کر سرمایہ کار تک ہر کوئی انگشت بدنداں ہے کہ کریں تو کیا کریں، جائیں تو کہاں جائیں۔ کاروباری طبقے میں ناصرف ادائیگیاں رک چکی ہیں بلکہ بات اب ڈیفالٹ تک جا پہنچی ہے۔ عام شہری بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی وجہ سے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں‘ اور نوبت کنکشنز منقطع کروانے تک جا پہنچی۔ اسی طرح مزدور طبقہ بھی ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں پس کر رہ گیا ہے۔ خاص طور پر ہاؤسنگ سیکٹر میں روزانہ کی اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کو کام نہ ملنے کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔ صحت اور تعلیم میں بہتری کے نام پر ووٹ مانگنے والی حکومت نے اپنے پہلے نو ماہ میں ادویات کی قیمتیں اس قدر بڑھا دیں کہ غریب آدمی کیلئے بیمار ہونا بھی وبال جان ٹھہرا۔ سفید پوش طبقے کیلئے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانا ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ والدین کے پاس بچوں کی فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی قدر سے ملک میں ڈالر ناپید ہو گیا ہے اور پردیس میں زیر تعلیم طلبا کے والدین ڈالر کی عدم دستیابی کے باعث اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ علاج معالجے کیلئے باہر جانے والے مریضوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی 10 ماہ کی حکومت کے دوران ڈیٹ ٹو جی ڈی پی تناسب 70 فیصد سے زائد ہو چکا ہے۔ ملکی درآمدات 45 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہیں جبکہ برآمدات 19.17 ارب ڈالرپر آ چکی ہیں۔ شرح نمو اپنے ٹارگٹ 6.2 فیصد کے بجائے 3.29 فیصد ہے جو گزشتہ 9 سالوں میں کم ترین سطح ہے۔ زرعی ترقی کی شرح اپنے ٹارگٹ 3.8 فیصد کی بجائے 0.85 فیصد پر آ چکی ہے۔ اسی طرح صنعتی شعبہ اپنے ٹارگٹ 7.6 فیصد کی بجائے 1.4 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہا ہے۔ ٹیکس وصولی کا ہدف بھی پورا ہوتا نظر نہیں آرہا، معاشی حجم 313 ارب ڈالر سے کم ہو کر 280 ارب ڈالر پر آ چکا ہے۔ پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 10 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 8.4 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں‘ اور فیصلوں میں تاخیر کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ابتر معاشی صورتحال کے باعث فی کس آمدن1650 ڈالر سے گر کر 1515 ڈالر پر آ گئی ہے۔ 10 ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر34 فیصد گر چکی ہے اور ایک ڈالر154 روپے تک جا پہنچا ہے۔ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں اتنی گراوٹ اور برآمدات پر دی گئی رعایتوں کے باوجود ہماری برآمدات ڈیڑھ فیصد تک کم ہو چکی ہیں۔ 6کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ سٹاک ایکسچینج گزشتہ چند سالوں میں 53000 سے گر کر 33029 تک جا پہنچی۔ یہ تمام معاشی اعدادوشمار ایک خوفناک معاشی منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔
اگرچہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘ مگر اس میں بھی دیر کی گئی۔ آئی ایم ایف کا 22واں پروگرام‘ جس کے تحت پاکستان کو 6 ارب ڈالر ملیں گے‘ شاید ہماری معیشت کو آئی سی یو سے باہر نکال سکے‘ مگر یہ ہمارے دیرینہ مسائل کا حل ہرگز نہیں ہے۔ سابقہ آئی ایم ایف پروگرامز (2000-2013ئ) میں سے پاکستان صرف دو پروگرام ہی مکمل کر سکا۔ اس دوران اگر معاشی اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو مالیاتی خسارہ کم ہوا مگر کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم نہ ہو سکا لیکن اس دوران افراط زر بڑھا اور شرح نمو میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔ 2013-16ء کے آئی ایم ایف پروگرام سے شرح نمو میں 1.1 فیصد کمی آئی اور مالیاتی خسارہ 4 فیصد اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ 1 فیصد بڑھ گیا۔ حکومت نے ابھی تک آئی ایم ایف سے اس معاہدے کی کوئی تفصیلات پارلیمان اور عوام کے سامنے نہیں رکھیں۔ مجوزہ آئی ایم ایف پروگرام میں سخت ترین شرائط رکھی گئی ہیں۔ سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے متعلق بھی کچھ تجاویز دی گئی ہیں اور صوبوں کو اضافی بجٹ بنانے ہوں گے۔ اس کے علاوہ ڈالر اور پاکستانی روپے کو بھی مارکیٹ میکنزم سے چلانا، تمام سبسڈیز اور رعایتوں کو ختم کرنا، بجلی اور گیس کی قیمتوں کو بھی بغیر کسی رعایت کے عوام سے وصول کیا جانا بھی‘ شرائط میں شامل ہے۔
دیکھا جائے تو ارجنٹینا کا 57 ارب ڈالر کا قرضہ اور مصر کا 12 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف سے قرضہ بھی کوئی قابل رشک نتائج نہیں دے سکا تھا۔ وہاں بھی کرنسی ڈی ویلیوایشن اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی دوبھر کر دی۔ گزشتہ سال ارجنٹینا نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا‘ اس سے ان کے مالیاتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں تو کمی آئی‘ مگر افراط زر 55 اور شرح سود 62.5 فیصد تک پہنچ گئی‘ جس کی وجہ سے غربت کی شرح بھی 26 سے 40 فیصد تک جا پہنچی‘ یوں وہاں کے عوام مہنگائی کے خلاف آئے روز سڑکوں پر مظاہرے کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح مصر میں آئی ایم ایف پروگرام کے بعد2017ء میں افراط زر کی شرح 33 فیصد‘ شرح سود تقریباً 20 فیصد تک چلا گیا تھا جبکہ بیرونی قرضہ 36.5 ارب ڈالر سے 96.6 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا اور اس دوران غیر ملکی ذخائر 26 سے 42.5 ارب ڈالر تک ہو گئے تھے۔ اسی طرح مصر کا مالیاتی خسارہ بھی 10 فیصد کے لگ بھگ رہا۔ 2018ء میں مصر میں شرح نمو 4.2 سے 5.3 فیصد تک چلی گئی تھی‘ جس کی بنیادی وجہ قدرتی گیس کی مزید دریافت، سیاحت کا فروغ اور ترسیلات میں اضافہ تھا۔ اگرچہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے ملکی ذخائر بڑھ جاتے ہیں، کرنٹ اکائونٹ خسارہ بہتر ہو جاتا ہے اور بجٹ خسارہ بھی کم ہو جاتا ہے‘ لیکن اس کے نقصانات میں افراط زر، شرح سود اور مہنگائی کا بڑھنا بھی شامل ہیں‘ جس سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہونے کی بجائے بد تر ہو جاتی ہے۔ 
اب اس حکومت کو 50 لاکھ گھر،1 کروڑ نوکریاں اور سمندر سے تیل نکالنے کی شیخ چلی کی کہانیوں سے نکل کر سنجیدگی سے طویل المیعاد اور قلیل المدت منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ طویل مدتی منصوبوں میں 8 فیصدشرح نمو حاصل کرنے اور 12 فیصد کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ متبادل درآمدات (Import Substitutions) اور برآمدات میں اضافے کیلئے چین کی طرز پر سپیشل اکنامک زونز (SEZs) اور SMEs کا جال بچھائے۔ ان سپیشل زونز میں تمام مطلوبہ سہولیات اور رعایتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ برآمدات کے لیے کم قیمت پر اشیا کی پیداوار ممکن ہو۔ ہمیں اپنی درآمدی اشیا کے متبادل ڈھونڈنے ہوں گے تاکہ درآمدی بل کم کیا جا سکے‘ اور برآمدات میں اضافہ ممکن ہو۔ اس کیلئے 1000 کلومیٹر پر مشتمل ساحلی پٹی کو بہتر انداز میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ہم نے CPEC اور IPPs کے تحت بجلی کے جو منصوبے شروع کیے‘ ان سے مہنگی بجلی بنائی جا رہی ہے؛ چنانچہ پیداواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہماری مصنوعات بین الاقوامی سطح پر مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ اس کے لئے طویل المیعاد منصوبہ بندی کے تحت پن بجلی اور توانائی کے حصول کے متبادل سستے ذرائع تلاش کئے جانے چاہئیں۔
جیسا کہ مصر، ارجنٹینا، برازیل جیسے ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدوں سے کرنسی کی گراوٹ کی وجہ سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی بڑھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے بنیادی سہولیات لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر آلو، پیاز، ٹماٹر کی قیمتیں بھی خط غربت سے نیچے زندگی گزارتے طبقے کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں؛ چنانچہ پرائس کنٹرول کا نظام مؤثر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ 20ویں صدی میںگریٹ ڈپریشن کے دور میں امریکی صدر روزویلٹ کے پروگرام کی طرز پر سوشل سکیورٹی کا نظام متعارف کروانا چاہیے جس سے عام آدمی کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔ اگر حکومت نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غریبوں کے لئے فوری ریلیف کا سنجیدگی سے بندوبست نہ کیا تو لوگ سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں