"MEC" (space) message & send to 7575

کچرا محض ویسٹ نہیں ‘سرمایہ بھی

کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنا اور ٹھکانے لگانا موجودہ دنیا کی بڑھتی آبادی اور ماحولیات کو درپیش خطرات میں ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ صدیوں قبل لوگ کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کیلئے گڑھا کھود تے اور سارا ویسٹ اس میں ڈال دیتے ‘ اس سے ایک تو ماحول صاف ستھرارہتا دوسرا لوگ بیماریوں سے محفوظ رہتے ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں آبادی بڑھتی گئی یہ طریقہ کار آمد نہ رہا۔شہری آبادیاں گنجان ہوتی گئیں اور کچرے کیلئے ڈمپنگ سائیٹس کم ہوگئیں ۔گلوبل ویسٹ مینجمنٹ آؤٹ لُک کی رپورٹ کے مطابق 2010ء میں دنیا بھر میں تقریباً 10بلین ٹن کچرا پیدا ہوا۔ اس میں شہروں سے پیدا ہونے والا کچرا 2.0 بلین ٹن تھا‘ جس کے مطابق ہر شخص روزانہ 0.74 کلوگرام کچرا پیدا کرنے کا سبب بن رہا تھا۔ جب اتنے کثیر حجم میں کچرا پیدا ہوگا تو پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ ہے: اسے ٹھکانے کیسے لگایا جائے ؟ترقی یافتہ ممالک میں کچرے کو ری سائیکل کرکے توانائی کے ایک متبادل ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس تصور کو ''ویسٹ ٹو انرجی‘‘کی اصطلاح دی گئی۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سویڈن میں اس وقت 49فیصد کچرے کو ری سائیکل کرکے پاور پلانٹس کے ذریعے بجلی اور گیس پیدا کی جا رہی ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے مطابق کچرے سے پیدا ہونے والی گیس سے ملک میں موجود 1.25ملین اپارٹمنٹس اور 6 لاکھ 80 ہزار گھروں کی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ کمپنی کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ چار ٹن کچرے کو ری سائیکل کرنے سے ہم اتنی توانائی حاصل کرلیتے ہیںجتنی ایک ٹن تیل ‘ کوئلہ کے 1.6 ٹن یا لکڑی کے 5 ٹن کے ذخائر استعمال کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔اس طرح شہر بھی صاف رہتے ہیں اور توانائی کے قدرتی اور زمینی ذرائع کی بچت بھی ہوتی ہے۔صرف یہی نہیں یہ کمپنی بجلی پیدا کرنے کے علاوہ سالانہ ایک لاکھ ٹن ویسٹ فوڈ اور نامیاتی کچرے کو استعمال کرتے ہوئے بائیو گیس بھی بناتی ہے‘ جس سے شہر بھر میں 200 سے زائد بسیں ‘ کوڑا اٹھانے والے ٹرک اور کچھ پرائیویٹ گاڑیاں بھی چلتی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سویڈن نہ صرف اپنے مقامی کچرے کو اس پلانٹ میں استعمال کرتا ہے بلکہ برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک سے کچرادرآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ''ویسٹ ٹوانرجی‘‘تصور کو چند دوسرے ممالک نے بھی اپنایا۔ جاپان اپنے سالڈ ویسٹ کا 60 فیصدتلف کرکے ری سائیکل کرتا ہے‘ جبکہ ورلڈ انرجی کونسل کی رپورٹ کے مطابق چائنہ نے 2011-2015 میں اپنی ویسٹ ٹوانرجی پیدا کرنے کی صلاحیت کو دوگنا کرلیا ہے۔سنگاپور میں ری سائیکلنگ کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے‘ جس میں فوڈ ویسٹ ‘ وڈویسٹ ‘ میٹل ویسٹ ‘ تعمیراتی ویسٹ اور پلاسٹک ویسٹ کو الگ الگ ٹریٹ کیا جاتا ہے اور یوں سنگا پور اپنے کچرے کا 90 فیصد تک ری سائیکل کرنے کے قابل ہوچکا ہے۔ بھارت میں بھی بڑھتی آبادی کے ساتھ کچرے کا مسئلہ پیچیدہ صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بھارت سرکار نے مسئلے کی اہمیت کو بھانپتے ہوئے وہاں یونیو رسٹیز میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے باقاعدہ ڈگری پروگرامز شروع کردئیے ہیں جن کے تحت طلبا کو ماحول دوست اقدامات کرنے اور کچرے کو ری سائیکل کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ان ممالک کی کاوش کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچرا محض ایک ویسٹ نہیں بلکہ سرمایہ بھی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق کراچی اور لاہور کا شمار دنیا کے بڑے میٹروپولیٹن شہروں میں ہوتا ہے۔ 15 ملین آبادی کے ساتھ کراچی دنیا کا تیسرا بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے اور پاکستان کا معاشی مرکزتصور کیا جاتا ہے جو ملک کی جی ڈی پی کا 12 سے 15 فیصد تک پیدا کرتا ہے۔ 1930ء کی دہائی میں جنوبی ایشیا کا پیرس کہلانے والا کراچی شہر اس وقت سنگین مسائل کا شکار ہے‘ جن میں کوڑ اکر کٹ کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں کراچی شہر میں کچرے کا مسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے۔ سیوریج کے ناقص انتظامات اورکچرے کی وجہ سے شہریوں میں ملیریا‘ گیسٹرو‘ ٹائیفائیڈ‘ ڈینگی اور کانگو بخار جیسی شکایات عام دیکھنے میں آرہی ہیں۔ اس وقت کراچی شہر سے یومیہ 15 ہزار ٹن کے قریب کچرا پیدا ہورہا ہے‘ جس کو ٹھکانے لگانے کیلئے بلدیاتی اداروں کے پاس کوئی پلان ہے نہ سندھ حکومت ہی اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ اقدامات کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ میونسپل اور ڈسٹرکٹ کارپوریشنز کے بعد جب سند ھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے تو پنجاب کی طرز پر کراچی سے کوڑا اٹھانے کا فریضہ غیر ملکی کمپنی کودے دیا گیا۔ سندھ حکومت نے کوڑا اٹھانے اور اسے پراسس کرنے کیلئے چائنہ سے ہیوی مشینری منگوانے کیلئے 2 بلین ڈالر کے منصوبے پر دستخط کئے‘ یوں یہ سسٹم پنجاب کی طرح یہاں بھی کافی مہنگا پڑا۔ کچرا اٹھانے کے اخراجات میں تو تقریباً 12 گنا اضافہ ہو گیا لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ جنوبی کراچی کی انتظامیہ کی جانب سے ''بلیوجیکٹ‘‘نامی مہم اور سندھ میں اپوزیشن پارٹی تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی کی جانب سے ''آؤ کراچی صاف کریں‘‘ مہم بھی چلائی گئی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی۔
دوسری طرف لاہور میں بھی کچرے کا مسئلہ پیچیدہ صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ 1 کروڑ سے زائد آبادی کے حامل پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں کچرا ٹھکانے لگانے کا کام عشروں سے مقامی حکومتیں عوامی تعاون سے کرتی آئی ہیں۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کوبجٹ سے سالانہ دوارب روپے جاری کئے جاتے تھے اور لاہور کی 150 یونین کونسلوں کی صفائی ہوتی تھی۔ کچرے کی صفائی کا یہ نظام کامیابی سے جاری تھا کہ سائنسی لینڈ فل سائٹس کا نہ ہونا ‘ تکنیکی ماہرین کی عدم دستیابی ‘ پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ‘ ماحولیات پر منفی اثرات کی روک تھام اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے مربوط نظام کی کمی جیسے اعتراضات لگا کر اس سسٹم کو بند کردیا گیا اور شہباز شریف اینڈ کمپنی نے لاہور کے کچرے سے کمائی کرنے کا نیا منصوبہ بنایا۔ 19 مارچ 2010ء کوکمپنی آرڈیننس 1984ء کے سیکشن 42 کے تحت لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ایسوسی ایشن یادداشت (Memorendum of association)کی دستاویز کے آرٹیکل 35اور37 کے مطابق کمپنی کے ذمہ لاہورکے شہریوں کیلئے سالڈویسٹ مینجمنٹ کیلئے ایسا مربوط‘ مؤثر اور مستقل نظام قائم کرنا تھا جس سے لوگوں کو ماحولیات پر کوڑا کرکٹ کے منفی اثرات اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے صحت کے مسائل سے چھٹکارا مل سکے ۔ اس یادداشت کے تحت لاہور سے سالڈ ویسٹ اکٹھا کرنا ‘ا س کی مناسب جگہ ترسیل ‘نیز میونسپل‘ کمرشل ‘ صنعتی اور ہسپتالوں کا کچرا اکٹھا کرکے اس کو ری سائیکل کر کے اس کچرے سے بجلی پیدا کرنا طے تھا‘ ساتھ ہی روزانہ پیدا ہونے والے نامیاتی ویسٹ کی کمپوسٹنگ (کھاد سازی) کرنا بھی مقصود تھا۔ کوڑے کی ری سائیکلنگ سے سرمایہ کمانے کا ٹارگٹ دیا گیا جیسے‘ دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں ہوتا ہے۔ 26 دسمبر 2010ء کو غیر ملکی کمپنی آئس ٹیک کو کروڑوں روپے کے عوض کنسلٹنٹ مقرر کیا گیا اور اس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے درمیان 25 جون 2011ء کوساما(سروسز اینڈ ایسیٹ مینجمنٹ ) ایگریمنٹ طے پایا‘ جس کے تحت قومی خزانے سے اربوں روپے کے وسائل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سے لے کر اس کمپنی کو دے دئیے گئے ۔ ان وسائل میں 10600 ملازمین ‘ 500 گاڑیاں ‘ 6 کسٹمائزڈ ورکشاپس ‘ 50 ویسٹ انکلوژرزاور3ڈمپنگ سائٹس بھی شامل تھیں ۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بیوروکریسی کی مخالفت کے باوجود کمپنی سے ٹھیکے کی سمری منظور کی۔ آئس ٹیک کے مشورے سے مزید دو غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے کیلئے ٹینڈرز جاری کئے گئے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں