"MEC" (space) message & send to 7575

کچرا محض ویسٹ نہیں، سرمایہ بھی …(2)

آئس ٹیک کے مشورے سے مزید دو غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے کیلئے ٹینڈرز جاری کئے گئے۔ ان دونوں کمپنیوں کو 32 کروڑ ڈالر میں 84 ماہ (7 سال) کیلئے شہر کا کوڑا ٹھکانے لگانے کا ٹھیکہ ملا۔ مگر افسوس‘ بہت سارے منصوبوں کی طرح پنجاب حکومت کا یہ منصوبہ بھی لوگوں کی آنکھوں میں دُھول جھونک گیا۔ کئی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کچرا ٹھکانے لگانے کا یہ کام ایسے افراد کے سپرد کیا گیا جو انتہائی غیر پیشہ ور تھے، جن کی اس فیلڈ میں کوئی قابلیت تھی‘ نہ ہی صلاحیت۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز اور کمپنی کے دیگر افراد صفائی کے نظام کو سمجھتے تھے اور نہ ہی ان کا اس کام میں کوئی تجربہ تھا۔ کمپنی کا مقصد مارکیٹ پر مبنی تنخواہ پر پروفیشنل لوگوں کو بھرتی کرنا تھا‘ جن کی پیشہ ورانہ صلاحیت ہو اور تکنیکی کام کرنے کی استعداد بھی مگر دوسرے سرکاری منصوبوں کی طرح یہاں بھی محض اپنوں کو نوازا گیا۔ کمپنی تو قائم کر دی گئی مگر اس کام کیلئے کوئی ریگولیٹری فریم ورک اور بزنس پلان نہ بنایا جا سکا جس سے کچرے کی منظم طریقے سے کولیکشن، درجہ بندی اور پھر ری سائیکلنگ ممکن ہو سکے‘ جس کا ذکر یادداشت کے آرٹیکل 8 میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح آرٹیکل 38 کے مطابق لوکل کمیونٹی کو اس کام میں شامل کرنے کیلئے عوامی شعور اجاگر کرتے ہوئے ایک منظم سسٹم بنانا تھا‘ مگر یہ بھی نہ ہو سکا، آرٹیکل 44 اور 45 میں لکھا گیا کہ کچرے کو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر ٹریٹ کیا جائے تاکہ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پایا جا سکے اور لوگوں کی صحت پر اس کا بُرا اثر بھی نہ ہو‘ لیکن تکنیکی بنیادوں پر آپریشن محض دیوانے کا خواب ہی رہا۔
دوسری طرف سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کیلئے ایک ادارہ عشروں سے کام کر رہا تھا تو اسے بہتر اور پروفیشنل بنانے کی بجائے نئی کمپنی کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے سارے وسائل اس کمپنی کو جھونکنے کے باوجود کچرا ری سائیکل ہو سکا نہ ہی بجلی بنی۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کے 2 ارب روپے کے کام کے مقابلے میں کمپنی نے یہی کام 14 ارب روپے تک میں کیا۔ نیویارک 412 ارب روپے کچرے کی ری سائیکلنگ سے کماتا ہے، بیجنگ 1250 ارب روپے جبکہ لاہور سے سالانہ اوسطاً 20 لاکھ ٹن کچرا مفت ہی بیچ دیا گیا۔ معاہدے کے تحت ڈمپنگ سائٹس پر کوڑا پھینکنے کی وجہ سے زیر زمین پانی اور اطراف کا ماحول آلودہ ہو رہا تھا لہٰذا لینڈ فل سائٹس کا منصوبہ اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی خدمات بین الاقوامی کنٹریکٹر کو دینے کا مقصد مربوط سالڈ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم قائم کرنا تھا جو نہ ہو سکا۔ اس وقت لکھو ڈیر ڈمپنگ سائٹ پر کوڑے کے پہاڑ بن چکے ہیں جو شہریوں کیلئے بیماریوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اور دریائے راوی اور شہر میں موجود پانی کے ذخائر بھی اس کچرے کی وجہ سے آلودہ ہو چکے۔ یوں لگتا ہے جیسے کراچی کے بعد لاہور بھی کچرا کنڈی کی شکل اختیار کرنے جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مارچ 2019 سے اس کمپنی کے ساتھ کیا گیا سات سالہ ٹھیکہ ختم ہو چکا مگر کمپنی کو زرمبادلہ اور ڈالرز کی غیر قانونی ادائیگیاں ابھی تک جاری ہیں اور کارکردگی ندارد، مگر تبدیلی سرکار اور افسران کی فوج ظفر موج خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہے اور اس بات سے قطعی بے خبر کہ غیر ملکی کمپنیوں سے لوٹ مار کا معاہدہ ختم ہو چکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کو تھی تو حکومت نے کوئی ٹرانزیشن پلان کیوں نہ بنایا؟ آٹھ برس میں قومی خزانے سے ایک کھرب روپے کے قریب خرچ ہونے کے باوجود صورتحال گمبھیر ہے اور ماحول تعفن زدہ مگر حکومت کمیٹی کمیٹی کھیلنے میں مصروف ہے۔ ہمارا نصف ایمان صفائی ہے، مگر افسوس کہ ہم اپنے کچرے کو صاف کر سکے اور نہ ہی اسے دوبارہ قابل استعمال بنا سکے۔ الٹا اسے بھی لوٹ مار اور کمائی کا ذریعہ بنا کر رکھ دیا۔ اس Labour intensive Job کیلئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہ تھی جس کیلئے غیر ملکی کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ واحد مسلم ایٹمی پاور کیلئے صفائی کا ٹھیکہ غیر ملکی کمپنیوں کو دینا باعث شرم ہے، اور ساتھ ہی قوم کے ان عظیم سپوتوں کو بھی 'سلام‘ جنہوں نے 100 ارب ڈالر کی مقروض قوم کو مزید اربوں روپے کا چونا لگا دیا۔ وہ اس ملک کے کوڑے سے بھی غیر ملکیوں کو نواز گئے اور قوم کو کینسر، ڈینگی، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور گیسٹرو جیسی بیماریاں دے گئے۔
پھر سوال جنم لیتا ہے کہ آخر اس مسئلے کو حل کیسے کیا جائے؟ اس ضمن میں تبدیلی سرکار کیلئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ پہلی یہ کہ چونکہ ان غیر ملکی کمپنیوں سے ٹھیکے کی میعاد ختم ہو چکی‘ لہٰذا حکومت کیلئے ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کچرا اٹھانے کی یہ ذمہ داری اسی کمپنی کے پاس رہے یا فوری طور پر کوئی ٹرانزیشن پلان بنایا جائے، جبکہ کمپنی کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ایک ایم ڈی بیرون ملک فرار ہو چکا ہے جبکہ دوسرا ضمانت پر ہے، لہٰذا حکومت کیلئے مقام ادراک ہے کہ صفائی آپریشن ایسی کمپنی کو دینے کی بجائے جو صفائی کیلئے بجٹ کا خود کار نظام متعارف کروا سکی‘ نہ ہی معاہدے میں مذکور کوئی اہداف ہی پورے کر سکی، اس کے متبادل کوئی سرکاری ادارہ فعال کیا جائے۔ اس کے بعد فوری طور پر ساما (SAMA) معاہدے کے تحت سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دئیے گئے تمام وسائل سے‘ جن میں گاڑیوں کی تعداد، ورکشاپس، سینٹری ورکرز سمیت دوسرے وسائل کی فہرست (Inventory) شامل ہے‘ بتدریج ٹرانزیشن کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس عمل میں سب سے پہلے مکینیکل روڈ سویپنگ اور واشنگ کا کام غیر ملکی کمپنیوں سے لے کر خود شروع کیا جائے تاکہ اربوں روپے کے غیر ملکی زرمبادلہ کا خرچ بچایا جا سکے اور ساتھ ہی ان علاقوں کا بھی کام سنبھالا جا سکے جن پر غیر ملکی معاہدے کے 84 ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد تیسرا بڑا اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ کچرا اٹھانے کے کام کیلئے مالی وسائل پیدا کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر ایک بزنس پلان بنایا جائے‘ جس میں سینی ٹیشن فیس ایکسائز کے ریٹنگ ایریاز کے مطابق تمام گھروں اور کمرشل ایریاز سے اکٹھی کی جانی چاہیے۔ اس سے پہلے 2014 تک یہ فیس واسا کے بلوں کے ساتھ شہریوں سے وصول کی جاتی رہی ہے۔ یہی طریقہ کار ڈی ایچ اے لاہور اور کنٹونمنٹ بورڈ ایریاز میں کامیابی سے لاگو ہے۔ صفائی کے معاملات کو بہتر بنانے اور سینی ٹیشن فیس اکٹھی کرنے کیلئے ہمیں ریگولیٹری فریم ورک بنانا ہو گا۔ اس سے سول سوسائٹی کی ویسٹ مینجمنٹ میں دلچسپی اور ذمہ داری بڑھے گی اور ویسٹ مینجمنٹ کا ادارہ حکومتی خزانے پر بوجھ بننے کی بجائے نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے گا بلکہ کمائی کا ذریعہ بھی بنے گا۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ سنگا پور کی طرز پر ری سائیکلنگ انڈسٹریز کو مراعات دے کر فروغ دیا جائے تاکہ ویسٹ سرمایہ کمانے کا ذریعہ بن سکے، چونکہ ہمارا کچرا زیادہ تر Organic waste پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت ہے کہ موجودہ کمپوسٹنگ پلانٹس کی آؤٹ سورسنگ کر دی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کچرے کی درجہ بندی کرتے ہوئے نامیاتی، میونسپل، کمرشل اور ہسپتالوں سے پیدا ہونے والے کچرے کو ٹریٹ کرنے کیلئے الگ الگ پلانٹس لگائے جائیں، اس ضمن میں ضروری قانون سازی کی جائے اور اس پر ریگولیٹری فریم ورک تیار کر کے سختی سے عمل درآمد کروایا جائے تاکہ سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ اداروں کو بھی اپنی ذمہ داری کا بخوبی احساس ہو اور ماحول دوست اقدامات کرنے میں آسانی ہو۔ ہمارے کچرے میں آر ڈی ایف کی بہت بڑی مقدار موجود ہوتی ہے‘ جو سستے داموں بیچا جا رہا ہے۔ اس کو ویسٹ ٹو انرجی اور بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے استعمال کیا جائے۔ موجودہ سائنٹفک لینڈ فل سائٹس کو نہ صرف چالو کیا جائے بلکہ ان کی توسیع کیلئے بھی اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کی سستی اور نااہلی کے باعث سالڈ ویسٹ کا مسئلہ پہلے ہی گمبھیر صورت اختیار کر چکا ہے، اگر اس مسئلے پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو نہ صرف یہ کراچی سے بھی زیادہ پیچیدہ صورت اختیار کر جائے گا بلکہ ُبزدار حکومت کیلئے بہت بڑی مصیبت بھی بن سکتا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں