کرپشن کے خاتمے کا منشور رکھنے والی عمران سرکار نے 2019 کے اختتام پر ملک میں احتساب کے حامی حلقوں میں اضطراب پیدا کر دیا۔ 90 کی دہائی میں بننے والے نیب کے ادارے‘ جو ملک میں کرپشن کیخلاف سرگرم عمل ہے، کے حوالے سے قانون کی شکل بدل کر رکھ دی۔ حکومت کا موقف ہے کہ ہمارے اس مثبت قدم سے ادارے مضبوط ہوں گے، کاروبار میں آسانی ہو گی۔ مخالفین بولے‘ یہ تو 'خودکو بچاؤ، مٹی پاؤ‘ ترمیم ہے، تبدیلیاں چند دوستوں کو بچانے کیلئے کی گئیں، یہ ترامیم دراصل ہیں کیا؟ اس سے فائدہ کس کو ہو گا اور کسے نقصان؟ یہ جاننا بہت ضروری ہے۔
تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں احتساب نئی چیز نہیں، احتساب تکمیل پاکستان سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ 1947 میں پریوینشن آف کرپشن ایکٹ نافذ ہوا، جس میں پبلک آفس سمیت فوج اور عدلیہ کا احتساب بھی شامل تھا۔ نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ''احتساب‘‘ کے نام سے ایک کمیشن تشکیل دیا‘ جس کے پہلے چیئرمین سیف الرحمن تھے، اور جس کا اصل ٹارگٹ بی بی اور پیپلز پارٹی تھے۔ خیر اس دوران پاکستان میں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ تب پرویز مشرف نے بڑے میاں کے ہی احتساب کمیشن کو ملک میں سیاسی جماعتوں کی کرپشن اور پکڑ دھکڑ کیلئے استعمال کیا، جسے آج ہم سب نیب کے نام سے جانتے ہیں۔ 2010 کے بعد پوری دنیا میں کرپشن کے خلاف ایک جنگ شروع ہوئی۔ سابق جنوبی کورین صدر پارک جین کو کرپشن پر سزا ہوئی تو سعودی شہزادے بھی فائیو سٹار ہوٹل میں بند ہوئے اور غیر قانونی پیسہ واپس کرکے ہی جان چھڑوا سکے۔ چین میں کرپشن پر پھانسیاں دی گئیں، مگر پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کا واحد ادارہ نیب سیاسی اور ذاتی مقاصد کیلئے استعمال ہوتا رہا۔2013 کے بعد ن لیگ نے اسے پھر سے پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا۔ اسی دور میں تحریک انصاف کرپشن کے خلاف ایک طاقتور آواز بن چکی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب نیب نے کرپشن کے بڑے بڑے کیسز بے نقاب کیے اور قابل قدر کام سرانجام دیئے، چاہے وہ سابق وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے کیس ہوں یا بلوچستان کے رئیسانی جیسے بیوروکریٹ کے کیس ہوں، سب نیب کے شکنجے میں آئے۔ نیب نے دھڑا دھڑ کروڑوں کی ریکوریاں بھی کیں۔ 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی تو وزیر اعظم نے نیب کو بااختیار ادارہ رکھا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ زرداری جیسے لوگ کہتے تھے کہ نیب کی کیا مجال جو ہمیں ہاتھ لگائے‘ اور پھر انہی سابق صدر کو حوالات کی ہوا کھانا پڑی۔ ن لیگ کا بھی شاید ہی کوئی ایسا بڑا لیڈر بچا ہو جس نے نیب کی جیلوں کی سیر نہ کی، مگر عمران خان صاحب کو اصل فکر تب شروع ہوئی جب تاجروں نے نیب کی سختیوں پر پہیہ جام اور افسروں نے قلم چھوڑ ہڑتالیں شروع کر دیں۔ بیوروکریٹس نے کہا کہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے، الزام بعد میں لگتا ہے، ٹی وی پر بدنامی پہلے شروع ہو جاتی ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نیب کے بہت سے کیسز عدالتوں میں حکومت کیلئے باعث شرمندگی بن رہے تھے۔ یہی نہیں نیب کے سخت قانون میں انسانی حقوق کی پامالی کے بھی بہت سے واقعات سامنے آئے۔ 90 روز کا ریمانڈ لیا جاتا اور چھ چھ ماہ بغیر ریفرنس فائل کئے جیلوں میں بند رکھا جاتا رہا۔ اس سب صورتحال میں عمران حکومت نے اسی کو بہتر سمجھا کہ نیب کے اس سخت قانون میں کچھ تبدیلی لائی جائے۔
27 دسمبر 2019 کو وزارت قانون نے احتساب بیورو ترمیمی آرڈیننس جاری کیا جس میں نیب آرڈیننس کے آرٹیکل 4 اور 9 کی شقوں میں ترامیم کی گئیں۔ ترامیم میں سرکاری کیسز میں نیب کے دائرہ اختیار کو محدود و مشروط کر دیا گیا۔ آرٹیکل 4 کی ترمیم شدہ شقA میں کہا گیا کہ وفاقی و صوبائی ٹیکسوں اور لیویز سے منسلک تمام انکوائریاں، تحقیقات اور زیر التوا مقدمات اب احتساب عدالتوں کی بجائے متعلقہ محکموں یا متعلقہ عدالتوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ شق B میں کہا گیا کہ کوئی بھی شخص جس کا کسی پبلک آفس یا پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ کوئی واسطہ یا ربط نہیں ہے (ایک عام شخص) اس پر نیب کا قانون لاگو نہیں ہو گا، ماسوائے ان افراد (عام آدمیوں) کے جو آرٹیکل 9 کے سب سیکشن 9، 10 اور 11 میں شامل ہوتے ہوں، یعنی عوام الناس سے متعلق جرائم میں ملوث ہوں۔ شق C میں کہا گیا کہ نیب حکومتی منصوبوں اور سکیموں کے طریقہ کار میں خامیوں پر پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکے گا، اگر نیب یہ ثابت کر دے کہ سرکاری ملازم نے اس سے مالی فائدہ اٹھایا (کرپشن کی) تب نیب کارروائی کر سکتا ہے۔ شق D میں کہا گیا کہ کسی بھی رپورٹ، رائے یا مشورے پر نیب سرکاری افسر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے اپنی سرکاری پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی تشخیص صرف ایف بی آر یا ڈی سی کے مطابق ہی ہوگی۔ آرڈیننس کے آرٹیکل 9 میں 13واں سب سیکشن بھی شامل کیا گیا جس کے مطابق سرکاری ملازم کی نیک نیتی سے کیے گئے فیصلوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی، جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس سرکاری عہدیدار نے ان فیصلوں سے مالی فوائد حاصل کیے ہوں۔
ان ترامیم نے بہت سوں کو تو خوش کیا اور کئیوں کو ناراض۔ وزیراعظم کئی روز سے تبدیلیوں کا اشارہ تو دے رہے تھے مگر کپتان ایسا ناقابل یقین باؤنسر مارے گا یہ کسی کے بھی وہم و گمان میں نہ تھا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مخالفت تو کی مگر کوئی واضح موقف پیش نہ کر سکیں۔ یوں لگتا ہے‘ اپوزیشن بھی ان ترامیم پر اندر سے خاصی خوش ہے۔
مگر ترامیم کے بعد پہلے ہی ہفتے میں ان کے اطلاق میں ابہام نظر آتا ہے۔ سب کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہے کہ یہ ترامیم پچھلے تمام کیسز پر بھی لاگو ہوں گی یا نہیں؟ سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت میں نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ احسن اقبال کا کیس نیب ترامیم سے پہلے کا ہے اس لیے اس پر ترامیم کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی موقف یہ ہے کہ پرانے کیسز میں یہ ترامیم لاگو نہیں ہوں گی، مگر ماہرین قانون و آئین کا صاف صاف خیال ہے کہ ان ترامیم کا اطلاق تمام زیر التوا مقدمات پر بھی ہوگا، یہ گنجائش بھی موجود ہے کہ ایسے تمام افراد جن پر کسی بھی قسم کا مالی فوائد حاصل کرنے کا الزام نہیں، ان کے مقدمات ختم ہی ہو جائیں گے۔ ادھرسندھ ہائیکورٹ میں سیلز اینڈ ٹیکسیشن کے ایک مقدمے میں نیب کاکہنا ہے کہ ترامیم کے مطابق یہ کیس اب ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں تو دوسری جانب راجہ پرویز اشرف اور شرجیل میمن نے بھی اپنے خلاف ریفرنسز و تحقیقات پر اعتراض کر دیا۔ ایک بات صاف ظاہر ہے کہ اس ترمیمی آرڈیننس پرعدالت ایک راہ متعین ضرور کرے گی جو اس بات کو واضح کریگی کہ کن کیسز پر اطلاق ہوگا اور کن پر نہیں؟
مثبت نظر سے دیکھا جائے توتحریک انصاف نے اس سخت قانون میں خاطر خواہ تبدیلی کرکے نیب کے پر کاٹ کر قومی اداروں پر اعتماد کا اظہار کیا، اور بزنس کمیونٹی اور سرکاری ملازمین و افسران کو ریلیف دیا، مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ان ترامیم میں حکومت نے ملک میں چپڑاسی سے وزیراعظم تک سب کیلئے اب کڑے احتساب کا ڈر ختم کر دیا ہے۔
آج اس تبدیلی کے بعد لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ احتساب کے نام پر ایک اور دھوکہ ہوگیا۔ ان تبدیلیوں کے بعد احتساب کس کا ہوگا؟ صرف غریبوں کا؟ افسوس کہ ملک کو لوٹنے اور مقروض کرنے والے پھر پتلی گلی سے نکل جائیں گے، پھر مظلوم بن جائیں گے، منی لانڈرنگ کرنے والے پھر چھوٹ جائیں گے۔ ہائے‘ عوام ہار گئے اور مافیا جیت گیا۔ ناجانے کیوں عمران خان کے نعرے بار بار یاد آتے ہیں ''احتساب سب کا ہوگا‘‘ ''کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ ''این آر او نہیں دونگا‘‘۔ آج بچہ بچہ سوال کرتا ہے‘ کیا وہ وعدے بس باتیں تھیں؟ سنا تھا ''جب آئے گا عمران تو بنے گا نیا پاکستان‘‘ لیکن افسوس! شاید نئے پاکستان کا احتسابی عمل بھی کسی سیاسی مصلحت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ آج ملکی دولت لوٹنے والے شادیانے بجا رہے ہیں، جس سے کسی نئے میثاق جمہوریت کی آوازآرہی ہے۔