"MEC" (space) message & send to 7575

مہنگائی کی آفت

اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے تعین کا نظام اتنا ہی پرانا ہے جتنا انسانی معاشرہ پرانا ہے۔ پرائس کنٹرول کی شروعات قدیم یونان سے ہوئی جہاں ایتھنز میں انسپکٹروں کی باقاعدہ فورس بنائی گئی۔ پھر قرون وسطیٰ کی حکومتوں نے روٹی کی اور دہلی میں علاؤالدین خلجی نے اناج، کپڑوں، جانوروں کی قیمتیں مقرر کیں۔ فرانسیسی انقلاب اور عالمی جنگوں کے بعد اس حوالے سے بیشتر قوانین سامنے آئے۔ امریکہ میں سب سے پہلا نظام 1905 میں بنا جہاں آج ہر ریاست کا اپنا طریقہ کار ہے۔ چین میں 1984 میں پرائس کنٹرول کو مارکیٹ سے منسلک کیا گیا، جبکہ یورپی ممالک میں بھی قیمتیں کنٹرول کرنے کے الگ الگ نظام موجود ہیں۔ آج پوری دنیا میں ریاستیں اپنے عوام کو غذائی ریلیف فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کو دیکھا جائے تو ہر جگہ راشن کارڈ دستیاب ہیں۔ چین میں 'کنزیومر پرائس انڈیکس‘ کے نام سے ایک ادارہ فعال ہے جو روزمرہ اشیا کی قیمتوں کا ریکارڈ اور ملک کے تمام غربا کے اعدادوشمار رکھتا ہے ۔ سعودی عرب میں بھی مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ کمی لائی گئی ہے۔
ہمارا ملک پاکستان ایک فلاحی ریاست ہے۔ آئین کی شق 38 کہتی ہے کہ عوام کو بنیادی ضروریات یعنی کھانا، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، بالخصوص پنجاب کی بات کی جائے تو گزشتہ حکومتوں نے عوام کو غذائی ریلیف فراہم کرنے اور انہیں مہنگائی کے طوفان سے بچانے کیلئے بہت سے اقدامات کیے جن میں رمضان بازار، سستا بازار، اتوار بازار، جمعہ بازار، پرائس کنٹرول مجسٹریٹس جیسے بیشتر اقدامات شامل ہیں، مگر ملک کے موجودہ حالات نہایت افسوسناک ہیں۔ آج مہنگائی کی چکی میں پسے متوسط طبقے کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا حکومت کیلئے سر درد بنا ہوا ہے۔ ملک کی 58 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ جون 2018 میں غربت کا 31 فیصد تناسب اب جون 2020 میں 40 فیصد تک پہنچنے کا ڈر ہے۔ عوام اشیاء کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں۔ مہنگائی میں کسی بھی طرح کا ٹھہراؤ نظر نہیں آ رہا۔ موجودہ ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے سینے میں کسی غریب مظلوم کے لئے کوئی رحم نہیں ہے۔
بات سادہ سی ہے، عام انسان کی غذائی ضروریات کیا ہیں؟ آٹا، چاول، گھی، چینی، تیل اور دالیں۔ عوام کو سب سے زیادہ غرض انہی اشیا کی قیمتوں سے ہے۔ یہ چیزیں سستے داموں مل جائیں تو عوام خوش، نہیں تو عوام ناراض۔ پاکستان میں موجودہ پرائس کنٹرول میکنزم کو دیکھا جائے تو وفاقی سطح پر کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC)، نیشنل ٹیرف کمیشن (NTC) اور مسابقتی کمیشن آف پاکستان (CCP) جیسے ادارے اشیا کی قیمتوں کا تعین، سبسڈیز کی فراہمی اور دیگر امور طے کرتے ہیں۔ دوسری جانب عمران سرکار نے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے بہت سے اقدامات بھی شروع کر رکھے ہیں۔ ان میں وزیر اعظم ہاؤس میں پرائس کنٹرول سیل کا قیام، پنجاب حکومت کی پرائس کنٹرول ٹاسک فورس، فیئر پرائس شاپس کا قیام جہاں چھوٹے کسان بغیر کسی کمیشن کے اپنی اشیا کی خریدوفروخت کر سکیں، پانچ بڑے شہروں میں فوڈ اینڈ ویجیٹیبل ہوم ڈلیوری سروس کا آغاز اور یوٹیلٹی سٹورز پر 7 ارب روپے کی سبسڈی جیسے اقدامات شامل ہیں، جس سے 50 لاکھ خاندان اور 2 کروڑ افراد مستفید ہوں گے، مگر افسوس! یہ تمام حکومتی پروگرام و اعلانات بس کاغذوں اور کمیٹیوں تک محدود ہو کر رہ گئے اور ان کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا رہا، جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ 2019 میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 12 فیصد بڑھی جبکہ سبزیوں کی قیمتوں میں 100 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ سوال یہ ہے کہ تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود مثبت نتائج سامنے کیوں نہیں آتے؟ حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کیلئے پرائس ریویو کمیٹی تو بنا دی مگر آج تک اس کی کارکردگی کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ موجودہ حکومت میں گورننس کے سنگین مسائل ہیں۔ 
حکومت کو یہ بات بھی سمجھنا ہو گی کہ یہ کمیٹیاں اور فیصلے حقیقی عوامی مسائل سے غافل اور پرائس کنٹرول پر موثر عملی کام کرنے سے قاصر ہیں۔ کیا آج پنجاب میں پرائس مجسٹریٹس اپنی حقیقی ذمہ داری نبھا رہے ہیں؟ ان کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں۔ ان کو کیا ضرورت پوش علاقوں میں جاکر چھاپے مارنے کی؟ ان کا اصل ٹارگٹ ملک کے غربا ہونے چاہئیں۔ کیا آج ماڈل بازاروں میں غریبوں کو بنیادی اشیا سستے داموں دستیاب ہیں؟ آج بھی وہی من مانے نرخوں پر ملاوٹ شدہ چیزیں فروخت ہورہی ہیں، اور کوئی پوچھنے والا نہیں! ان تمام مسائل سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے؟ حکومت کو کیا اقدامات کرنے کی ضرورت ہے؟ سب سے پہلے قیمتوں کے نظام اور اشیا کی دستیابی کو مؤثر بنانے کیلئے ضلعی سطح پر پرائس کنٹرول اینڈ مینجمنٹ کا ایک مضبوط اور خود مختار ڈھانچہ تیار کرنا ہوگا جو فرسودہ نظام سے ہٹ کر صرف پرائسنگ اور دستیابی پر توجہ مرکوز رکھے اور حکومت کو جوابدہ ہو۔ ملک میں ایک مضبوط ڈیٹابیس تیار کرنا ہوگا، جس میں پاکستان کی اس 20 فیصد آبادی‘ جو غربت کی لکیر سے نیچے ہے، کی تمام معلومات میسر ہوں اور ان تک فوری ریلیف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ آج منڈیوں میں طلب اور رسد کے مطابق سپلائی چین کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اشیا کی قیمتوں میں ایک دم اضافے سے بچا جا سکے۔ پرائسنگ نظام میں آڑھتی مافیا (Middle Man) کے کردار کو اور منڈیوں میں بولی کے فرسودہ نظام کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی مارکیٹوں میں کولڈ سٹوریج جیسی بنیادی ضرورت کا شدید فقدان ہے، جس کے باعث جلد خراب ہونے والی اشیا، دودھ، پھل اور سبزیوں کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو فوراً سہولیات دینا ہوں گی۔ ملک میں نیشنل فوڈ اینڈ ویجیٹیبل پالیسی بننی چاہیے جس میں کسانوں اور صارفین‘ دونوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہو۔ یوٹیلٹی سٹور جیسا ادارہ خزانے پر بوجھ ہے، اس نے اشیا کی خردبرد کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہ 1971 سے آج تک مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔ میری تجویز یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز کو آرمی کے زیر انتظام چلنے والے CSD جیسے کامیاب ماڈل میں ضم کرنے یا اس ڈھانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فارم سے منڈی تک بہترین انفراسٹرکچر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ 
آج عوام کو عمران خان صاحب سے سب سے بڑا شکوہ یہی ہے کہ ملک میں مہنگائی رکنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ حال ہی میں سٹیٹ بینک نے بھی اپنی سہ ماہی رپورٹ میں صاف نشاندہی کی کہ حکومت کے پاس اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر قابو پانے کا سرے سے کوئی ڈھانچہ ہی موجود نہیں۔ غذائی اجناس کی قیمتوں کا نظام حکومت اور عوام کے لئے چیلنج بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سنگین مسئلے کے فوری حل کیلئے ایک مضبوط ڈھانچہ بنائے۔ لیگی دور میں پرائس کنٹرول کا باقاعدہ ڈھانچہ بنایا گیا تھا، جس کی سربراہی پروفیسر سجاد حیدر مرحوم کو سونپی گئی۔ اس کی کارکردگی قابل تعریف تھی۔ پروفیسر صاحب کی زیر صدارت باقاعدہ میٹنگز میں پنجاب کے تمام کمشنر مہنگائی اور قیمتوں کے حوالے سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ دیتے تھے جو اے سی اور ڈی سی آفسز سے تیار ہوتی تھی۔ سپیشل برانچ اور آئی بی کے ذریعے ان معلومات کی تصدیق کروائی جاتی تھی، اور کسی بھی چیز کی معمولی سی قیمت بڑھنے کی شکایت پر پوری مشینری حرکت میں آجاتی اور اقدامات کیے جاتے۔ سجاد حیدر مرحوم ہر ضلع میں جاکر خود ساری صورتحال کا جائزہ لیتے اور میٹنگز کرتے تھے۔ وہ بہاولپور میں پرائس کمیٹی کے اجلاس سے واپسی پر ہی ہیلی کاپٹر حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ ان کی وفات کے بعد کسی نے ان کے بنائے میکنزم پر کوئی کام نہ کیا۔ ان کا بنایا ہوا پرائس کنٹرول کا ماڈل ایک بہترین اور قابل عمل ماڈل تھا۔ آج اسی طرز کا ایک طاقتور ڈھانچہ پاکستان کی ضرورت ہے، جو غریبوں کو فوری، سستا غذائی ریلیف پہنچائے، جس کا نام بس جلسوں اور کمیٹیوں میں سننے کو نہ ملے بلکہ عملدرآمد ہوتا آئے۔ جناب عمران خان کو اس بارے میں سوچنا ہوگا، فوری کوئی ایکشن لینا ہوگا‘ ورنہ سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ غریب عوام کی بنیادی ضروریات پوری کیے بغیر ریاست مدینہ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں