2018 کے وسط میں جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو پاکستانی معیشت کو گمبھیر مشکلات درپیش تھیں۔ 20 بلین ڈالر حسابات جاریہ کا خسارہ (Current Account Deficit) ہی اکلوتا مسئلہ نہیں تھا بلکہ پورا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا‘ جیسا کہ ستمبر2019 تک 41.5 ٹریلین کے کل قرضوں اور واجبات نے ملکی جی ڈی پی کا 94.3 فیصد جبکہ 34.2 ٹریلین کے عوامی قرضوں نے اس کا 78 فیصد حصہ تشکیل دیا۔ مالی سال 18-19 کے بجٹ میں قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ہونے والے خرچے (Debt Servicing) کی رقم 1620 بلین روپے طے تھی مگر اصل خرچہ 1987 بلین ہوا، جبکہ رواں مالی سال میں یہی رقم 78 فیصد اضافے کے ساتھ 2891 بلین کرنا پڑی‘ اور اب 30 جون 2020 تک 3000 بلین تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ آج یہ حالات ہیں کہ اگر ایف بی آر پورے ملک سے 5000 بلین کے ٹیکس بھی اکٹھے کر لے تو بھی صوبائی کٹوتیوں کے بعد بچ جانے والی ٹیکسوں کی کل رقم اکیلے یہ 3000 بلین کا خرچہ پورا کرنے کے قابل نہیں ہو گی۔ حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان نازک معاشی حالات پر قابو پانے میں مصروف ہے۔ ابتدائی مہینوں میں مزید قرضے کے حصول کیلئے اسے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، عالمی مالیاتی ادارے کے کہنے پر روپے کی قدر گرانا پڑی اور گیس و بجلی کے سبسڈائزڈ نرخوں میں اضافہ کرنا پڑا۔ معاشی حالات کے پیش نظر شرح سود بھی بڑھانا پڑی جس کا مقصد ملک میں Hot money لانا تھا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ملک میں سرمایہ کاری کم ہو گئی، جبکہ درآمدات پر ڈیوٹی اور کسٹم ٹیکس بڑھانے سے متعدد صنعتیں بری طرح متاثر ہوئیں۔ ملک بھر میں مہنگائی و بیروزگاری کے مسئلے نے سر اٹھا لیا۔ گویا‘ گزشتہ دہائیوں کی کوتاہیوں سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کو قابو کرنے کیلئے مجبور اور غریب عوام کو قربانی کا بکرا بننا پڑا۔ خیر ان اقدامات نے فوری فائدہ پہنچایا، اور وہ ذخائر جو دو ہفتوں کے رہ گئے تھے‘ بڑھنا شروع ہو گئے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی بہتری آئی؛ تاہم یہ تمام حکومتی پالیسیاں محض وقتی طور پر معیشت بہتر رکھنے کے قابل ہیں‘ جبکہ ضرورت طویل مدتی اقدامات کی ہے۔ معیشت کی بقا اسی میں ہے کہ ملکی برآمدات بڑھائی جائیں اور ادائیگیوں کے نظام میں توازنلایا جائے، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی بڑی صنعتیں سالوں سے نہایت غیر منافع بخش ثابت ہو رہی ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ موجودہ حالات اور وسائل میں پاکستان لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں دنیا سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پاکستان کو LSM میں کوئی Comparative Advantage نہیں ہے۔ اس شعبے میں اگر ہم کوئی بہتری لا سکتے ہیں تو فقط یہ کہ Import Substitution یعنی متبادل درآمدات کی حکمت عملی اپنا لیں، وہ اشیا جو پاکستان میں تیار ہو سکتی ہیں انھیں ملک میں ہی تیار کرکے زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ نقصان میں چلنے والی بڑی صنعتیں کبھی ملکی برآمدات بڑھانے میں کارآمد ثابت نہیں ہو سکتیں۔ برآمدات بڑھانے کیلئے ہمارے پاس آپشنز نہایت محدود ہیں۔ ہمیں تجارتی سمت درست کرتے ہوئے دو شعبہ جات پر بھرپور محنت کی ضرورت ہے، جس میں ایک تو ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ''زراعت‘‘ جبکہ دوسرا ہمارا ''انسانی سرمایہ اورسروسز سیکٹر‘‘ ہے۔
68 فیصد آبادی سے تعلق رکھنے والی زراعت متعدد مسائل کے باعث ملکی GDP میں صرف 19 فیصد کی حصہ دار ہے۔ شعبہ زراعت کو آج سب سے بڑا مسئلہ فی ایکڑ پیداوار میں واضح کمی کا ہے۔ گندم کو دیکھیں تو پاکستان میں فی ایکڑ پیداوار 3.2 ٹن ہے، جبکہ فرانس میں 8.1 ٹن۔ اسی طرح آج کپاس‘ جو کسی زمانے میں پاکستان کی پہچان تھی‘ کی پیداوار ایک ٹن سے بھی کم ہے جو ڈیڑھ کروڑ سے کم ہو کر 80 لاکھ گانٹھوں تک آ چکی ہے جبکہ چین میں فی ایکڑ پیداوار 4.8 ٹن ہے۔ پیداوار میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ملک میں زرعی تحقیق کا نہ ہونا ہے‘ لہٰذا آج ایک فعال، مضبوط اور جدید زرعی ریسرچ سینٹر پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔ اہم فصلیں جیسے چاول اور گنا وافر پانی کے بغیر تیار نہیں ہو سکتیں جبکہ اتنا پانی میسر ہی نہیں، لہٰذا زرعی محققین کو کم پانی میں پیداوار دینے والے جدید بیچ بھی تیار کرنا ہوں گے۔ گلوبل وارمنگ کی تباہ کاری سے پاکستانی زراعت بھی بری طرح متاثر ہے۔ اسی حوالے سے بارشوں کا پانی‘ جو ہر سال سیلاب کی صورت میں تقصان پہنچاتے ہوئے سمندر میں ضائع ہوتا ہے‘ چھوٹے ڈیموں میں محفوظ کرکے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کسانوں کا ایک بڑا مسئلہ کھادوں کا مہنگا ہونا بھی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ کیمیائی کھادوں کو نامیاتی کھادوں پر ترجیح دی گئی؛ یہ روش بدلنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ڈیری اور لائیوسٹاک کے شعبہ میں بہترین جانور پال کر حلال میٹ سیکٹر اور ڈیری مصنوعات کے ذریعے بھی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ ایسے پھل اور سبزیاں‘ جن کا کولڈ سٹوریج کے بغیر بچاؤ ناممکن ہے‘ کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ملک میں سٹوریج کا جدید نظام متعارف کرانا ہو گا۔ ہمارا کسان آج بھی فرسودہ اور پرانی کاشتکاری پر مجبور ہے؛ چنانچہ اس کو جدید زرعی مشینری اور آلات مہیا کرنا ضروری ہے۔ کاشتکاروں کیلئے چھوٹے قرضوں کا اجرا کرنا اور فری بجلی کی سہولت بھی دینا ہو گی۔ شہری علاقوں میں Land Use کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے کھیتوں اور زرعی زمینوں کو رہائشی علاقوں میں تبدیل ہونے سے بھی بچانا ہو گا۔
زراعت کے بعد ''انسانی سرمائے و سروسز سیکٹر‘‘ کو دیکھیں تو وہاں بھی حالات خراب ہی نظر آتے ہیں۔ سکاٹش اکانومسٹ اور فلاسفر ایڈم سمتھ کے بقول کسی بھی ملک کی خوشحالی کا انحصار وہاں موجود لیبر کی صلاحیت اور مہارت پر ہوتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں Human Development نہ ہونے کے برابر ہے۔ Human Development Index میں پاکستان کی جنوبی ایشیا میں آخری جبکہ دنیا میں 152 ویں پوزیشن ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے افراد کی عالمی معیار کے مطابق تربیت نہ ہونا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن ممالک نے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی‘ وہی ترقی یافتہ قرار پائے۔ پاکستان کی بھی 65 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، مگر بیرون ملک ہمارے نوجوانوں سے مزدوری کے سوا کوئی کام نہیں لیا جاتا۔ ان کے مقابلے میں بنگلہ دیش، بھارت اور فلپائن کے نوجوان کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ آج ہمیں ہر صورت IT & Skilled base Human Development کے مربوط اور جدید پروگرامز شروع کرنا ہوں گے، جس کے تحت نئی نسل کو روایتی تعلیم سے ہٹ کر جدید، عملی، ٹیکنیکل اور کمپوٹر بیسڈ تعلیم و تربیت دینا چاہیے تاکہ وہ دنیا میں کہیں بھی جاکر مقابلہ کر سکیں۔ اس سے ملک میں ترسیلات جو ہماری معیشت کی Life Line ہیں‘ میں باآسانی اضافہ ممکن ہے۔ علاوہ ازیں مزدوروں‘ جن کی بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں عرب ممالک کا رخ کرتی ہے‘ کی بھی Skilled Training ناگزیر ہے۔ 2018 میں پاکستان نے صرف 1.6 بلین ڈالر کی برآمدات کیں جو 2019 تک بمشکل 1.8 بلین تک پہنچ پائیں، جبکہ ادھر بھارت نے 2017 میں آئی ٹی میں 77 بلین ڈالر کی برآمدات کیں جو رواں سال 250 بلین ڈالر سے تجاوز کر جانے کا امکان ہے۔ ہمیں بھی آج اپنے شعبہ آئی ٹی کوجدید سہولیات سے لیس کرتے ہوئے ایک بڑی مارکیٹ میں تبدیل اور اس کے ذریعے ''برآمدات بذریعہ خدمات‘‘ میں اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان کی معاشی و تجارتی پالیسیاں ہمیشہ غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھی ہیں؛ چنانچہ ملک کو فائدہ کم‘ نقصان زیادہ پہنچا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس بھی اپنی مجبوری کے تحت جاتے ہیں، وہ کوئی قرضہ خود ہم پر مسلط نہیں کرتا، جسے چند کم عقل سیاستدان کسی عالمی سازش کا نام دیتے ہیں۔ قرضوں سے نجات پانی ہے تو ہمارے سامنے بھارت کی زندہ مثال موجود ہے جو 1991 میں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا' لیکن کچھ ہی سالوں میں اس نے ملک کے مالی، تجارتی، صنعتی اور سروسز کے نظام میں بہتری لا کر اپنی معیشت کو چارچاند لگا لیے اور 1993 کے بعد آئی ایم ایف کا بوجھ ہی اپنے سر سے اتار دیا۔ ہم بھی چاہیں تو تمام قرضوں سے جان چھڑوا سکتے ہیں مگر اس کیلئے ہمیں اپنی ''معاشی ترجیحات‘‘ بدلنا ہوں گی۔ اگر حکومت تبدیلی لانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو مذکورہ دو شعبہ جات میں انقلاب لا کر برآمدات بڑھانا شروع کر دے۔