"MEC" (space) message & send to 7575

بیوروکریسی پر ایک اور وار

برصغیر میں سول سروس ریفارمز کی تاریخ برطانوی راج سے جڑی ہے۔ لارڈ کارنویلیس نے پہلی بار بھارت میں بیوروکریسی کا جدید نظام (Indian Civil Service) متعارف کرایا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ملک میں اس حوالے سے 24 اصلاحاتی کمیشن اور کمیٹیاں بنائی جا چکی ہیں۔ 1948ء میں سر وکٹر ٹرنرکی سربراہی میں وزارتوں کے ڈھانچوں میں نقائص جانچنے اور ان کی اصلاح کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی۔ 1959ء میں جسٹس کارنیلیس کی سربراہی میں سول سروس کمیشن بنا‘ جس نے کرپشن کے خاتمے کی تجاویز پیش کیں مگر اس رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ 1961ء میں جی احمد نے سیکشن آفیسرکی سکیم متعارف کرائی‘ جس کا مقصد وزارتوں کی Internal Hierarchy میں کمی لانا اور کارکردگی بڑھانا تھا۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں قابل اور تربیت یافتہ بیوروکریٹس کا سیاستدانوں پرغلبہ رہا‘ لیکن ذوالفقارعلی بھٹونے اپنے دورِ حکومت میں گوروں کے زمانے سے چلے آئے بیوروکریسی کے Steel Frame کو توڑ کر رکھ دیا۔ افسران کا بنیادی پے سکیل نئے سرے سے تشکیل دیا گیا‘ 1400 ملازمین کو نوکری سے برخاست کیا گیا اور حکومتی فیصلوں سے انکار کا آئینی تحفظ ختم کرکے بیوروکریسی کو ہمیشہ کیلئے سیاستدانوں کے زیرنگیں کردیا گیا‘ جس سے افسران ریاست کی بجائے حکومتی ملازم اور سہولت کار بن گئے۔ ضیاء الحق نے بھی اس آئینی تحفظ کو بحال نہ کیا‘ بلکہ ملٹری افسران کو بیوروکریسی میں کوٹہ سسٹم کے تحت بھرتی کیا۔ بینظیر اور نواز شریف نے سرکاری ملازمین کو دو سیاسی پارٹیوں میں بدل کر رکھ دیا اور ان کا صرف سیاسی استعمال کیا۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور میں سول سروس اصلاحات کی کوشش کی اور ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں نیشنل کمیشن فار گورنمنٹ ریفارمز قائم کیا۔ اسی دور میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 اور پولیس آرڈیننس 2002 متعارف کرائے گئے۔ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کی پوسٹیں ختم کردی گئیں اور ان کے اختیارات ناظمین کو منتقل کردیئے گئے۔ شہبازشریف نے اپنے دور میں انتظامی آمریت قائم کرکے افسران کو جائزوناجائز سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی تو اس نے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں 19رکنی ٹاسک فورس بنائی جس نے حال ہی میں اپنی سفارشات پیش کی ہیں‘ جن کی وزیراعظم منظوری دے چکے ہیں۔ ان سفارشات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں کوئی نئی چیز نہیں‘ بلکہ یہ گزشتہ حکومتوں ہی کی اصلاحات کے الفاظ کا ہیرپھیر ہے۔ چند بنیادی نکات پر نظر ڈالتے ہیں: ایک اصلاح میں کہا گیا ہے کہ سرکاری افسران کی پہلی تعیناتی اپنے آبائی صوبہ سے باہر ہوگی۔ صوبائی تعیناتیوں کی پالیسی پہلے بھی کئی بار بنائی جا چکی ہے‘ یہاں تک کہ ترقی کو بھی اس سے مشروط کیا گیا‘ مگر بااثر لوگوں کے بچوں‘ دامادوں اور پسندیدہ افسران نے یہ پالیسی کبھی کامیاب نہ ہونے دی۔ یہ اصلاح اس حکومت میں بھی قابلِ عمل نظرنہیں آتی‘ جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ صوبائی کوٹہ مطلوبہ آسامیوں کی تعداد کے مطابق بنتاہے۔ اگر صرف پنجاب میں افسران کی مطلوبہ تعداد بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے منتخب شدہ کل افسران سے زیادہ ہو جائے تو پنجاب کا کوٹہ کیسے پورا ہوسکے گا؟ اسی طرح منتخب وفاقی وزارتوں میں سیکرٹری کی پوزیشن پرکسی ٹیکنیکل افسرکوتعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں بھی Latera Induction کے تحت پانچ ہزار ٹیکنیکل افسران کو مختلف گریڈز میں بالواسطہ بھرتی کیا گیا تھا‘ مگر وہ ماڈل بھی بری طرح ناکام ہوا تھا۔ ویسے آج بھی MP سکیلز پر ٹیکنیکل افسران وزارتوں کا حصہ ہوتے ہیں‘ جو PAS کے سیکرٹریوں کے ساتھ پالیسی بنانے اورفیصلہ سازی میں معاونت کرتے ہیں‘ لہٰذا اس اصلاح میں بھی کچھ نیا نہیں ہے۔ افسران کی پروموشن کیلئے سلیکشن بورڈ کے اختیارات میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے‘ لیکن ماضی میں سلیکشن بورڈز کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی۔ نواز شریف کے دور میں تو پرنسپل سیکرٹری صاحب پہلے ہی بورڈ ممبران کو طلب کرکے اپنی مرضی کے افسران کی پروموشن کی راہ ہموار کروا لیتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے دورمیں بھی Best of the Best کی پالیسی میں میرٹ کی بجائے سیاسی پروردہ افسران نے فائدہ اٹھایا۔ 2013ء میں سپریم کورٹ نے 80 افسران کی گریڈ 20 سے 21 میں پروموشن کرنے کے بورڈ کے فیصلے کو کالعدم قراردے دیاتھا۔ اسی طرح 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے CBS کی سفارشات کے باوجود 27 سینئر بیوروکریٹس کی پروموشن روک کر بورڈ کو نظرثانی کا حکم دیا تھا۔ متاثرہ افسران نے یہ حکم اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا‘ جس پرعدالت نے وزیراعظم کے حکم کو کالعدم قراردیتے ہوئے افسران کو ترقی دینے کا فیصلہ سنایا تھا؛ چنانچہ معزز عدالتیں پہلے ہی اپنے فیصلوں میں سلیکشن بورڈ کا طریقہ کار‘ پالیسی اور صوابدیدی اختیار وضع کرچکی تھیں‘ جس میں ذاتی پسند ناپسند کے رجحان کو محدود کیا گیا تھا‘ مگرتحریک انصاف کی حکومت نے ان پالیسیوں کو چھیڑ کر میرٹ کے راستے میں دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔ پروموشن کے حصہ میں ہی ایک اورشرط ''ہارڈ ایریا‘‘شامل کی گئی ہے‘ مگر اس نکتے کو بھی ٹھیک طرح بیان نہیں کیا گیا۔ ایک اور اصلاح کے مطابق بڑے افسران کوپابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی کارکردگی کی جائزہ رپورٹ دیں گے‘ مگر سوال یہ ہے کہ اصل رپورٹ دے گا کون؟ خود وزیراعظم کی ٹیم میں کئی سوال جنم لیتے ہیں‘ پرنسپل سیکرٹری کو کس پرفارمنس کی بنا پر بیوروکریسی کی سب سے اونچی کرسی پر براجمان کیا گیا؟ اسی طرح ریٹائرمنٹ سے متعلق اصلاح میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس اختیارہوگا کہ وہ ناقص کارکردگی دکھانے والے سرکاری افسران کو سروس کے 20 سال بعد ریٹائر کر سکتی ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ افسران کی ناقص کارکردگی کا میرٹ پر فیصلہ کون کرے گا اوراس خوف اورعدم تحفظ کی موجودگی میں کون سا افسر 22ویں سکیل تک پہنچناچاہے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سے قابل افراد سول سروسز کی بجائے ترقی کے مواقع فراہم کرنے والے شعبوں اور بڑی عالمی تنظیموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب 20 سالہ تجربے کے ساتھ افسران کوجبری ریٹائر کیا جائے گا تو وہ کہاں جائیں گے؟ 
اس اصلاحاتی پلندے میں حکومتی نیت پرشک صاف ظاہر ہے۔ میرٹ کی بالادستی کی جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ حقائق پرمبنی نہیں۔ موجودہ حکومت بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح اپنی ساری توجہ ''منظورِ نظرافسران‘‘ پر مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔ اگر ملکی گاڑی کا کنٹرول گنے چنے افسران کے ہاتھ میں دے کر باقی مشینری ناکارہ قراردے دی جائے تو افسران میں عدم اعتماد کے سوا کیا بچے گا اورکیا ثبوت ہے کہ صرف ان شرائط پر پورا اترنے والے افسران ہی عوامی فلاح اور خوشحالی لا سکتے ہیں؟ ادھرصوبائی افسران نے بھی ان اصلاحات پر شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔ ان ناقص اصلاحات کو ڈھال بناتے ہوئے حکومت حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتی‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ عشروں سے بیوروکریسی ہی ملک کا واحد ایسا ادارہ ہے جس نے ہرقسم کے حالات و صورتحال میں تسلسل کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائی۔ مارشل لاء آتے رہے‘ حکومتیں بدلتی رہیں‘ مگر سرکاری ملازمین و افسران نے ہرطرز کے حکمرانوں کی معاونت کی۔ کوئی شک نہیں کہ یہاں بھی چند برے عناصر ضرورہوں گے‘ مگراس بنا پر پورے ادارے کو مطعون کرنا درست نہیں۔سرکارکی ان تبدیلیوں نے بیوروکریسی میں غیریقینی کی فضا پیدا کردی ہے۔ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کو میرٹ پراورشفاف کام کرنے والی بیوروکریسی قابلِ قبول نہیں ہوتی‘ ان کی نظرمیں سیاسی مفادات کیلئے کام کرنے والے افسران زیادہ قابل اور اہل ہوتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں نے افسران پرسے سیاسی دباؤ کے خاتمے اورتحفظ کو کبھی یقینی نہیں بنایا‘ لیکن جس طرح کاروباری طبقے میں عدم تحفظ کی صورت میں معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا‘ اسی طرح عدم تحفظ کا شکار بیوروکریسی بھی ملک کو بہتر ڈلیور نہیں کرسکتی۔ موجودہ حکومت‘ آج تک بیوروکریسی کے ساتھ Working Relationship قائم نہیں کرسکی اور ملک میں Trust Deficit کی فضا ہے۔ اسے بیوروکریسی پر اعتماد کرنا ہوگا اورکرپشن کے خاتمے کیلئے سسٹم میں شفافیت اور اندرونی احتساب کا نظام بنانا ہوگا تاکہ کارکردگی بڑھائی جا سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں