"MEC" (space) message & send to 7575

لاک ڈاؤن: جامع حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی!

مہلک کورونا کی وحشت پورے عالم پرطاری ہے۔ ہرسوغیریقینی کی فضاہے۔ ناامیدی، جانی و مالی نقصان اور خوف کے بادل ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہورہے ہیں۔ ترقی پذیر و ترقی یافتہ ممالک میں بٹی اکیسویں صدی کی جدید دنیا کو قدرت کی اس انوکھی آزمائش نے ایک صف میں لاکھڑا کیاہے۔ یورپ کی گلیاں‘ جہاں کبھی سیاحوں کا رش رہتا تھا‘ آج لاک ڈاؤن سے دوچار ہیں۔ انگلینڈ کی Oxford Streetمیں آج کوئی بھی نظر نہیں آتا۔ امریکہ کے Manhattan کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ فرانس کا Eifel Towerبھی خاموش کھڑا ہے ، اور اٹلی‘ جو مصروف و معروف سیاحتی ملک تھا‘ آج لاشوں سے بھرا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کورونا کی ویکسین،اس کے علاج کیلئے دوائی اور Herd Immunity حاصل کرلینے تک صرف احتیاط اور سماجی دوری Social Distancing ہی اس عالمگیر وبا کا واحد علاج ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں مہلک وباؤں کے دوران جب بھی سماجی دوری کے اصول کو نظر انداز کیا گیا‘ وہ کروڑوں زندگیاں نگل گئیں۔ دراصل سماجی دوری اختیار کرنے کامقصد مریضوں کی تعداد پر قابو رکھتے ہوئے ہنگامی صورتحال تک پہنچنے سے بچانا ہے۔ ویسے تو کورونا کے مرض میں صرف 5 فیصد افراد کو Intensive Care کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ذرا سوچئے اگر یہ 5 فیصد مریضوں کی تعداد ہی ہزاروں یا لاکھوں تک پہنچ گئی تو سب کو بچانا کیسے ممکن رہے گا؟ اس وبا کی سنگین صورتحال سے تو سپر پاور امریکہ تک بھی مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں نظر نہیں آتا‘ لہٰذا اس مرض کو قابومیں رکھنا درست حکومتی فیصلوں اورعوام کے احساس ذمہ داری پرمنحصرہے ۔ سماجی فاصلوں کو ممکن بنانے کیلئے حکومتوں کے پاس جو سب سے آسان راستہ ہوتاہے وہ Lock Down ہے‘ یعنی کاروبار، بازار، ٹرانسپورٹ، عوامی مقامات اور دفاتر کو بند کر دیا جائے اور غیر ضروری نقل و حرکت پر پابندی عائد کرتے ہوئے لوگوں کے میل جول کو ہر ممکن محدود کیا جائے ۔ 
پاکستان میں مرکزی حکومت کی جانب سے 24مارچ کو پورے ملک میں عبوری لاک ڈاؤن لگایا گیا، مگر حکومت دانستہ طور پر اس پر سختی سے عمل نہ کروا سکی اور ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں اس لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد بیشتر چھوٹے کاروبار کھول دیئے گئے ہیں‘ جبکہ کورونا کی صورتحال مسلسل غیرمتوقع ہے ، روزسینکڑوں نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے ، ہر 12 مشتبہ افراد میں سے کورونا کا ایک مصدقہ مریض سامنے آرہا ہے ۔ لاک ڈاؤن میں نرمی کے فیصلے پرسندھ اور وفاق بھی تقسیم ہیں، سندھ حکومت نے وفاقی حکومت کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں مزید سختی کی ہے‘ جس پرصوبائی و مرکزی‘ دونوں حکومتیں سیاست چمکانے اور بیان بازیوں کی جنگ پر اترآئی ہیں۔ اس سیاسی جنگ میں پاکستان اکیلا ملک نہیں بلکہ امریکہ میں بھی لاک ڈاؤن اور صحت کے ناقص انتظامات پر مرکز اور ریاستیں آمنے سامنے ہیں۔ دراصل امریکہ کی مرکزی حکومت اور ریاست نیویارک کی حکومت کے تعلقات بھی پاکستان کی وفاقی و سندھ حکومت جیسے ہی ہیں۔ ان کے بھی حکمران دو مختلف سیاسی جماعتوں سے ہیں۔ اسی لئے ٹرمپ نے نیو یارک کے گورنر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
لاک ڈاؤن بلاشبہ کسی بھی ملک کیلئے ایک مشکل فیصلہ ہے ۔ جب ملک کا معاشی وسماجی پہیہ ہی جام ہوجائے تو وہ کس قدرنقصان دہ ثابت ہوگا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں مگر لاک ڈاؤن سے منسلک ہر سٹیک ہولڈر کے اپنے نظریات اور اپنی ترجیحات ہیں۔ جیسا کہ صحت کے ماہرین کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنا ہی کورونا سے جان چھڑوانے کا ذریعہ ہے ۔ WHO میں ہیلتھ ایمرجنسی ایکسپرٹ Mike Ryan کا کہنا ہے کہ اگر متاثرہ ممالک نے لاک ڈاؤن کو جلد ختم کردیا توعین ممکن ہے کہ کورونا ایک بار پھر سر اٹھالے۔بیلجیم میں کورونا کے اثرات پرٹھوس تحقیق کرنے والی ڈاکٹر Michela Rizzo کا کہنا ہے کہ یورپی ممالک کو آئندہ چند ماہ کیلئے ایک دوسرے سے اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے اور فلائٹ آپریشن معطل رکھنا چاہیے ۔ اسی طرح معیشت دانوں کی سوچ یہ ہے کہ حالیہ لاک ڈاؤنز دنیا کی معیشت کو کئی سال پیچھے دھکیل دیں گے۔ معاشی محقق Dr. Katzکہتے ہیں کہ معاشی مستقبل کی بقا کیلئے ممالک کو جلد از جلد روٹین پرلانا ناگزیرہے ، اگر یہ لاک ڈاؤن لمبے چل پڑے تو پوری دنیا کی معیشت کی تباہی کے باعث کورونا سے زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ چین‘ جو معاشی طاقت بن کر ابھر چکا تھا‘ میں 77 روزہ لاک ڈاؤن کے باعث معیشت گزشتہ 50 سال کی بدترین سطح پر جا پہنچی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اندازے کے مطابق کورونا کی وبا کے باعث لاک ڈاؤنز دنیا کی مزید نصف ارب آبادی کو غربت کی لکیر پر پہنچا دیں گے۔ آئی ایم ایف سے منسلک معیشت دانوں کا ماننا ہے کہGreat Lockdown کا معاشی نقصان Great Depression کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں شعبہ اکنامکس کے ڈائریکٹر Prof. Ricardo Hausmannکہتے ہیں کہ ان لاک ڈاؤنز کے باعث نظام زندگی رک جانے سے ترقی پذیر ممالک کی معیشت آئندہ کئی سالوں تک نہیں سنبھل پائے گی۔ پاکستان میں ایف بی آر کی چیئر پرسن نوشین جاوید نے انکشاف کیا ہے آئندہ ٹیکس کولیکشن آسان نہ ہوگی۔ اسی طرح تیسرے سٹیک ہولڈر سیاستدانوں اورانتظامیہ کو پریشانی یہ ہے کہ ان لاک ڈاؤنز کے باعث ممالک اپنی پہچان نہ کھو بیٹھیں اور عالمی معیشت کی دوڑ میں کہیں اتنا پیچھے نہ چلے جائیں کہ واپس ٹریک پر لانا ممکن ہی نہ رہے۔ جس طرح ہسپانوی حکومت نے کورونا کے بدترین حملے کے باوجود کاروبار کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھولنے کا پلان بنایا ہے‘ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ہزاروں ہلاکتوں کے باوجود معاشی بحالی کو تین مرحلوں میں بہتر کرنے کی تجویز دے دی ہے ، لہٰذا سیاست دانوں کی ترجیح ہمیشہ ملک ہوتا ہے اور سب سے بڑے سٹیک ہولڈر یعنی عوام اس پورے معاملے میں ہر طرح سے پس رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں ایک ارب کے قریب افراد بھوک اور افلاس کے شکار ہیں۔ انہیں ایک وقت کی بھی روٹی نصیب نہیں۔ ہر ماہ بھوک سے 18 لاکھ افراد مرجاتے ہیں، اب ان لاک ڈاؤنز کے باعث ماہانہ دس بارہ ہزار کمانے والا مزدور طبقہ بھی ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کے عوام میں تین طبقات ہیں، غریب، سفید پوش اور امیر۔ امیروں کو تو شاید ایسے کئی سالوں کے لاک ڈاؤن سے کوئی فرق نہ پڑے، غربا کو بھی کسی حد تک حکومتی یا سماجی امداد حاصل ہو جاتی ہے، مگر وہ سفید پوش طبقے‘ جو کسی سے مانگ بھی نہیں سکتا، کا کیا بنے گا؟ پوری دنیا میں جو کروڑوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں وہ کیا کریں گے؟ پاکستان میں بھی کاروبار ٹھپ ہے، نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں تھامے گھوم رہے ہیں، ان کا تو اب بالکل ہی کوئی پرسان حال نہیں رہے گا۔ ایک اور اہم سٹیک ہولڈر ہمارے علمائے کرام ہیں۔ کورونا کے باعث مساجد میں بڑے اجتماعات پر پابندی ایسا نازک فیصلہ ہے جس پر مشاورت بے حد ضروری ہے۔ اب پاکستان میں ریاست اور علماء میں 20 نکاتی ایجنڈے پر اتفاق ہوا ہے۔ امید ہے عوام اور علماء حضرات اس معاملے میں ذمہ داری کا مظاہرہ پیش کریں گے۔
درحقیقت پاکستان کسی صورت مکمل لاک ڈائون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا ہوا تو لوگ بھوکے پیٹ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ عوام کی پہلے سے ناکافی Social Security سرے سے ختم ہی ہو جائے گی، اور یہ حالات کورونا سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس وقت اصل ضرورت Smart Lockdown کی ہے، یعنی جغرافیائی اور صحت کے لحاظ سے گروپنگ کر دی جائے۔ وہ علاقے جہاں مرض کا پھیلاؤ بہ نسبت کم ہے‘ ان کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ کلیئر قرار دے دینا چاہیے تاکہ ملک کا پہیہ چلتا رہے‘ اور وہ علاقے اور افراد جو کورونا کیلئے زیادہ Vulnerable ہیں‘ وہاں سختی سے لاک ڈاؤن کیا جانا چاہیے؛ تاہم حکومت فیصلہ سازی کرتے وقت ہر ممکن سوچ چار، پلاننگ، رسک مینجمنٹ اور تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت لازمی کرے اور جب وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ کوئی قدم اٹھائے تو عوام کا بھی فرض ہے کہ اپنے حکمرانوں پر اعتماد کریں اور ریاست کے حکم کی پیروی کریں‘ کیونکہ اس آزمائش پر صرف اور صرف ''یگانگت و اتفاق رائے‘‘ کے ذریعے ہی پورا اترا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں