کوروناکے عذاب نے عالمی معیشتوں کو تختہ دار پر لٹکا رکھا ہے ۔پوری دنیا کی معاشی ترجیحات ‘ انسانی رویے اور رہن سہن بدل چکے ہیں۔ آج ماسوائے خوراک اور اشیائے خورونوش کے باقی تمام صنعتیں زوال کا شکار ہیں‘ مگر لاک ڈاؤن کی صورت میں یہ قربانی دینا ہر ملک کی مجبوری تھی کیونکہ یہ تمام ترقیاں انسانی زندگی کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہی سمجھ لیں کہ ہماری معیشت کا زیادہ انحصار ہوٹلنگ ‘ سیاحت‘ فضائی کمپنیوں‘ فیکٹریوں اور بھاری صنعتوں پر نہیں ‘ پاکستان کو معیشت کی بحالی کیلئے اپنے غریب مزدوروں‘ دیہاڑی داروں‘ متوسط طبقات ‘ چھوٹے کاروباروں‘ فیکٹریوں اور کسانوں کو ترجیح دینا ضروری ہے ۔ حکومت اب تک ڈیڑھ‘ دوکھرب کا کوروناریلیف دے پائی ہے ‘ مگر یہ وبا جس تیزی سے ملک میں اپنے پنجے گاڑ رہی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے ‘ یوں لگتا ہے حکومت کا اصل امتحان اب شروع ہوگا‘ جب کوروناکے عروج کے دوران 12 جون کو نیا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے ۔مالی سال 20-21ء کے بجٹ کا حجم سات ہزار 600ارب روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے ‘ جس میں وفاق کی خالص آمدن کا تخمینہ چارہزار 200ارب اور خسارے کا تخمینہ دوہزار 896ارب روپے لگایا گیا ہے ۔ افراط زر کی شرح 8.4 فیصد مقرر کرنے کی تجویزہے ‘ جبکہ آئندہ تین سال میں برآمدات میں 30 فیصد اضافے کا ہدف رکھنے کا امکان ہے ۔ کوروناسے لڑنے کیلئے اس بجٹ میں حکومت کی جانب سے 1000 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے اور بجٹ کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس بجٹ میں کسی نئے ٹیکس کو شامل نہ کرنے کی تجویز ہے ۔ آئی ایم ایف نے آئندہ سال کیلئے ٹیکس کا جو ہدف 51کھرب رکھا تھا ‘ اس میں بھی نرمی کا امکان ہے ‘ لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں نیا بجٹ ٹیکس فری ہو گا۔ ویسے اس سال نئے ٹیکسوں کی بات کرنا ایک بڑے ظلم کے مترادف ہے ۔ یہ بجٹ گزشتہ سالوں سے مختلف ہو گاکیونکہ امسال معیشت Revival کی بجائے اپنے Survival کی جنگ لڑ رہی ہے ‘جبکہ عوام بھی نئے ٹیکسزکے بجائے نئے ریلیف ملنے کی امید باندھے ہوئے ہیں۔
نئے بجٹ میں Ease of doing Businessکو بڑھاتے ہوئے Cost of doing Business کو کم کرنے کی تجویز ہے ۔ لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں چھوٹے کاروبار تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جن کو بحال کرنے کیلئے حکومت کی زیادہ سے زیادہ مددا ور ریلیف درکار ہے ۔زراعت اور توانائی کے منصوبوں میں استعمال ہونے والی مشینری کی درآمدات پر کسٹم اور ایکسائز ڈیوٹی میں ریلیف کی تجویز ہے ‘ مگرحکومت کو زراعت کے حوالے سے ایسے مزید ریلیف دینے چاہئیں ۔ ٹڈی دَل آج ملک کے 61اضلاع میں زراعت کو تباہ کر رہا ہے ‘ ایسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے زیادہ پروگرامز ہونے چاہیں ۔ شعبہ تعمیرات میں بھی ریلیف کیلئے 200بلین روپے مختص کرنے کی تجویز ہے تاکہ مزدوروں اور دیہاڑی داروں کو استحصال سے بچایا جا سکے ۔ اشیائے خورونوش پہ ٹیکس مزید کم کرنے اور لگژر ی گھروں‘ فارم ہاؤسز اور بنگلوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز بھی قابل تحسین ہے ‘ اس سے ٹیکسوں کا دباؤ غریبوں کی بجائے امیروں کی جانب منتقل ہوگا۔
پاکستان میں ترسیلاتِ زربھیجنے والوں کا معاشی ترقی میں اہم کردار ہے ‘ لاک ڈاون کے باعث ترسیلات کم ہو نے سے معیشت کو اربوں کے نقصان کا سامنا ہے۔ اس بجٹ میں ترسیلات بھیجنے والے افراد کیلئے خاص Loyalty Program شروع کرنے کی تجویز ہے ‘ جس کے تحت ان کو خاص فوائد مہیا دیے جائیں گے ۔ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے باعث پاکستان میں ترسیلاتِ زر 23فیصد تک کم ہو جانے کا خدشہ ہے ‘ یعنی 22.5ارب ڈالر سے 17ارب ڈالر تک گر سکتی ہیں ۔ ملک میں زیادہ ترسیلاتِ زردبئی ‘ سعودی عرب ‘ گلف اور یورپی ممالک سے آتی ہیں ‘ یہ ممالک خود بھی لاک ڈاؤن سے متاثر ہیں‘ لہٰذا حکومت کو ترسیلات ِزر میں کمی کیلئے تیار رہنا ہوگا اور فوراً رسک مینجمنٹ کرنا ہوگی۔
یہ تمام تجاویز اپنی جگہ بجا ‘مگر وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت ملک میں مضبوط معاشی منصوبے اور تبدیلیاں لے کر آئے۔ ملک میں Taxationکے فرسودہ نظام پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار ڈائریکٹ ٹیکس کے بجائے انڈائریکٹ پر ہے ‘ جن کا مجموعی محصولات میں تقریباً 75فیصد حصہ بنتا ہے ‘ جس سے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک جانب تو کہا جاتا ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور دوسری جانب بالواسطہ طور پر عوام سے پانی پر بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ؛ چنانچہ پاکستان میں ٹیکس کولیکشن کے نظام کو بتدریج Direct Tax کی جانب لانا ہو گا۔ اسی طرح Import Substitution یعنی متبادل درآمدات کی حکمت عملی کو بھی اپنانا چاہیے ۔وہ اشیا جو پاکستان میں تیار ہو سکتی ہیں انہیں ملک ہی میں تیار کرکے زرمبادلہ کو بچایا جا سکتا ہے ۔ جس طرح حکومت نے حال ہی میں پاکستان کی پہلی Mobile Device Manufacturing Policy منظور کی ہے‘ جبکہ سرجیکل ماسک اور ادویات بھی اپنے ملک میں بنانے کی منظوری دی ہے۔ ایسے اقدامات سے مقامی فیکٹریوں کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح پاکستان کے بیرونی قرضے تقریباً 106 بلین ڈالر تک جا چکے ہیں جو قرض سی پیک ‘ آئی ایم ایف ‘ پیرس کلب اور مختلف اداروں سے لئے ہیں ‘جبکہ اندرونی قرض ساڑھے 22ہزار ارب روپے ہے ‘ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق 2024ء تک ملک کا مجموعی قرض 45 ہزار 573 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ قرضوں کی مد میں واجب الادا رقم بھی تقریباً دو کھرب تک پہنچ چکی ہے‘ لہٰذا حکومت کو قرض کی شرائط نرم کرنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر لابنگ‘ اور سروسنگ Defer کرنے جیسے اقدامات فوری کرنا ہوں گے۔ اسی طرح کورونا کے باعث پوری دنیا آن لائن سروسز کے طریقہ ہائے کار کو اپنا چکی ہے ؛ چنانچہ پاکستانیوں کو بھی عوام کی آسانی کیلئے زیادہ سے زیادہ آن لائن سہولتیں متعارف کرانا ہوں گی۔
آج یوں لگتا ہے کہ عالمگیر وبا نے دنیا میں ممالک کی اجارہ داریوں کو بھی تبدیل کر دیا ہے ۔ امریکہ جو 1990 ء کے بعد سے دنیا میں حاکم بنا بیٹھا تھا‘ شاید اب مزید سپر پاور نہیں رہا‘ اپنے مفادات کی خاطر ا فغانستان ‘ عراق اور لیبیاپہ قبضہ کرنے اور ملک میں گورننس کی ناکامی نے امریکہ پر ہزاروں سوال اٹھا دیئے ہیں‘ جبکہ چین جو گزشتہ کچھ سالوں سے اپنی معیشت مضبوط کرنے میں مصروف ہے ‘ وہ ریاست کی بالادستی ‘ معاشی منصوبوں اور اپنے اصولوں کے باعث آنے والے دنوں میں سپر پاور بن کر ابھر سکتا ہے ۔ لگتا ہے دنیا میں کوئی New World Orderآرہا ہے ‘ لہٰذا پاک چین دوستی کا پختہ ثبوت CPEC جو بڑے عزائم اور بڑی امیدوں کے ساتھ شروع کیا گیا تھا‘ اب وقت آگیا ہے کہ اس گیم چینجر میگا پراجیکٹ سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے ‘ لگتا ہے اس منصوبے میں دوست ملک کے مفادات زیادہ اور پاکستان کے کم ہیں‘جیسا کہ اس پراجیکٹ کے تقریباً تمام ٹھیکے چینی کمپنیوں کے پاس ہیں‘ اس کے علاوہ پوری دنیا میں ایک ملین ڈالر فی میگا واٹ کے حساب سے بجلی پیدا ہوتی ہے ‘ مگر CPECپراجیکٹ کے زیر انتظام قدرے مہنگی بجلی پیدا ہو تی ہے ‘ لہٰذا دوستانہ ماحول میں سی پیک کی چند شقوں پر نظر ثانی کرنا ضروری ہے جس سے پاکستانی بزنس کمیونٹی کو بھی فائدہ پہنچ سکے اورWin & Winکی صورتحال پیدا ہو سکے۔ آج جب ہر سو منفیت اورعدم اعتمادی کا دور دورہ ہے تو حکمرانوں کو چاہیے کہ مکمل سوچ بچار کے بعد دانشمندانہ فیصلے کریں تاکہ مایوسیوں کے اندھیروں کے بیچ امید کی کرن جاگ سکے ۔