بیوروکریسی ایک بار پھر تقرریوں‘ تبادلوں اور جبری ریٹائرمنٹ کی لپیٹ میں ہے ۔ افسران کو ہراساں کیے جانے کی مشقیں پھر سے دہرائی جا رہی ہیں۔ سیاست دان سول سرونٹس کی لسانی‘ مذہبی بنیادوں سے بالاتر ہو کر کارکردگی اور ان کے غیر سیاسی‘ غیرجانبداراور خود مختار ہونے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں اور ہر دورمیں سول افسران کو نیچا دکھانے کے حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میںLateral Entryکر کے 1400سرکاری افسران کو نوکری سے جبری برخاست کیا گیا جبکہ حکومتی فیصلوں پر بیوروکریٹس کا آئینی تحفظ ختم کر کے افسران کو ہمیشہ کیلئے سیاستدانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔اس کے بعد ضیا الحق نے ملٹری افسران کیلئے سول سروس کے دروازے کھول دیئے۔ بینظیر اور نواز شریف کے ادوار میں بھی افسران کو سیاسی پارٹیوں میں بدل کر رکھ دیا گیا۔ جو بیوروکریٹس ریاست کے ملازم ہوتے تھے انہیں حکومتی سہولت کار بنا دیا گیا۔ مشرف دور میں ڈی سی آفس ختم کر دیا گیا جو کہ ضلعی سطح پر سروس ڈیلیوری کا واحد نظام تھا۔اس کے بعد شہبازشریف نے اپنے دور میں تمام انتظامی اختیارسی ایم سیکرٹریٹ منتقل کر کے ''انتظامی آمریت‘‘قائم کر دی‘ مگر تحریک انصاف کی حکومت سول سروس کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی‘ جس نے فقط دو سالوں میں بیوروکریسی میں کنفیوژن‘ اکھاڑ پچھاڑ اور افسران کو عدم تحفظ کا شکار بنا کر رکھ دیا۔ اس پر سول سروس ریفارمز 2020نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان اصلاحات میں سب سے قابلِ فکر اور متنازعہ حصہ ریٹائرمنٹ رولز 2020ہیں‘ جس کے مطابق حکومت اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ناقص کارکردگی والے افسران کو جبری ریٹائرکرسکتی ہے۔ریٹائرمنٹ کیلئے جو بورڈ اور کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ان کے ڈھانچے بھی روایتی ہیں‘ گریڈ 20سے 22کیلئے بورڈ کی سربراہی چیئرمین ایف پی ایس سی کریں گے ‘ جبکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ سیکرٹری کابینہ ‘ سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری قانون اس کے مستقل ممبر ہیں۔ گریڈ 17تا19 کے افسران کی جانچ کیلئے کمیٹی کا سربراہ متعلقہ ایڈیشنل سیکرٹری ہے جبکہ گریڈ 16اور اس سے نیچے کے عہدیداروں کی جانچ پڑتال کیلئے کمیٹی کی سربراہی سینئر جوائنٹ سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری کریں گے ۔
حکومت کے اس تجربے سے اعلیٰ سرکاری افسران اضطراب میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ نئے قوانین لانے کی ضرورت پیش ہی کیوں آئی جبکہ Inefficientافسران کی ریٹائرمنٹ سے متعلق اصول ‘ قواعد و ضوابط اور طریقہ کار پہلے سے موجودتھے۔Government Servants (Efficiency and Discipline) Rules 1973 میں افسران کے خلاف تادیبی کارروائی کی شرائط واضح ہیں۔ شق نمبر تین کے مطابق اگر افسر Inefficientیا Guilty of Misconduct ثابت ہو یا Corrupt قرار دے دیا جائے تو اسے چھوٹی یا بڑی سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ بڑی سزا کے طور پر افسر کو عہدے سے جبری ریٹائر بھی کیا جا سکتا ہے۔ شق نمبر چھ میں انکوائری کا طریقہ کار بھی واضح ہے‘ متاثرہ افسر کو چارج شیٹ بھی جاری ہوسکتی ہے ‘ جس کے بعد اسے ذاتی شنوائی کیلئے مناسب مواقع بھی دیے جاتے ہیں۔ متاثرہ افسر کو محکمانہ اپیل یا سروسز ٹربیونل اپیل کا بھی حق دیا گیاہے ‘لہٰذا یہ کہنے میں کوئی دقت نہیںکہ ریٹائرمنٹ رولز 2020 میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے ۔ ان قوانین کا میرٹ صرف اور صرف 'سیاسی‘لگتا ہے جو افسران کو ہراساں کرنے اورحکومتی ناکامیوں کا ملبہ بیوروکریسی پر ڈالنے کا ایک ہتھیار ہے۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے ادوار میں بھی Best of the Bestکی پالیسی اپنائی گئی‘ جہاں افسران کی Efficiency یہ ہوتی تھی کہ وہ سیاسی و ذاتی مفادات میں سیاستدانوں کی معاونت کریں۔ جب سنیارٹی لسٹ کو نظر انداز کر کے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئیں تو بیوروکریسی بد دل ہوگئی اور عدالتوں میں کیسز کے انبار لگ گئے ۔ 2013ء میں سپریم کورٹ نے 80افسران کی گریڈ 20سے 21میں پروموشن کرنے کے بورڈ کے فیصلے کو کالعدم قراردے دیاتھا؛ چنانچہ معززعدالتیں پہلے ہی اپنے فیصلوں میں سلیکشن بورڈ کے طریقہ کاراور صوابدیدی اختیار کو وضع کر چکی ہیں‘ مگراب حکومت نے ان پالیسیوں کو چھیڑکرمیرٹ کے راستے میں دوبارہ رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں۔یہاں ایک بڑا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کیلئے افسران کی کارکردگی کا میرٹ پر جائزہ کون لے گا؟ کچھ لوگوں کی قابلیت خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ جن کا تجربہ فقط خیبر پختونخوا تک محدود ہے۔ ایک افسر جنہوں نے پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ کام کیا ہے جب ان سے اعظم خان کی ورکنگ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے گہری بات کہہ دی ‘کہا:Less Grey Matter More Emotions ‘ اور یہی مسئلہ نیچے سے اوپر تک ہے ۔ اسی طرح 85سالہ ڈاکٹر عشرت حسین سول سروس کے جدید نظام کے بارے میں کتنا جانتے ہوں گے ؟ انہوں نے کئی برسوں میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی اور پھر بینک کی ملازمت کی۔ پاکستان کی سول سروس میں انہوں نے تقریباً 11‘ 12 سال گزارے جن میں بھی وہ آٹھ سال پلاننگ ڈویژن میںرہے ۔ ان کا سول سرونٹس کے ساتھ Experienceنہ ہونے کے برابر ہے ‘ پہلے بھی سول سروس اصلاحاتی کمیٹیوں کی سربراہی کر چکے ہیں‘ مگر سوائے قوانین کو پیچیدہ کرنے کے کوئی کام نہیں کیا۔ اس کے علاوہ کوئی یہ بھی بتائے کہ ریٹائرمنٹ کیلئے بنائے گئے بورڈ اور کمیٹیوں کے ممبران کی اپنی کارکردگی کے میرٹ پر فیصلہ کون کرے گا؟تمام گروپس کے افسران کا ماننا ہے کہ بورڈ یا کمیٹی ریٹائرڈ سول افسران پر مشتمل ہونی چاہیے جو کسی لابی کا حصہ نہ ہوں‘ اور جن کی سروس اپنے صوبہ سے باہر ہو جو شفاف طریقے سے میرٹ پر فیصلے کریں۔ افسران کی گریڈ 17کے بعد پروموشن پہلے ہی سے PERsکی بنیاد پر کی جاتی ہے مگر اب پرفارمنس کا جائزہ لینے کیلئے بننے والے اس سپر بورڈ نے پہلے کی رپورٹس اور بورڈز کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ یہاں پر چیئر مین ایف پی ایس سی کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ‘ جس طرح ماضی میں چیئر مین ملک آصف حیات نے ' سیاسی میرٹ‘کا حصہ بننے سے انکار کر تے ہوئے سٹینڈ لیا تھا۔
حکومت کی سوچ شاید یہ ہے کہ کارکردگی والے افراد سامنے لاتے ہیں‘ جبکہ حکومت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ کارکردگی افراد سے نہیں اداروں اور ان کی بہتر پالیسیوں سے ممکن ہے ۔افسران کا کام تو فقط حکمرانوں کی معاونت کرنا ہوتا ہے ‘ اصل پالیسی بنانا تو حکومتوں کا کام ہے۔ خیر جو بھی ہے‘ مگر حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں اورحقیقت یہ ہے کہ عشروں سے بیوروکریسی ہی ملک کا واحد ایسا ادارہ ہے جس نے ہر قسم کے حالات میں تسلسل کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھائی ہے ‘ مگرپہلے نیب نے افسران پرپکڑدھکڑکا خوف بنائے رکھااوراب حکومت نے بیوروکریسی میں غیریقینی پیدا کردی ہے ۔ اگر ملک کے اعلیٰ اداروں کے اندرونی احتساب کا طریقہ کار ان کی اپنی چار دیواری میں موجود ہے ‘ تو پھر افسران کے ساتھ یہ سوتیلوں جیسا سلوک کیوں؟ ان کی Internal Control and Accountability بھی ادارے کے اندر رہتے ہوئے ہونی چاہیے ۔ افسران کو ہراساں کرکے حکومت اپنے لیے مسائل جنم دے رہی ہے۔ حکومت کا بیوروکریسی کی جانب ایسا ہی رویہ رہا توکوئی قابل افسر باقی نہیں بچے گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک گورننس کی بد ترین صورتحال سے دوچار ہے ‘ صورتحال ایسی ہی رہی تو ہر ادارہ تباہی کے دہانے تک جا پہنچے گا‘ نہ آٹا بحران ختم ہوگا ‘ نہ پٹرول بحران اور نہ مہنگائی کنٹرول ہوگی۔ حکمرانوں کویہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عدم اعتماد کا شکاربیوروکریسی کے ساتھ گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔