"MEC" (space) message & send to 7575

’جمہوریہ پاکستان‘ کے پسے عوام

17ویں صدی سے قبل Authoritarian Regimes میں عوام کی بنیادی ذمہ داری فقط حکمرانوں کی غیر مشروط غلامی ہوا کرتی تھی۔ پھر وقت کے کروٹ بدلی اور 'انقلاب فرانس‘ اور 'صنعتی انقلاب‘ رونما ہونے کے بعد Liberalization کا دور آیا اور Democracy یعنی 'جمہوری نظام‘ نے دنیا میں جھنڈے گاڑنا شروع کیے۔ جمہوریت‘ جس کی اصل روح 'عوامی بالادستی‘ ہوتی ہے، میں تمامتر اہمیت کے حقدار صرف 'عوام‘ ہوتے ہیں۔ امریکی مصنف Francis Fukuyama نے اپنی کتاب The End of the History and Last Man میں لکھا کہ دنیا میں جمہوری لبرل ازم اور کیپیٹلسٹ سسٹم جیت چکا ہے، جو ارتقاء کی منازل طے کرکے ایک مثالی نظام بن چکا ہے۔ عظیم مفکر کا خیال درست تھا، کیونکہ یورپی ممالک اسی جمہوری نظام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ترقی کی بلندیوں تک پہنچے‘ لیکن یورپ میں تو 'حقیقی جمہوریت‘ قائم ہے، عوام پڑھے لکھے ہیں اور حکمران عوامی احساس رکھنے والے ہیں۔ مگر پاکستان اور تھرڈ ورلڈ کے دوسرے ممالک میں جمہوریت کی شکل بگڑ چکی ہے جہاں جمہوری نظام کی آڑ میں بیباکی سے عوام کا استحصال ہو رہا ہے۔ سیاست اور ریاست 'ذاتی جاگیریں‘ بن چکی ہیں اور ہر سو 'جعلی جمہوریت‘ بسیرا کیے ہوئے ہے۔
ہم ایک فلاحی ریاست میں سانس لیتے ہیں۔ آئین پاکستان کی شق 38 کہتی ہے: عوام کو بنیادی ضروریات یعنی کھانا، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے‘ مگر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہاں حکومتیں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں ہمیشہ ناکام رہیں۔ یہاں ہر دور کسی بادشاہی دور سے کم نہیں گزرا۔ آمرانہ ادوار ہوں یا جمہوری‘ ہر زمانے میں عوام کی زندگی بدتر ہوتی گئی۔ غریب عام آدمی ستر سالوں سے آج تک مصائب میں گھرا ہے، اور ہمارے حکمران عوامی لیڈر کا لبادہ اوڑھے دبئی، لندن، سوئٹزرلینڈ، سپین میں خوب جائیدادیں بناتے رہے ہیں۔ کبھی 'قرض اتارو، ملک سنوارو‘ مہم کا پیسہ اکٹھا کرکے کھا لیا گیا، تو کبھی ماس ٹرانزٹ، بجلی اور ڈیموں کے نام پر عوام کو بٹورا گیا، اور پانامہ جیسے سکینڈلز نے جمہوری حکومتوں کا منہ چڑایا۔ آج ہر وہ شعبہ‘ جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے‘ تباہی سے دوچار ہے۔ کم و بیش 22 کروڑ آبادی والا پاکستان دنیا میں صحت کے نظام میں 149ویں نمبر پر ہے۔ یہاں لاکھوں نہیں‘ کروڑوں افراد معیاری علاج سے محروم رہتے ہیں۔ ہمارے حکمران عوام کو صحت کی سہولیات کیا مہیا کریں گے جبکہ متعدد بار وزیر رہنے والے ایک صاحب نے خود اعتراف کیاکہ کورونا کے علاج کے دوران ان کو لائف سیونگ انجیکشن ایک بڑی سفارش پر ملا! پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے 5ویں نمبر پر کھڑا ہے، مگر کیا ہمارے کسی لیڈر یا حکمران‘ خواہ وہ سویلین ہو یا ڈکٹیٹر‘ نے فیملی پلاننگ کیلئے کوئی اقدامات کئے؟ سب جانتے ہیں کہ سماجی تبدیلی کیلئے عوامی سوچ کا بدلنا ضروری ہے۔ ان کو آگاہی اور تعلیمات دینا ناگزیر ہیں۔ چین نے فیملی پلاننگ کی آگاہی بڑھا کر اور قانون سازی کے ذریعے حالیہ سالوں میں آبادی کو مزید بڑھنے سے روکا‘ اور وہیں سے ترقی کی راہ متعین کی۔ ایک اور بڑا مسئلہ‘ جس پر سالوں سے ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں‘ غذائی قلت کا ہے۔ تھر کی صورتحال پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر سال سینکڑوں بچے خوراک اور پانی کی کمی کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ خوراک کے بحران کی مرکزی وجہ سنگین زرعی زبوں حالی ہے۔ نیوزی لینڈ جیسے چھوٹے ملک میں فی ایکڑ گندم کی پیداوا 90 سے 100 من جبکہ پاکستان جیسے زرعی ملک میں یہ مقدار بمشکل 30 سے 40 من ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آئندہ چند سالوں تک یہ مقدار دُگنی نہ کی گئی تو ملک میں خوراک کا بحران بڑھنے کا خطرہ ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث آج پاکستان پر 110 ارب ڈالر بیرونی جبکہ 23 کھرب 513 ارب روپے کے اندرونی قرضے واجب الادا ہیں۔ 2008 میں پاکستان کا بیرونی قرضہ 45 ارب ڈالر تھا‘ مگر گزشتہ12 برسوں کے جمہوری ادوار میں بیرونی قرضے میں 65 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح آج میں اور آپ اور ہر پاکستانی تقریباً 1 لاکھ 85 ہزار روپے کا مقروض بن چکا ہے۔ افسوس کہ پاکستان کے کھرب پتی حکمرانوں نے اپنی آل اولاد کو تو سونے کے محلوں میں رکھا مگر ملک کی نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت اور ان کے مستقبل کے تحفظ کی جانب سے ہمیشہم جرمانہ چشم پوشی کی۔ یہی وجہ ہے کہ 77 فیصد پاکستانی نوجوان روزگار کی خاطر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں‘ اور ڈگری حاصل کرنے والے 36 فیصد نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں۔ آج ہم جمہوری ہونے کا دعویٰ بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستان Democracy Index میں 167 ممالک میں 108ویں نمبر پر ہے‘ یعنی پہلے 100 ممالک میں شامل نہیں‘ لہٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا پاکستان جمہوریت کیلئے موزوں ملک ہے بھی کہ نہیں؟ کیونکہPlato نے اپنی معروف کتاب ''جمہوریہ‘‘ میں لکھا تھا: سیاست اور تجارت دو الگ چیزیں ہے، سیاست کا مقصد خالصتاً عوامی فلاح پر مشتمل ہے جبکہ تجارت کا مقصد ذاتی مفاد و منافع ہے۔ یہاں سیاست سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ہے۔ ابن خلدون کے مطابق ہر ریاست کا نظام وہاں کے کلچر اور طور طریقوں کے مطابق ہوتا ہے‘ لہٰذا ہمیں ہرصورت اپنے حکومتی نظام پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ عوام ان حکمرانوں سے کیا امید لگائیں گے جو جمہوری ادوار میں اپنا انتخابی نظام تک خود نہ بنا سکے؟ یہی وجہ ہے کہ انتخابات متنازع قرار دئیے جاتے رہے۔ کرپشن کا ناسور بھی ہماری جڑوں تک دھنس چکا ہے۔ حکمرانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ہمارے پاس مایوسیوں اور ناکامیوں کے سوا کچھ موجود نہیں۔
2018 بلاشبہ پاکستانیوں کیلئے امید کا سال تھا۔ عمران خان تیسری طاقت بن کر اقتدار میں آئے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ تحریک انصاف پاور میں آتے ہی 'نیا پاکستان‘ بنائے گی‘ جس میں غریب عوام اولین ترجیح ہو گی‘ مگر تبدیلی کے نام پر عوامی خوشحالی کا جو دیا جلا تھا‘ وہ بجھ چکا ہے۔ کوئی 'نیا پن‘ نظر نہیں آتا۔ خوشحالی اور آسان زندگی تو دور غریب عوام کی حالت پہلے سے بھی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ جو چند تبدیلیاں واضح رونما ہوئیں‘ ان سے ملک میں 'مہنگائی کی آفت‘ آ گئی۔ نئے مالی سال کے آغاز میں ہی عوام پر Inflation بم بن کر گری۔ پہلے ماہ کی پرائس انڈیکس رپورٹ میں صرف ایک ماہ میں مہنگائی کی شرح 2.5 فیصد بڑھی جبکہ سالانہ مہنگائی بڑھنے کی شرح 9.3 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ صرف جولائی کے مہینے میں سبزیاں 23 فیصد مہنگی ہوئیں۔ جولائی 2019 سے جولائی 2020 تک چینی کی قیمت 17 فیصد جبکہ گندم کی قیمت 30 فیصد بڑھی۔ چینی یا گھی کا کم استعمال تو سمجھ میں آتا ہے مگر کیا کوئی آٹے کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور کر سکتا ہے؟ غریب آدمی کی آرزو روٹی، آٹے، چاول سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہو جاتی ہے، اب اگر وہ بھی اسے بہ آسانی نصیب نہ ہوں تو اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا؟
یہ ساری صورتحال غماز ہے کہ ملک کا سیاسی و سماجی نظام عوام دوست نہیں۔ سیاستدانوں کی ناکامیاں عیاں ہو چکیں۔ یہ اشارے ہیں کہ پورے نظام میں تبدیلیاں درکار ہیں۔ لیکن ایک کہاوت ہے 'جیسے عوام ویسے حکمران‘ آج اگر پاکستانی حکمرانوں کی نیت صاف نہیں تو عوام کا کردار بھی شفاف نظر نہیں آتا۔ مصنوعی مہنگائی، اشیاء کی قیمتوں میں ازخود اضافہ وتیرہ بن چکا ہے۔ رمضان اور عید جیسے مواقع پرغریب عوام کو ریلیف دینے کے بجائے بے جا لوٹنا کہاں کی مسلمانی ہے؟ آج ملک میں عوامی سطح سے لے کر ریاستی سطح تک تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ احساس ذمہ داری بڑھانے اور حب الوطنی کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر ملک میں ایسا نظام وضع کرنا ہو گا جس کی اساس حقیقی عوامی ہو، اور جس سے 'عام آدمی‘ کی زندگی میں صحیح معنوں میں بہتری کی امید کی جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں