دنیا میں کبھی اپنی ترقی اور ثقافت سے مشہور شہر کراچی آج آفت زدہ ہو کر کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ روشنیوں کے شہر میں مصائب کی اندھیر نگری ہے، خدا خدا کر کے ابھی کورونا کا کفر ٹوٹا ہی تھا کہ تاریخ کے بدترین اربن فلڈ نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ معاشی مرکز میں جہاں ٹریفک کا پہیہ جام ہے، وہیں بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے، نالے اور سڑکیں ایک ہیں تو پینے کا پانی بھی نایاب ہے، جگہ جگہ ابلتے گٹر ذمہ داروں کا منہ چڑاتے ہیں۔ غرضیکہ مسائل کا انبار ہے جو ببانگ دہل کہتا ہے کہ گزشتہ 12 سالوں کے دوران گورننس کے نام پر کراچی کے عوام کے ساتھ صرف دھوکا ہوا۔ عوام کے احساسات کے ساتھ کھیلنا، جھوٹے وعدے اور دعوے کرنا، اور 'کاغذی ترقیاتی پروگرامز‘ کے اعلان کرنا ہمارے سیاستدانوں کا وتیرہ بن چکا ہے۔ شہرِ قائد کے لئے ماسٹر پلان تو بہت بنائے گئے مگر عمل درآمد کسی پر نہ ہو سکا۔ ترقی کے نام پر اربوں کے گھپلے ہوئے مگر کوئی پکڑ دھکڑ نہ ہوئی۔ جمہوریت کے سب سے بڑے دعویداروں نے عوام کی بالادستی تو دور عوام کا سانس لینا بھی دشوار بنا دیا ہے۔ اگر کوڑا اٹھانے، نالوں کی صفائی اور ٹاؤن پلاننگ تک کا کام بھی فوج سے لینا ہے تو صوبائی حکومت اور ان کے اداروں کی فوج ظفر موج کی کیا ضرورت ہے؟ جمہوریت کے کھیل تماشے کے بیچ اگر کچھ ہوا تو وہ صرف اور صرف کرپشن ہے۔ اتنا تو کراچی شاید کماتا بھی نہ ہو‘ جتنے پیسے فالودے والوں کے بینک اکاؤنٹس سے برآمد ہوتے ہیں۔ بھتہ مافیاکی وارداتیں بھی سرعام جاری ہیں۔ یہ شہر جرائم کا بھی گڑھ رہا۔ جنرل نصیر اللہ بابر کی وزارتِ داخلہ کے دور میں جن پولیس افسران نے بوری بند قتلوں کے خلاف آپریشن کیا، بعد میں خود ان کی بوری بند لاشیں ملتی رہیں۔ نقیب اللہ محسود کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے والے راؤ انوار جیسے پولیس افسران بھی اسی شہر میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ سیاسی گٹھ جوڑ اور مفاہمتوں و مفادات کا نہ ختم ہونے والا کھیل بھی جاری ہے۔ اگر پِس رہے ہیں تو صرف کراچی کے عوام۔ اگر کوئی ہار رہا ہے تو صرف شہر قائد کا مستقبل! بقول مصطفی زیدی:
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
31 اگست 2020ء کو سندھ میں مدت پوری ہونے پر منتخب بلدیاتی حکومتیں تحلیل ہو چکی ہیں اور الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا اعلان کر دیا ہے، مگر بلدیاتی انتخابات جلد ہوتے نظر نہیں آتے، کیونکہ جمہوری حکمرانوں کی جانب سے ہمیشہ مقامی حکومتوں کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ یہ بلاشبہ 'جمہوری نظام‘ بلکہ 'اٹھارہویں ترمیم‘ جس کی اصل روح یہ تھی کہ مالی و انتظامی نظام کو ضلعی سطح تک منتقل کیا جائے‘ کی نفی ہے۔ مقامی حکومتیں سیاسی لیڈر شپ کی نرسری سمجھی جاتی ہیں مگر ہمارے حکمران ان کو فقط جلسے کرانے اور نعرے لگوانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور تمام مقامی ترقیاتی پروجیکٹس اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں جو لوٹ مار کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ مقامی حکومتیں ہمیشہ ''ٹھیکیداری نظام‘‘ کے سائے میں چلتی آئی ہیں؛ چنانچہ 1959ء میں ایوب خان کے Basic Democracies پلان سے 2001ء میں مشرف کے Local Government System سے ہوتے ہوئے آج تک نہ اقتدار کی عوام تک منتقلی ہو سکی نہ سروس ڈلیوری ہوئی اور نہ ہی اس نظام میں شفافیت نظر آتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی منتخب بلدیاتی حکومتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑے شہروں کے معاملات مشکوک شہرت کے حامل افراد کے ہاتھوں میں دیتی آئی ہے۔ اب کراچی کے ایڈمنسٹریٹر کیلئے میرٹ پر ''یونس ڈھاگا‘‘ کا نام سامنے آیا تھا مگر پھر سیاست اور مفاہمت غالب آ گئی اور افتخار شلوانی کو تعینات کر دیا گیا جبکہ وہ اس سے قبل کمشنر کراچی بھی رہے اور بطور سربراہ کراچی بلڈنگ کنٹرول و ماسٹر پلان بھی شہر کو کوئی جامع ترقیاتی منصوبہ نہ دے سکے۔ آج کراچی کو نعمت اللہ خان جیسے ایماندار، باکردار اور بے باک میئر کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں بلاول بھٹو بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے پیسوں کا خوب مطالبہ کرتے نظر آئے بولے ''ایسا نہیں ہو سکتا کہ وفاق بزدار کو پیسہ دے اور مراد علی شاہ کو نہ دے‘‘۔ ان کی یہ بات سن کر پنجابی کی کہاوت یاد آ گئی :''پنڈ وسیا نئیں، اُچکے تیار‘‘
جناب وزیراعظم عمران خان نے اب جو 111 ارب کا ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ دیا ہے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جامع پلان اور صوبائی رابطہ و عملدرآمد کمیٹی شہر کے حالات بدل دیں گے تو یہ خوش فہمی ہے کیونکہ ایسے مالیاتی پیکیج شہر میں کوئی پہلی بار نہیں آئے، اس سے قبل نواز شریف اور دیگر سربراہان بھی کراچی میں مختلف پیکیجز کا اعلان کر چکے ہیں۔ نواز شریف نے شہر کی ترقی کیلئے 25 ارب روپے کا پیکیج دیا اور 15 ارب روپے گرین لائن منصوبے کے لئے دیے۔ جس سے تب کے مافیاز اور ٹھیکیداروں نے اپنی جیبیں خوب گرم کیں۔ ماضی میں پاکستان کو زلزلہ زدگان کی معاونت کے لئے ملنے والی اربوں ڈالرز کی بیرونی امداد بھی آج بھولی داستان بن چکی ہیں؛ چنانچہ خدشہ ہے کہ اس پیکیج کے پیسے بھی عوام پر لگنے کے بجائے بے نامی اکاؤنٹس میں چلے جائیں گے۔ چند روز قبل کراچی کے ایک افسر جن کی بطور ایڈمنسٹریٹر تعیناتی کی افواہیں گردش میں تھیں، سے گفتگو کا موقع ملا تو انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے کراچی کے لئے نئے ترقیاتی پلان کا سنتے ہی ٹھیکیدار اور لوٹ مار مافیاز شادیانے بجانا شروع ہو گئے، جس پر انہوں نے اپنی تعیناتی سے معذرت کر لی کیونکہ ایسی بدانتظامی اور کرپٹ کلچر کے بیچ کوئی ترقیاتی کام کیسے ممکن بنا سکتا ہے؟
ہمارے شہروں میں اصل مسئلہ عدم منصوبہ بندی کا ہے، کراچی میں روزانہ اکٹھا ہونے والا 14 ہزار ٹن کوڑا اصل میں ایک خزانہ ہے جس کو ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ نامیاتی کھاد بنانے اور 'ویسٹ ٹو انرجی‘ کے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جس طرح سنگاپور میں ہوتا ہے، مگر ہمارے ویسٹ مینجمنٹ کے اداروں نے آج تک ایسی کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں کی جبکہ اس حوالے سے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور دیگرتنظیموں کی گرانٹ اور فنڈز استعمال میں لائے جا سکتے ہیں‘ جیسے Global Environment Facility (GEF) اور UNEP ہیں۔ اسی طرح ہمارے شہروں میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز تعمیرات پر ٹیکس اکٹھا کرنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے جبکہ پوری دنیا میں خود مختار شہری حکومتوں میں ادارے اور میونسپلٹیز ٹیکسوں سے بھاری سرمایہ پیدا کرتے ہیں۔ سنگاپور ماہانہ 3 ارب ڈالر ٹیکسوں سے اکٹھا کرتا ہے۔ تہران‘ جو ایران کے ٹیکس کولیکشن میں 58 فیصد حصے دار ہے، تقریباً سالانہ (21 سو ارب پاکستانی روپے) ٹیکس اکٹھا کرتا ہے۔ ممبئی سالانہ 3.5 لاکھ کروڑ بھارتی روپے تقریباً (8 ہزار ارب روپے) ٹیکس اکٹھا کرتا ہے۔ پوری دنیا میں شہری حکومتیں اپنے مالیاتی نظام کو Self-Sufficient, Self-Sustained اور Self-Reliant بنا چکی ہیں، ہمیں بھی اسی جانب بڑھنا ہوگا، جس کے لئے مقامی حکومتیں اور لوکل ادارے ٹیکسوں اور دیگر ذرائع سے سرمایہ اکٹھا کر سکتے ہیں۔
حکمرانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کراچی میں سب سے بڑی ضرورت ''گورننس‘‘ میں بہتری لانے، مالیاتی نظام میں شفافیت اور نظم و ضبط لانے، سیاسی کلچر کو بدلنے اور انتظامی ڈھانچوں کو ٹھوس اورموثر بنانے کی ہے۔ آج ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر نیک نیتی سے شہر کی ترقی کیلئے عملاً کچھ کرنا ہوگا۔ آج حکومت کو چاہیے کہ کراچی کے سابقہ تمام میئرز اور صوبائی حکمرانوں کا احتساب کیا جائے، پرفارمنس اینڈ فرانزک آڈٹ کرایا جائے، اور لوٹ مار کرنے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی کراچی کے ساتھ ناانصافی اور اس کے باسیوں کی حق تلفی کا سوچ بھی نہ سکے۔