"MEC" (space) message & send to 7575

آزاد پولیس اور’احتساب‘

ہمارے موجودہ نظامِ پولیس کاسلسلہ پولیس ایکٹ 1861ء سے شروع ہوتا ہے۔ Colonialism دور کے اس ایکٹ میں پولیسنگ کا بنیادی ڈھانچہ‘ تمام قوانین‘ طریقہ کار اور ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا تھا‘ جس کا بنیادی مقصد پولیس کو ایک منظم فورس میں ڈھالنا اور نوآبادیاتی حکمرانوں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ پولیس گردی کے واقعات بڑھنے لگے تو 1902ء میں AHL Fraser Commission نے اپنی رپورٹ میں پولیس کو ایک ناکارہ‘ غیرمؤثر‘ جابر‘ کرپٹ اور عوام کے عدم اعتماد کا شکار فورس قرار دیا۔ 1947ء میں پاکستان کو یہی فورس وراثت میں ملی جو مختلف ادوار میں ہمارے حکمرانوں کا آلہ کار بنی رہی۔ وہ بنیادی وجہ جس نے پاکستان میں نئے نظام پولیس کی ضرورت کو محسوس کرایا یہ تھی کہ پولیس کو پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے کیلئے حکومتی اثرونفوذ سے پاک کیا جائے جبکہ پولیس کے احتساب‘ جوابدہی‘ سروس ڈلیوری کی بھی اشد ضرورت محسوس کی گئی؛ چنانچہ ان تمام ضروریات کا حل پرویز مشرف کے دور میں ایک متبادل قانون ''پولیس آرڈر 2002‘‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ نئے آرڈر میں پولیس کو مجسٹریسی سے الگ کر دیا گیا اور ضلعی سطح پر ڈی پی اوز تعینات کیے گئے تاکہ پولیس کسی مداخلت کے بغیر اپنے فرائض سرانجام دے سکے‘ جبکہ پولیس کے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال اور ان کی سالانہ اے سی آر میں ضلعی ناظم کو جوابدہ بنایا گیا۔ اسی طرح پولیس کو فنکشنل اور انتظامی آزادی دے دی گئی۔ پی پی او کو پورے صوبہ میں فنکشنل‘ انتظامی اور مالی اختیارات مل گئے۔ شق 12 اور 15 کی مطابق PPO‘ CCPO‘ CPO اور DPO کی مدت ملازمت تین سال مقرر کی گئی؛ تاہم وفاقی و صوبائی حکومتیں چاہیں تو ٹھوس وجہ کی بنا پر افسران کے تبادلے مدت ختم ہونے سے قبل بھی کر سکتی ہیں۔ اسی طرح پولیس کے احتساب کیلئے ضلعی‘ صوبائی‘ نیشنل اور فیڈرل پبلک سیفٹی اور پولیس کمپلینٹ کمشنز بنانے کی تجاویز بھی دی گئیں۔ آرڈر کی شق 44 کے مطابق ضلعی پبلک سیفٹی کمیشن کو اختیار دیا گیا کہ پولیس کی کسی ناانصافی پر ایکشن لے اور ایف آئی آر درج نہ کرنے والے پولیس اہلکاروں کیخلاف کارروائی کا حکم دے۔ شق 80 اور 92 کے مطابق صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کو صوبے میں پولیس کی کارکردگی پر جبکہ نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کو ایف آئی اے‘ ریلوے‘ موٹروے اور ہائی وے پولیس سمیت دیگر اداروں پر چیک اینڈ بیلنس کا اختیار دیا گیا۔ شق 155‘ 156 اور 157 کے مطابق کوئی پولیس افسر یا اہلکار اپنے فرائض کی خلاف ورزی کرے‘ بدعنوانی میں ملوث ہو یا بلاوجہ شہریوں کو ہراساں کرے توتین سے پانچ سال قید اور جرمانہ ہوسکتا ہے‘ جبکہ نظام پولیس کو جدید اور پروفیشنل بنانے کی غرض سے آپریشنل اور تفتیشی کاموں میں تقسیم کردیا گیا۔ 
ان اصلاحات کا مقصد نظام پولیس کو سدھارنا تھا‘ مگر افسوس کہ پولیس افسران نے اپنے مفادات پر مبنی اصلاحات کو تو فوراً اپنالیا جبکہ دیگر حصے کے خلاف دانستہ طور پر ایکا کرلیا اور اسے لاگو نہ ہونے دیا‘ جس طرح گزشتہ 20 سالوں سے نہ پبلک سیفٹی کمیشن قائم ہوئے نہ کمپلینٹ اتھارٹیز بنائی جا سکیں نہ ہی کوئی پولیس محتسب بنایا گیا۔ پوری دنیا میں پولیس کا احتساب تین درجوں پر کیا جاتا ہے‘ پہلا: Accountability by Elected Representatives دوسرا: Internal Accoutability اور تیسرا: Accountability by Independent Commissions مگر پاکستان میں ان میں سے ایک بھی طریقہ کار نظر نہیں آتا۔ ماضی میں سری لنکن ٹیم پر اٹیک جیسے واقعہ پر پولیس کا کیا احتساب ہوا؟ ذمہ داران کے خلاف کونسی محکمانہ کارروائی ہوئی؟ انکاؤنٹر سپیشلسٹ راؤ انوار کے ظالمانہ آپریشنز کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ حال ہی میں سی سی پی او لاہور کی تعیناتی پر آئی جی صاحب نے دفتر آنا چھوڑ دیا‘ ان کا No More کا نعرہ ڈسپلن فورس کا سنگین مس کنڈکٹ تھا‘ اس پر کیا ایکشن لیا گیا؟ اسی طرح پولیس نے ہمیشہ جوابدہی سے بھی اجتناب کیا۔ مشرف دور میں پولیس کی مجموعی کارکردگی پر ضلعی ناظمین کی نگرانی کو کسی صورت قبول نہ کیا گیا۔ ڈی پی اوز نے Self-Assumed Autonomy اختیار کرلی اور پوری پولیس مادرپدر آزاد ہوگئی۔ اسی آزادی اور عدم جوابدہی کا خمیازہ ہمیں سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعے کی صورت میں بھگتنا پڑا‘ اگر اُس وقت ضلعی مجسٹریٹ یا ڈی سی آفس لا اینڈ آرڈر کا حصہ ہوتے تو یقیناً ایسا واقعہ پیش نہ آتا۔ اسی طرح شعبہ تفتیش کو آپریشنز سے الگ کرنے کا بنیادی مقصد کیسز کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش کرنا تھا‘ جس کیلئے جدید فرانزک لیب بنائی گئیں‘ اسی جدید تحقیقاتی طریقہ کار اور جیو فینسنگ کی بدولت موٹروے زیادتی کیس کے ملزمان کی نشاندہی ہوئی۔ سیف سٹی پروجیکٹ بھی ایک قابل تعریف منصوبہ ہے مگر افسوس کہ شعبہ تفتیش میں افسران کی کارکردگی مایوس کن ہے۔آج پنجاب پولیس پورے صوبے میں لا اینڈ آرڈر یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ ادارے میں پرفارمنس‘ نظم و ضبط اور ٹیم ورک نام کو نہیں۔ جرائم بڑھ رہے ہیں اور عوام خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ چند روز قبل موٹروے پر اجتماعی زیادتی جیسا اندوہناک اور المناک واقعہ ہمارے نظام تحفظ پر سوالیہ نشان تھا۔ صوبہ بھرمیں تھانہ کلچر میں بھی کوئی تبدیلی نہ آئی‘ پنجاب پولیس Community Friendly Police نہیں بلکہ خوف اور دہشت کی علامت سمجھی جاتی ہے‘ اس کے برعکس خیبر پختونخوا میں ایکٹ 2017ء کے ذریعے صوبائی پولیس کو باصلاحیت‘ جوابدہ اور عوامی پولیس بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پنجاب میں یکے بعد دیگرے آئی جیز کے تبادلے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ نظام میں کوئی تبدیلی نہ لائی گئی۔ جب ان اعلیٰ افسران کو پرفارمنس کی بنا پر ہٹایا جاتا ہے تو مدت ملازمت کا رونا رونے لگتے ہیں ۔ 
موجودہ دور میں پولیس میں سیاسی مداخلت میں واضح طور پر کمی دیکھی گئی ہے‘ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب 1991ء میں جلال الدین ڈھکو کی گاڑی کا چالان کاٹنے پر آئی جی کو ہٹا دیا گیا تھا‘ نہ ہی اب گاڑیوں میں سرکاری نمبر پلیٹیں نظر آتی ہیں‘ جن پر ماضی میں اراکین اسمبلی‘ ان کے دوست‘ رشتہ دار حتیٰ کے جرائم پیشہ افراد بھی تحفظ حاصل کرتے رہے ہیں‘ بلکہ آج کے ایم این اے اورایم پی اے شکایت کرتے ہیں کہ پولیس افسران جائز کاموں میں بھی ان سے مشاورت نہیں کرتے‘ جبکہ پوری دنیا میں پولیس لوکل گورنمنٹ اور منتخب نمائندوں کو کسی حد تک جوابدہ ہوتی ہے۔ نیویارک اور لندن میں پولیس کمشنر منتخب میئر کو جوابدہ ہے‘ جاپان میں بھی پولیس کے انتظامی امور سیفٹی کمیشن ہی دیکھتے ہیں ( سیفٹی کمیشنز بنانے کا خواب پاکستان میں بھی دیکھا گیا تھا) مگر نجانے ہماری پولیس کس آزادی کی متلاشی ہے؟ جب ملک کا وزیراعظم پارلیمنٹ‘ عدالتوں اور عوام کو جوابدہ ہے‘ وزیراعلیٰ اپنے احتساب کیلئے پیش ہوتے ہیں تو پولیس کیا خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کی آزادی چاہتی ہے؟ شاید ہماری پولیس یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ خود مختاری اور آزادی احتساب اور جوابدہی سے مشروط ہے۔ چند سال قبل بھارت بھی پولیس کے پیداکردہ انہی مسائل سے دوچار تھا مگر 2006ء کے پرکاش سنگھ بنام یونین آف انڈیا کیس میں سپریم کورٹ نے سات نکاتی فیصلہ جاری کیا جس کے ذریعے ''پولیسنگ آف پولیس‘‘ کو ممکن بنایا گیا اور اب نئے سی سی پی او لاہور بھی اسی مشن پر ہیں‘ مگر لگتا ہے کہ ان کے ماتحت پولیس افسران اس مشن کو قبول نہیں کر رہے۔ کوئی شک نہیں کہ نظام میں بہتری لانی ہے تو پولیس کا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ پولیس کو فنکشنل آزادی حاصل ہونی چاہیے اور ان کا اندرونی و بیرونی احتساب ہرصورت یقینی بنایا جائے‘ اگر پولیس کی بے جا آزادی کا غلط استعمال یونہی جاری رہا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم ایک ''پولیس سٹیٹ‘‘ گردانے جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں