قرونِ وسطیٰ اور قبل کے زمانوں میں 'کثیرآبادی‘سلطنت کا قیمتی ترین سرمایہ تصور ہوتی تھی‘ جسے بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ ایسے وقت کی بات ہے جب اس عالم کے کل خطرات و ترجیحات جنگوں سے لیکر فتوحات تک محدود تھے‘ پھر وقت نے کروٹ بدلی‘ آبادیوں میں یونہی اضافہ ہوتا گیا اور دنیا میں روایتی جنگوں سے ہٹ کر نئے خطرات نے سر اٹھا لیا۔ دو سو سال پہلےThomas Malthusنے اپنیTheory of Populationپیش کی‘ جس نے نظریۂ آبادی کو بدل کر رکھ دیا‘ مالتھس کے مطابق روئے زمین پر انسانی گنتی Geometric Progression سے بڑھتی ہے‘ جبکہ غذائی اجناس کی پیداوار Arithmetic Progressionسے ہو رہی ہے۔اگر انسانی آبادی کو وقتاً فوقتاً پھیلنے سے نہ روکا گیا تو زمین پر کھانے کو کچھ باقی نہیں رہے گا۔ بیسیوں صدی کے بعد بے ہنگم آبادی حقیقتاً کرہ ارض کیلئے سنگین خطرہ ثابت ہوئی۔
عالمی جنگوں کے بعد دنیا نے اپنی ترجیحات کو بدلا اور معاشی ترقی کو انسانی ترقی کے ساتھ منسوب کیا گیا۔ نوبیل انعام یافتہ معیشت دان Sr. Arthur Lewis نے سب سے پہلے انسانی سرمائے کے استعمال کا تصور پیش کیا‘ ان کے 1954ء کے ماڈلEconomic Development with Unlimited supply of Labor کے مطابق ترقی پذیر ممالک کی معیشت دو سیکٹرز پر مشتمل ہوتی ہے‘ ایک سرمایہ دار/ صنعتی سیکٹر اور دوسرا روایتی/ زرعی سیکٹر۔ صنعتی سیکٹر میں تھوڑی مگر باصلاحیت لیبر سے زیادہ پیداوار اور آمدن کمائی جا سکتی ہے‘ جبکہ زرعی سیکٹر میں لیبر زیادہ استعمال ہوتی جبکہ پیداوار اور آمدن نہایت کم ہے۔بلاشبہ پاکستان بھی اس مثالی ماڈل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی معیشت سنوار سکتا ہے بشرطیکہ ہم اپنے انسانوں کو باصلاحیت اور کارآمد بنالیں۔ انہی ماہرین میں ایک بڑا نام پاکستانی سپوت ڈاکٹرمحبوب الحق کا بھی ہے‘ جنہوں نے معاشی مکالمے کو نئے انسانی خدوخال عطا کئے اور ثابت کیا کہ حقیقی معاشی ترقی انسانوں پر خرچ کرنے سے مشروط ہے؛ چنانچہ آج ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں اسی لیے کمزور ہیں کہ وہاں انسانی ترقی نام کی کوئی چیز نہیں‘ جس کی بنیادی وجہ ان ممالک میں آبادی کا بے ہنگم دباؤ ہے‘ جس پر محدود وسائل کے ساتھ بہترین سرمایہ کاری کرنا ممکن نہیں۔
اس وقت پاکستان 23 کروڑ کے لگ بھگ آبادی کے ساتھ دنیا کا پانچواں گنجان آباد ملک ہے‘ 2050ء تک ہماری آبادی 45 کروڑ تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ ماضی میں پاکستان میں آبادی کنٹرول کرنے کی کوششیں سود مند ثابت نہ ہو سکیں‘ 60 کی دہائی میں صدر ایوب خان نے فیملی پلاننگ پروگرام شروع کیا جس پر قدامت پسندحلقوں نے تنقید شروع کر دی اوراس مہم کا پیغام عام آدمی تک نہ پہنچ سکا‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے طبقے نے تو اس پالیسی کو اپنا لیا‘ جن کی آنے والی نسلیں ملک کیلئے سرمایہ بننے کا قوی امکان تھا‘ جبکہ عام اور غریب آدمی اس پالیسی سے انجان رہے اور ملک میں Lopsided and stunted growth ہونے لگی اور نسل در نسل ان پڑھوں کی فوجیں اکٹھی ہوگئیں۔ایلیٹ کلاس کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرونِ ممالک مقیم ہوتے گئے اور پاکستان میں برین ڈرین ہوتاگیا۔ اسی طرح ہماری ہیومن ڈویلپمنٹ اور انسانی ترقی تو دور بلکہ لوگوں میں بنیادی سماجی شعور کی بھی انتہائی قلت پیدا ہوگئی۔ آج یہی انسانی ترقی نہ ہونے کے باعث ہماری لیبر ناکارہ ہے‘ جس سے صنعت‘ زراعت و دیگر شعبہ جات تباہ حال جبکہ معاشی ترقی کا پہیہ جام ہے۔ کینیڈین ماہرِ تعلیم و ماحولیات Margaret Atwood یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آبادی کا بے ہنگم دباؤ ماحولیاتی تباہی‘ معاشی و سماجی مسائل پیدا کرنے کی مرکزی وجہ ہے۔ان کی اس سوچ کا عکس پاکستان میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے جہاں کثیر آبادی کے باعث ہمیں خوراک‘ پانی اور غذائیت کے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ملک میں غربت بڑھ رہی ہے‘ Global Hunger Index میں پاکستان کا 117 ممالک میں 94 واں نمبر ہے‘ ہمارے بچوں میں غذائی نشوونما کی شدید قلت ہے‘ گندگی کے مسائل‘ انسانی آلودگی اورجنگلات میں کمی سے قدرتی ماحول تباہ ہوچکا ہے‘ گھروں کی قلت بڑھنے سے کروڑوں لوگ چھت سے محروم ہیں اورنوجوانوں کو روزگار میسر نہیں۔پاکستان کو 2040ء تک 12 کروڑ ملازمتیں درکار ہوں گی جو ناممکن نظر آتا ہے‘ جبکہ معاشرے میں عدم مساوات‘ عورتوں میں طبی و نفسیاتی مسائل‘ انتظامی بدحالی اور جرائم بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔
ہماری حکومتیں آج تک صحت اور تعلیم پر کوئی ٹھوس سرمایہ کاری نہ کر سکیں‘ ملک میں آج 1300 افراد کیلئے صرف ایک ڈاکٹر ہے‘ ہمارا لڑکھڑاتا نظامِ صحت آج تک پولیو کو قابو نہ کر سکا‘ تو آبادی کو کیسے قابو کرے گا؟ اسی طرح سماجی و معاشی انقلاب لانے کیلئے تعلیمی انقلاب لانا ضروری ہے‘ لیکن پاکستان میں آج بھی دو کروڑ 20 لاکھ بچے سکولوں سے محروم ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم پر جو تھوڑی بہت سرمایہ کاری ہوئی وہ بھی انتہائی غلط ہوئی‘ جہاں ساری توجہ تعلیم تک رسائی پر مرکوز رکھی گئی‘ جبکہ معیار کی فکر ہی نہ کی گئی‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچوں نے نہ گھروں سے کچھ سیکھا اور نہ تعلیمی اداروں سے۔ وہ ممالک جنہوں نے اپنی آبادی کو کنٹرول کیا اور ترقی کی راہ متعین کی‘ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے‘ 50 ء اور 60ء کی دہائی میں چین کی بڑھتی آبادی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی‘ پھر1979ء میں وہاں 'ایک بچہ پالیسی‘متعارف کروائی گئی‘ جس پر عمل نہ کرنے والوں کو جرمانے جبکہ عمل کرنے والوں کو مفت تعلیم‘ طبی سہولتیں و دیگر مراعات دی گئیں۔ یہ پالیسی ایسی کامیاب رہی کہ چین نے 1979ء سے 2011ء تک40کروڑ بچوں کی پیدائش کو روکا اور وہیں سے ترقی کا روڈ میپ تیار کیا۔ بنگلہ دیش کو دیکھیں‘ تقسیم کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی حصے سے زیادہ تھی‘ مگر وہاں حکومت نے علماکو خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق کورسز کروائے‘ جنہوں نے عوام کو کم بچے پیدا کرنے کی رائے دی جس سے آبادی کو کنٹرول کیا گیا۔ کوئی شک نہیں کہ ناکارہ انسانوں کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ پاکستان کی ترقی و سلامتی کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے‘ جس سے نمٹنے کیلئے سنجیدہ اقدامات درکار ہیں۔ عظیم فلسفہ دان افلاطون نے صدیوں پہلے Eugenics کا تصور پیش کیا تھا‘ جس میں تجویز دی گئی کہ بہترانسان کی پیدائش کیلئے بہترین اور معیاری جوڑوں کا انتخاب کیا جائے‘ آج ہمیں بھی اپنے انسانوں کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کیلئے اسی کلیے پر عمل کرنا ہوگا۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ شادی سے قبل مرد اور عورت کی مکمل ٹیسٹنگ کی جائے تاکہ کوئی مرض اگلی نسل تک منتقل نہ ہونے پائے‘جبکہ پیدائش کی حد مقرر کرنے کیلئے قومی سطح پر ایسی جامع پالیسی بنائی جائے‘جسے حکومت مذہبی رہنماؤں اور طبی ماہرین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کا اعتماد حاصل ہو۔اسی طرح برتھ ایجوکیشن کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا چاہیے جو سکول‘ کالجوں کے ساتھ مدرسوں میں بھی پڑھایا جائے۔
آج پوری قوم کی پر اُمید نظریں عمران خان صاحب پر مرکوز ہیں‘ جو 'تبدیلی‘کے نعرے کے ساتھ وزیراعظم بنے تھے اور اپنی تقاریر میں بارہا 'انسانی ترقی‘اور 'آبادی کنٹرول‘کرنے کا تذکرہ کرتے تھے‘ مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اس پیرائے میں اب تک عملاً کوئی واضح کام نہیں کر سکے۔ یہ حقیقت برحق ہے کہ سنگین مسائل کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنا پڑتے ہیں؛چنانچہ وزیراعظم اگر حقیقی معنوں میں ملکی و انسانی ترقی چاہتے ہیں تو انہیں تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ٹھوس فیملی پالیسی بنانے جیسا دلیرانہ قدم اٹھانا ہوگا‘ کیونکہ کثیر آبادی کے چیلنج پر قابو پا کر ہی تمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔