سترہویں صدی کے عظیم فلسفہ دان Thomas Hobbesنے اپنی مشہور زمانہ تحریر Leviathan میں لکھا کہ انسان فطرتاً بدکردار‘ سفاک‘ خود غرض اور جانوروں کی مانند غیر محفوظ ہے‘ جو ایک آزاد‘ بے ہنگم معاشرے میں War of All against Allکی حالت میں جی رہا ہے۔ ہابس نے انسانی حفاظت اور تبدیلی کو کسی عمرانی معاہدے (Social Contract) کے ساتھ مشروط کیا اور حکومتوں(قائدین) کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ دیکھا جائے تو دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام بھی اسی مقصد کیلئے بھیجے گئے تھے‘ جنہوں نے تجدید اور اصلاحات کے پیغام کے ذریعے بھٹکے انسانوں کی فکری اصلاح اور سماجی درستی کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔ یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر اختتام پذیر ہوا‘ جن کی قیادت کے بہترین اوصاف آنے والے قائدین کیلئے مشعلِ راہ بن گئے۔ پیغمبروں کے بعد رہنمائی کا فرض حکمرانِ مملکت کے کندھوں پر آگیا۔ قرونِ وسطیٰ کے بادشاہی ادوار تک فلسفۂ حکمرانی نہایت حاکمانہ رہا‘ جب انسان فقط بادشاہوں کے غیرمشروط غلام ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد کی دنیا میں John Stuart Millاور Jeremy Bentham جیسے روشن خیال مفکرین اور Voltaire جیسی انقلابی شخصیات نے جنم لیا‘جن کی سوچ نے پسے ہوئے انسان کی زندگی میں شعور‘ نظریہ اور تبدیلی کی فکرپیدا کی جو بعد میں ہر جگہ قائدین کے روپ میں سامنے آئے۔
افلاطون نے اپنی معروف کتاب Republicمیں لکھا کہ ریاست کا گارڈین سب انسانوں میں سے بہترین اور مثالی ہونا چاہیے‘ جو فطری طور پر نیک‘ صالح اور بے غرض ہو۔ عالمی تاریخ بھی یہی باور کراتی ہے کہ جن قوموں کو باصلاحیت‘ نظریاتی اور بے غرض قیادت نصیب ہوئی وہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوئیں اور جن کی قیادت اَنا پرست‘ کرپٹ اور حکمت کے فقدان کا شکار تھی وہ قومیں الجھنوں میں پھنس کر معاشی اور معاشرتی زوال کا شکار ہوئیں۔ امریکہ کی مثال لیں تو جارج واشنگٹن اپنے ٹھوس نظریے کے بل پر وہاں انقلاب لے آئے‘ ابراہام لنکن اپنے جذبے سے عوامی دلوں میں گھر کر گئے اور بابائے جمہوریت قرار پائے‘ روزویلٹ نے اپنی منصوبہ بندی سے امریکہ کو گریٹ ڈپریشن سے نجات دلا دی‘ اسی طرح پوری دنیا میں سیاہ فام افراد آج بھی غلامی کی پہچان ہوتے اگر انہیں مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا جیسے عظیم لیڈر نصیب نہ ہوتے۔ سوچا بھی نہ جا سکتا تھا کہ 1945ء میں ایٹمی قیامت کا شکار ہونے والے ہیروشیما اور ناگاساکی پھر آباد ہو جائیں گے یا دوسری جنگ عظیم کے بعد لندن جو کھنڈر بن گیا تھا‘ دوبارہ عروج حاصل کر لے گا‘ مگر وہاں ونسٹن چرچل کی قیادت نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اسی طرح Deng Xioping کی لائی گئی معاشی اور معاشرتی اصلاحات کی بدولت چین نے ترقی کی راہ متعین کی۔ یہ برحق ہے کہ قابل قیادت قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے‘ مگر قیادت کے غلط فیصلے قوموں کو رسوا بھی کر سکتے ہیں جیسے حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع فیصلوں‘ نظام اور آئین کے ساتھ جنگ کی کوشش اور ہٹ دھرمی نے 150 سالہ امریکی جمہوری اقدار خاک میں ملا دیں۔ معروف معیشت دان جے اے رابنسن نے اپنی کتاب Why Nations Fail میں لکھا کہ جن ممالک کی قیادت بے غرض ہو اور میرٹ پر آئے وہ ترقی کرجاتے ہیں اوروہ ممالک جہاں سیاست اور معیشت چند افراد (اشرافیہ) کے ہاتھوں میں کھیلتی رہے وہ غربت کا شکار ہوتے ہیں۔ مصنف نے نائیجیریا کی مثال دی جہاں برسوں سے برسراقتدار مفاد پرست قیادت کی ترجیحات میں ملکی ترقی کا عنصر شامل نہیں‘اسی طرح افغانستان کو دیکھ لیں جو 60ئ‘70ء کی دہائی تک معاشی ترقی کر رہا تھا مگر طالبان آئے تو سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ آج ایسی ہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے۔
یہ ہمارے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور مضبوط نظریات ہی تھے جن کے سامنے انگریزوں کو سرنگوں ہونا پڑا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد زیادہ عرصہ حیات نہ رہے مگر اپنی 11 اگست 1947ء کی تقریر میں انہوں نے سادہ اور آسان الفاظ میں قوم کو روشن مستقبل کی راہ دکھا دی تھی‘ وہ کیسا اچھا راستہ تھا‘ راست بازی کا ‘ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا‘ عوام کو اہمیت دینے کا‘ مگر افسوس قائدکا وہ پاکستان نجانے کہاں کھو گیا؟ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد تو جیسے قیادت کا مطلب و مقصد ہی یکسر بدل گیا‘ قیادت جو ایک اجتماعی سوچ اور کوشش کا نام تھا وہ فقط انفرادی آمریت تک محدود ہوگئی اورعوامی اصلاح کے جذبے کی جگہ اقتدارکی ہوس نے لے لی۔ بلاشبہ 60ء کی دہائی میں ملک معاشی طور پر مضبوط ہوا مگر تب کی قیادت نے بھی جو دستور اور بنیادی جمہوریتوں کا نظام قائم کیا اس کا مقصد ذاتی اقتدار کا دوام تھا۔پھر جمہوریت کا راج آیا ذوالفقارعلی بھٹو نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا مگر عوام کو کچھ نہ دے سکے۔ بڑی صنعتوں کی نیشنلائزیشن بھی اسی قیادت کا قابلِ تنقید اقدام تھا‘ کسانوں اور زمینداروں‘ مزدوروں اور مل مالکان میں کشمکش پیدا ہوئی اور معاشی ترقی رک گئی۔ ضیا دور میں بھی قیادت اپنی ذاتی سوچ پر ہی افغان جنگ کا حصہ بنی اور ملک میں دہشتگردی کو خود دعوت دی‘ جس ناسور سے ہم آج تک مکمل چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے۔ بینظیر اور نواز شریف کے ادوار میں خوردبرد‘ لوٹ مار‘ اقرباپروری اور کنبہ پروری کا بازار گرم رہا۔ صاف پانی سے لے کر عوامی ٹرانسپورٹ کے منصوبوں تک کرپشن ہوتی رہی‘ جبکہ میثاق ِجمہوریت کے ذریعے اقتدار کی بندربانٹ اور باریوں کا نظام بھی بنایا گیا۔ کوئی شک نہیں کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان ملک میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں‘ مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بیٹھے ان کے '' تبدیلی کے گورکنوں‘‘ میں کوئی قابلیت‘ تعلیم ‘ تربیت اور تجربہ نہیں جس سے وہ تبدیلی لا سکیں۔ دیکھا جائے تو جمہوری ادوار ہمارے لیے زیادہ عبرتناک ثابت ہوئے‘ جمہوریت نے فقط ان نام نہاد قائدین کو جنم دیا جن پر آج کرپشن کے سنگین الزامات ہیں‘ جو ریاست کو ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے لوٹتے اور اسے تقسیم کرنے کے نعرے لگاتے رہے۔ دراصل جمہوریت میں سیاسی نرسری مقامی حکومتیں ہوتی ہیں جہاں سے نئے لیڈر زآتے ہیں‘ مگر اول تو ملک میں بااختیار مقامی حکومتیں کبھی بنی ہی نہیں‘ اور جب کبھی مقامی ادارے بنے تو ان کو بھی فقط سیاسی مقاصد اور مفادات کیلئے استعمال کیا گیا۔
مشہور کہاوت ہے کہ A true leader always leads by example،اس سبق کا انتہائی غلط خلاصہ کوئی ہمارے حکمرانوں سے سیکھے جنہوں نے صرف کرپشن اور لوٹ مار کی مثالیں بنائیں‘جنہیں عوامی فلاح سے کوئی سروکار نہیں‘ صرف اقتدار کا لالچ اور سرکاری خرچے کی چاہ ہے۔ کالے دھن پر پلنے والے یہ تمام نام نہاد قائدین ملک کے مجرم ہیں‘ جو خود تو کرپٹ ہیں ہی مگر ساتھ ہی قوم کو بھی کرپٹ کر چکے ہیں۔یہ لوگ وطن کو اندھیر نگری میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں‘ ہمارا سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی کلچر تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں‘ چوری‘بے ایمانی اور بدعنوانی عروج تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں‘ ہمیں بحیثیت قوم بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی نیت سے لے کر عمل تک‘ ان کے منصب سے لے کر مقصدتک‘ کام سے لے کر احتساب تک‘ ہر ایک شے جھوٹ‘ دھوکے اور فریب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔نہ انہیں کوئی گرفت میں لا سکتا ہے ‘ نہ کوئی روک سکتا ہے‘ نہ کوئی احساس دلا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی بدل سکتا ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ ہم کسی فلاحی ریاست میں نہیں بلکہ تھامس ہابس کے اُسی بے بس اور جاہل معاشرے میں سانس لیتے ہیں جہاں قیادت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ قومی بربادی کا یہ محاذ اب ان کی اگلی نسل سنبھال چکی ہے‘ جن کی نہ کوئی تربیت نہ قابلیت اور نہ اہلیت ہے۔اگر اب اقتدار ان کے ہاتھ میں چلا گیا تو اس قوم کا خدا ہی حافظ!