فی کس جی ڈی پی (Per Capita GDP) ایک ایسا معاشی پیمانہ ہے جو کسی ملک کی مجموعی معاشی پیداوار کو اس کی آبادی پر تقسیم کرتا ہے۔ 22 کروڑ کے لگ بھگ نفوس پر مشتمل پاکستان کا کل جی ڈی پی 278.2 ارب ڈالر ہے، اور 1284 ڈالر فی کس تناسب کے ساتھ ہم دنیا میں 134ویں نمبر پر ہیں، جبکہ 1971 میں ہم سے جدا ہونے والے بنگلہ دیش کا فی کس تناسب آج 1855 ڈالر ہے جبکہ بھارت کا 2099 ڈالر، اور ویتنام کا 2715 ڈالر ہے۔ یقینا یہ سوال سب کے ذہنوں میں گردش کرتے ہوں گے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار آخر انتہائی کم کیوں ہے؟ کیوں ہمارا شمار کسی معاشی مقابلے میں نہیں ہوتا؟ ہمیں تو اپنے زورِ آبادی کو بروئے کار لاتے ہوئے چین اور انڈونیشیا جیسا معاشی انقلاب برپا کر دینا چاہیے تھا مگر ایسا ممکن کیوں نہ ہو سکا؟ یوں تو ان محرومیوں کی کئی وجوہات ہیں، مگر ایک بڑی اور قابل فکر وجہ ملک کی نصف آبادی یعنی ہماری خواتین کا معاشی دھارے میں ٹھوس کردار نہ ہونا ہے۔ حیران کن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے کل جی ڈی پی میں خواتین 20 فیصد سے بھی کم کی حصہ دار ہیں، جبکہ چین کے جی ڈی پی میں خواتین کا حصہ 41 فیصد ہے، امریکہ میں 40 فیصد، یورپ میں 41 فیصد، جبکہ وسطی افریقہ کے ممالک میں بھی خواتین 40 فیصد کی حصہ دار ہیں۔
ادوارِ قدیمہ خواتین کی معاشرتی پسماندگی اور معاشی استحصال کی تاریخ سے بھرے پڑے ہیں، خواہ وہ دور حاضر کے ترقی یافتہ یورپ اور امریکہ ہوں یا کوئی ترقی پذیر علاقے، ہر جگہ عورت کمزور، ناتجربہ کار اور غلام تصور کی جاتی تھی۔ اندازہ اس حقیقت سے لگا لیں کہ آج سے محض 100 سال قبل تک امریکہ اور برطانیہ‘ جو روشن خیالی اور ترقی کی سیڑھی چڑھ چکے تھے‘ میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہ تھا۔ پھر بیسویں صدی میں چلنے والی فیمنزم کی مختلف لہروں اور سالہا سال بڑھتی نسوانی حقوق کی جدوجہد نے خواتین کو بااختیار بنانے کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد ابھرتے ہوئے معاشی دباؤ اور دنیا میں اقتصادیات کی جنگ نے حالات کو نیا رخ دیا اور تمام ممالک نے معاشی و سماجی ترقی کیلئے خواتین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھا اور انہیں قومی دھارے میں شامل کیا گیا۔ چند ممالک‘ جہاں خواتین کی بڑی تعداد افرادی قوت میں حصہ دار ہے‘ یہ ہیں: افریقی ملک زمبابوے کی کل لیبر فورس میں خواتین 53 فیصد ہیں، امریکہ میں یہ تعداد 47 فیصد ہے، فرانس میں 48 فیصد، کینیڈا میں 47 فیصد، چین میں 49 فیصد، بھارت میں 26 جبکہ پاکستان میں بمشکل 21 فیصد ہے۔
دین اسلام نے خواتین کو مردوں کے برابر معاشی و معاشرتی درجات عطا کیے ہیں، مگر افسوس کہ سالوں سے یہاں خواتین کو یہ درجات نہیں مل رہے۔ ہم نے دین کی غلط تشریح کرتے ہوئے معاشرے میں انتہا پسندی کو پروان چڑھایا۔ امتیازی رویے تو پہلے سے موجود تھے، مگر معاشرتی ناسوروں، ماضی کی خود پرست قیادتوں کے انتہا پسندانہ فیصلوں، اور خود ساختہ سماجی برائیوں نے حالات میں مزید بگاڑ پیدا کیا۔ ایک زمانہ تھا جب پاکستانی خواتین ہر شعبۂ زندگی میں شامل ہو رہی تھیں، پچاس ساٹھ سال پہلے لاہور اور کراچی کے لوگ ہم سے کہیں زیادہ روشن خیال اور بہادر تھے‘ جو نہ صرف اپنی بیٹیوں کو پڑھا رہے تھے بلکہ انہیں مختلف سماجی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت بھی دے رہے تھے۔ مگر آج کے والدین کی ایک بڑی تعداد خوفزدہ ہے، جس سے خواتین کی ترقی رک گئی ہے۔ وہ چیدہ وجوہات جو پاکستانی خواتین کی معاشی دھارے میں شمولیت کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں: سب سے بڑی رکاوٹ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات اور دفتر کا غیر محفوظ ماحول ہے۔ ایک سروے کے مطابق لاہور جیسے جدید شہر میں بھی ملازمت پیشہ 90 فیصد خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ اور بس سٹاپ پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب دفتر میں مرد ساتھیوں کی خواتین کے ساتھ ہراسگی کی کوئی خبر، تصویر یا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل نہ ہو۔ یہ واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں لا اینڈ آرڈر نام کی کوئی چیز موجود نہیں، قانون پہ قانون تو موجود ہیں مگر عملدرآمد صفر ہے۔ قانون کی بالادستی کی مثال لینا ہے تو مغربی ممالک سے لیں جہاں لڑکی اگر رات کے پچھلے پہر، تن تنہا، بس میں سفر کر رہی ہو، تب بھی کسی کی مجال نہیں کہ اس کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے، جبکہ ہمارے معاشرے میں تو چاردیواری میں بیٹھی باپردہ خواتین بھی محفوظ نہیں اور ہمارا سماجی اور نظامِ عدل بھی اس خرابی پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ اگر ماضی میں ہراسگی اور زیادتی کے واقعات میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں ملی ہوتیں تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے، جیسی سزائیں دنیا کی جانی مانی شخصیات کو ملیں۔ ساتھی اداکاراؤں کو ہراساں کرنے پر ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروے ونسٹن کو 23 سال قید کی سزا دی گئی۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کو بھی وائٹ ہاؤس کی ورکر مونیکا لیونسکی کے ساتھ زیادتی کے سخت نتائج بھگتنا پڑے تھے۔ پوری دنیا میں چلنے والی MeToo مہم میں بھی اب تک درجنوں نامور شخصیات قانون کے کٹہرے میں آ چکی ہیں، مگر نجانے یہاں قانون کی بالادستی کا ایسا مثالی ماحول کب قائم ہوگا؟
ہماری خواتین کی پسماندگی کی ایک اور بڑی وجہ انہیں تعلیم اور ملازمت/ کاروبار کی اجازت نہ ملنا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کی 70 فیصد خواتین چھ برس سے بھی کم تعلیم یافتہ ہیں، ان میں زیادہ پسماندہ پشتون خواتین ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 1 فیصد خواتین انٹرپرینیور ہیں جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح ہے۔ ہمارے ہاں خواتین کے کاروبار کرنے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ چند قدامت پسند طبقات عورت کے کاروبار کرنے یا سربراہی کرنے کو مذہب سے بھی جوڑتے ہیں، مگر کیا ام المومنین حضرت خدیجہؓ تجارت نہیں کرتی تھیں؟ کیا صدیوں پہلے مسلمان خاتون رضیہ سلطان نے پوری سلطنت کی سربراہی نہیں کی تھی؟ چنانچہ اس کو خود ساختہ مذہبی رنگ دینا مناسب نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی بیشتر معروف کمپنیاں خواتین کی ہی سربراہی میں کامیاب ترین ہیں، جن میں General Motors, United Parcel Service اور Anthem.Inc چند نام ہیں، جبکہ چین کے بنجر علاقے Ningxia میں 1982 میں خواتین کے لگائے انگوروں کے پودے آج ملک کے سب سے بڑے باغات بن چکے ہیں۔ چینی خواتین نے صحرا کو گلستان بنا ڈالا۔ آج اس پھل سے زرمبادلہ کمایا جارہا ہے۔
عالمی بینک کی ایک اور رپورٹ واضح کرتی ہے کہ پاکستانی معاشی نمو کا 30 فیصد امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ضائع ہوتا ہے، جس پر قابو پاکر پاکستان اپنی معیشت سنوار سکتا ہے جیسے بنگلہ دیش نے خواتین کو عملی زندگی میں بھرپور کردار ادا کرنے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے، جو اب چاردیواری سے باہر نکل کر بھی کام کررہی ہیں۔ وہاں ریڈی میڈ گارمنٹس، خوراک کی پروسیسنگ، چمڑے، دستکاری اور چائے کی فیکٹریوں میں خواتین کی بڑی تعداد ملازمت ہے۔ اسی طرح عرب ممالک بھی معاشی دھارے میں بتدریج خواتین کی شمولیت یقینی بنا رہے ہیں۔ ہمیں اپنی خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں کیریئر کونسلنگ سینٹرز بنانے چاہئیں جہاں لڑکیوں کو پڑھائی کے بعد ملازمت یا نیا کاروبار شروع کرنے کی تربیت اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق شعبہ جات اختیار کرنے میں مدد ملے۔ آج سب سے بڑی ضرروت یہ ہے کہ خواتین کے لیے ملازمتیں پیدا کی جائیں۔ خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں خواتین بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہیں، جیسے آئی ٹی سیکٹر، فیشن ڈیزائننگ، گارڈننگ، لیدر ڈیزائننگ، سٹیچنگ وغیرہ۔ خواتین کی معاشی دھارے میں شمولیت کے بغیر پاکستان کا معاشی طاقت بننے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔