ڈیڑھ سال ہونے کو ہے کہ مہلک وبا کورونا کی وحشت پورے عالم پر طاری ہے۔ تمام ممالک اپنے سر پر منڈلاتے اس جان لیوا مرض کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں۔ ہر سو غیریقینی کی کیفیت اور خوف و ہراس کے سائے ہیں۔ دنیا بھر میں اب تک 15 کروڑ سے زائد افراد موذی وبا کا شکار ہوئے‘ جن میں ساڑھے 31 لاکھ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ متاثرہ ممالک میں سر فہرست امریکہ ہے جہاں مجموعی کیس 3 کروڑ 30 لاکھ جبکہ اموات 5 لاکھ 89 ہزار ہیں‘ دوسرے نمبر پر بھارت ہے جہاں آج کل قیامت صغریٰ برپا ہے۔ روتے‘ سسکتے‘ گڑگڑاتے عوام سڑکوں پر اپنی جانیں کھو رہے ہیں‘ بھاگتے دوڑتے تیمار دار اپنے عزیزوں کے لئے سانسیں ڈھونڈ رہے ہیں‘ ڈاکٹرز مریضوں کا معائنہ کرنے سے انکاری ہیں‘ جبکہ شمشان گھاٹ کم پڑ چکے ہیں‘ وہاں اب تک 1 کروڑ 87 لاکھ افراد متاثر اور 2 لاکھ 8 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں‘ جبکہ تیسرے نمبر پر برازیل ہے جہاں اب تک قریب ڈیڑھ کروڑ متاثرین اور 4 لاکھ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ پوری دنیا میں لاک ڈاؤنز اور دیگر پابندیوں کے باعث سیاحت‘ آمد و رفت و دیگر صنعتوں کا پہیہ رک جانے سے عالمی معیشت بھی شدید زوال کا شکار ہے۔ اکیسویں صدی کی جدید‘ مادہ پرست اور جنگی وسائل سے بھرپور دنیا کو قدرت کی موجودگی اور انسانی زندگی کی اہمیت کا احساس دلانا ناگزیر ہو چکا تھا‘ شاید اسی لیے کورونا ایک آزمائش کی صورت میں انسان پر نازل ہوا‘ جس نے دنیا کو بتا دیا کہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون‘ قیمتی وسائل اور سرمائے کو انسانی فلاح کے بجائے موت اور تباہی کے لئے صرف کرنا ٹھیک ترجیحات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میزائلوں‘ ٹینکوں اور جنگی ٹیکنالوجی کو چھوڑ کر صحت‘ ویکسین اور طبی سہولیات کی متلاشی ہے۔ آج تمام ممالک کے عوام اور حکمران جان چکے ہیں کہ ان کی اصل ضروریات کیا ہیں۔
پاکستان میں بھی کورونا کی صورت حال پریشان کن ہے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اب تک 8 لاکھ 20 ہزار کیسز سامنے آ چکے ہیں‘ جن میں 17 ہزار 8 سو افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں‘ ملک میں آکسیجن کی کل پیداوار کا 90 فیصد زیر استعمال ہے اور اگر ہسپتالوں پر بوجھ یونہی بڑھتا رہا تو اندیشہ ہے کہ جلد حالات بھارت جیسے ہو جائیں گے۔ ذہن یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ خدانخواستہ اس وبا نے بھارت جیسی صورت اختیار کر لی تو ہمارا کیا بنے گا؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ پاکستان میں ہمیشہ شعبۂ صحت کو نظر انداز کرتے ہوئے دیگر شعبہ جات کو مالی و ترقیاتی اہمیت دی گئی۔ اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پاکستان اپنی کل قومی پیداوار کا فقط 3.2 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے‘ جبکہ رواں مالی سال کا 72 کھرب 94 ارب روپے کا بجٹ جسے 'کورونا بجٹ‘کہا گیا تھا‘ میں بھی طبی سہولیات کیلئے فقط 75 ارب روپے مختص تھے۔ یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ وبا آئندہ دنوں میں کیا تباہی مچانے والی ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے صحت کا مضبوط سسٹم کس حد تک ناگزیر ہے۔
موجودہ صورت حال میں ٹھوس نظام صحت ہی ملک کی اولین ضرورت ہے‘ کیونکہ کورونا پر قابو پانا نظام صحت کی قابلیت سے مشروط ہو چکا ہے۔ اس جنگ کے فرنٹ لائن سولجرز ہمارے ڈاکٹرز ہیں جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر محدود وسائل کے ساتھ انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اب تک ملک میں سینکڑوں ڈاکٹرز اور طبی عملے کے ارکان کورونا کے مریضوں کی جان بچاتے ہوئے اپنی جانیں گنوا چکے ہیں‘ مگر موت کا خوف بھی ان کے حوصلے پست نہیں کر سکا۔ ہمارے ایک عزیز حال ہی میں لاہور کے سرکاری ہسپتال کے کورونا وارڈ میں آکسیجن بیڈ پر کئی شب و روز گزار کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں ڈاکٹرز اور عملے کے ارکان انسان کے روپ میں فرشتے تھے۔ مریضوں کے چیک اَپ سے لے کر کھانے تک تمام سہولیات باقاعدگی سے دی جاتی تھیں جبکہ نرسوں اور ڈاکٹروں سے بات کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ بغیر کسی اضافی تنخواہ کے کورونا وارڈ میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح ایکسپو سنٹر لاہور میں بھی جس خوش اسلوبی کے ساتھ کورونا ویکسین لگائی جا رہی ہے شاید ہی پاکستان کی طبی تاریخ میں عوام کو ایسی سہولت میسر آئی ہو۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کی بے لوث خدمات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اقبال کا یہ شعر شاید انہی کے لئے تھا:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
اب کچھ بات کرتے ہیں ملک میں ویکسی نیشن کے عمل کی تو 22 کروڑ افراد پر مشتمل پاکستان میں اب تک 22 لاکھ سے کچھ زائد افراد ہی ویکسین لگوا سکے ہیں۔ سرکاری سطح پر فی الوقت 50 سال سے زائد عمر کے افراد کو ویکسین لگانے کا عمل جاری ہے‘ جبکہ نوجوانوں کی باری آنے میں مزید کتنا وقت لگے گا کچھ اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر سو میں سے 70 افراد کو ویکسین کی دو یا ایک خوراک لازمی لگ چکی ہے‘ بھارت میں بھی یہ تعداد 10 ہو چکی ہے‘ جبکہ پاکستان میں یہ تعداد بمشکل 0.6 ہے۔ دراصل پاکستان میں سرکاری سطح پر ویکسین کی عدم دستیابی کے باعث یہ عمل سست روی کا شکار ہے اور اسی کی وجہ سے عوام مہنگی پرائیویٹ ویکسین لگوانے پر مجبور ہیں۔ بھارت ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری کے عمل کو وسعت دے رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں سرکار نے 18 سال سے بڑی عمر کے تمام افراد کو فوری اور فری ویکسین لگانے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ ہماری حکومتی مشینری فی الوقت ویکسین درآمد کرنے پر ہی انحصار کیے ہوئے ہے۔ ضروری ہے کہ ملک میں ویکسی نیشن کا عمل تیز کیا جائے۔ بلاشبہ اس مقصد کیلئے این سی او سی قابلِ قدر خدمات سرانجام دے رہا ہے‘ مگر حکومت کو نجی شعبہ اور ملک کی بڑی کاروباری شخصیات کو بھی آن بورڈ لینا چاہیے کہ وہ بھی ویکسین خرید کر انسانی ہمدردی کے تحت عوام تک اس کی سستی رسائی یقینی بنائیں‘ کیونکہ کورونا سے بچاؤ کی ذمہ داری صرف ریاست پر عائد نہیں ہوتی بلکہ سب کو مل کر یہ مشترکہ جنگ لڑنا ہو گی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم ہاؤس میں خصوصی کنٹرول روم بھی قائم کیا جائے جہاں روزانہ کی بنیاد پر سرکاری حکام‘ ماہرین صحت اور معیشت اور صنعت کار سب مل کر ملک میں آکسیجن اور ویکسین کی پیداوار اور فراہمی‘ کورونا کی صورتحال کا جائزہ لیں اور مؤثر منصوبہ بندی کریں۔ آکسیجن کی پیداوار کے لئے سٹیل ملز سمیت دیگر تمام غیر فعال صنعتوں کے آکسیجن پلانٹ بحال کرنے چاہئیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور کورونا کے علاج کیلئے ضروری ادویات کی مسلسل فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔ حال ہی میں ڈریپ کی جانب سے مقامی سطح پر بنائے گئے وینٹی لیٹر کی منظوری خوش آئند ہے۔ اب ان وینٹی لیٹرز کی پیداوار تیز کی جائے۔ اسی طرح ملک میں کووڈ ویکسی نیشن کی رجسٹریشن کیلئے 1166 کا ڈیٹا بیس تو بنا دیا گیا مگر متعدد افراد جو ویکسین لگوا بھی چکے ہیں ان کی انٹری نہیں ہو پا رہی‘ جو کوئی مشکل یا پیچیدہ عمل نہیں لہٰذا این سی او سی کو چاہیے کہ ہر صورت ضلعی حکومتوں کے ذریعے کورونا ویکسی نیشن کی درست ڈیٹا انٹری یقینی بنائے۔ اسی طرح ملک میں لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکومت کو جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی اور سخت گیر لاک ڈائون کے بجائے سمارٹ لاک ڈاؤن پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہوگا‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ غریب عوام کورونا سے بچ کر بھوک سے مر جائیں۔ اسی طرح فرنٹ لائن سپاہیوں یعنی ڈاکٹرز اور طبی عملے کی ہر صورت حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں خصوصی الاؤنس دیے جائیں تاکہ وہ مزید جوش و جذبے سے انسانیت کی خدمت کر سکیں۔ اب بیان بازیوں سے آگے بڑھ کر عملی کام کا وقت ہے‘ کیونکہ کورونا ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ اب اگر جلد ہی اس وبا سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو بہت دیر ہو جائے گی۔