عالمگیر وبا کورونا کے باعث پوری دنیا میں خوف اور غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ لاپروائی‘ غفلت اور عدم منصوبہ بندی ہی کا نتیجہ ہے کہ متعدد ممالک دوسری اور کوئی تیسری لہر میں اس مہلک وبا کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہیں۔ علم ِطب کے مطابق دنیا میں رونما ہونے و الے وبائی امراض کی شدت اور شرح اموات وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے مگر یہ ایسا انوکھا وائرس ہے جس کی ہر نئی قسم پچھلی اقسام سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔یہ وبا کب جان چھوڑے گی‘ کبھی ختم ہوگی‘کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مگر یہ تو حقیقت ہے کہ کورونا کی آزمائش نے اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔ مغربی ممالک جو ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں وہاں بھی المناک مناظر دیکھنے کو ملے‘ برطانیہ‘ اٹلی‘ سپین‘ فرانس‘ جرمنی ہر جگہ لاشوں کے انبار لگے رہے۔ سپر پاور امریکہ کا سپر نظامِ صحت بھی اس بلائے عظیم کے سامنے ڈھیر ہوگیا۔برازیل کے ہر گھر پر بھی اس آفت کا وار ہواجہاں روزانہ ہزاروں افراد زندگی کی بازی ہار رہے ہیں۔ ایک قیامت بھارت میں بھی برپا ہے جہاں گزشتہ دو ہفتوں سے روزانہ تین لاکھ سے زائد مثبت کیسز جبکہ ہزاروں اموات کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ آکسیجن نایاب ہو چکی ہے ‘ لوگ سڑکوں پر اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں‘ دارالحکومت نئی دہلی ‘ مہاراشٹراور گجرات کے عوام ہر لمحہ موت کے خوف میں جی رہے ہیں۔ جن ممالک نے اس وبا کو شروعات میں سنجیدگی سے لیا وہ اس کے نقصان سے نسبتاً محفوظ رہے اور جنہوں نے بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا گویا تباہی ان کامقدر بن گئی۔
کورونا کے خلاف مشترکہ جنگ میں تمام ممالک کی خواہش یہی ہے کہ جلد از جلد اس وبا پر قابو پا لیا جائے اور وائرس پر قابو پانے کا واحد حل احتیاط اور زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ویکسین لگانے سے مشروط ہے۔ آج دنیا کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کئی ممالک ویکسی نیشن کی دوڑ میں کہیں آگے نکل چکے ہیں‘ برطانیہ میں 100 میں سے 76 افراد ‘ امریکہ میں 75‘ اور سوا ارب آبادی والے بھارت میں 12 افراد کو ویکسین لگ چکی ہے‘ جبکہ وطنِ عزیز پاکستان میں یہ تعداد بمشکل 1.4 افراد تک پہنچ پائی ہے۔ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات یہ ہدف 100 فیصد حاصل کر چکے ہیں حتیٰ کہ مغربی ممالک اب کورونا کے علاج کی جدید طریقے بھی اپنا رہے ہیں‘ جس طرح BinaxNow کے ذریعے بغیر کسی آلے کے کورونا ٹیسٹ کے نتائج 15 منٹ میں حاصل ہو جاتے ہیں‘ جس کے بعد موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے کورونا مریضوں کو صحتمند زندگی کے حصول تک رہنمائی ملتی رہتی ہے۔ جن ممالک نے ترجیحی بنیادوں پر کورونا ویکسی نیشن کی ان کو اب اس کا ثمر بھی مل رہا ہے۔ چین کا صوبہ ووہان جہاں سے یہ وبا پھوٹی تھی‘ وہاں لوگ ویکسین لگوانے کے بعد معمولاتِ زندگی دوبارہ شروع کر چکے ہیں‘ تہوار اور دیگر تقریبات منعقد ہو رہی ہیں‘ مگر وہاں اس کامیابی کا سہرا حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کے سر بھی جاتا ہے جنہوں نے احتیاط برتنے ‘بالخصوص ماسک کے استعمال میں کوئی کوتاہی نہ کی‘پاکستان کے عوام سے ایسی مثالی احتیاط کی توقع رکھنا ایک خواب ہے۔ اسی طرح برطانیہ جہاں چند ہفتے قبل قیامت خیز سماں تھاوہاں کے لیورپول اور بریڈفورڈ کے علاقوں میں لاک ڈاؤن ختم ہو گیا ہے‘ کاروبار‘ ریسٹورنٹ اور جم خانے معمول کے مطابق کھل گئے ہیںجبکہ برطانوی حکومت نے 12 جون تک تمام پابندیاں اٹھانے کی امید ظاہر کر دی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں کورونا کے خلاف جنگ میں جو بائیڈن سرکار کی گورننس بھی قابلِ تعریف ہے‘ نئے صدر نے صدارت کے پہلے 100 روز میں ویکسین کی 100 ملین خوراکیں لگانے کا ہدف رکھا تھا جو کہ اپنی مقررہ تاریخ سے ایک ماہ پہلے ہی پورا کر لیا گیا‘ اور اب جوبائیڈن پرامید ہیں کہ چار جولائی (امریکہ کے یومِ آزادی) سے قبل ملک کے 70 فیصد بالغوں کی ویکسی نیشن کر لیں گے۔امریکہ میں ویکسی نیشن کا عمل تیز ہونے سے گرتی ہوئی سٹاک مارکیٹ میں زبردست اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ ہاؤسنگ سیکٹر میں بھی بے مثال تیزی آرہی ہے۔ عالمی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی بھرپور کوششوں اور ترجیحات کے باعث رواں سال کے اختتام تک اس وبا سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے جبکہ ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں ویکسی نیشن کا عمل مکمل ہونے کیلئے 2023ء تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں آج کل کورونا وبا کی شدت ہے مگر پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ مضبوط نظامِ صحت ہے اور نہ ہی اس مرض کی خاطر خواہ ویکسین دستیاب ہے۔سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 22 کروڑ آبادی والا پاکستان اب تک ویکسین کی فقط نصف کروڑ خوراکیں ہی حاصل کر پایا ہے‘ جس میں بھی تقریباًبتیس لاکھ خوراکیں عوام کو لگ چکی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے ویکسین ڈیٹا بیس کے مطابق دنیا کے وہ 139 ممالک جہاں ویکسی نیشن ہو رہی ہے پاکستان کا ان میں 119 واں نمبر ہے جبکہ ہمیں اپنے بالغوں کیلئے 8 کروڑ خوراکیں ضروری درکار ہیں مگر وہ کب ‘ کیسے اور کہاں سے آئیں گی؟ اس حوالے سے نہ کوئی ٹھوس اور جامع پالیسی موجود ہے اور نہ کوئی خاص تیاری نظر آتی ہے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہر شہر میں ہسپتالوں کی گنجائش ختم ہونے کو ہے‘ تمام وینٹی لیٹرز زیر استعمال آچکے ہیں‘ آکسیجن کی پیداوار کا 90 فیصد حصہ استعمال ہو رہا ہے‘ ضروری ادویات اور لائف سیونگ انجکشنز نایاب ہو چکے ہیں؛چنانچہ احتیاط نہ کی گئی اور بروقت مناسب انتظامات نہ ہوئے تو خدا نخواستہ حالات تشویشناک صورت اختیار کر سکتے ہیں ۔ بھارت کے پاس تو پھر اپنے عوام کیلئے ویکسین موجود ہے‘ جہاں احمدآباد میں آسٹرا زینکا اور گووا میں فائزر ویکسین مقامی سطح پر تیار ہو رہی ہیں مگر پاکستان کے پاس اس وبا کی بدترین صورتحال سے نمٹنے کیلئے ماسوائے دعاؤں کے کچھ بھی نہیں۔
آج ہمارے حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سب سے پہلے کورونا پر قابو پایا جائے۔ بلاشبہ کورونا کی پہلی لہر میں دنیا پاکستان کے اقدامات کی معترف رہی مگر تیسری لہر میں سرکار سے لے کر عوام تک ہر کوئی لاپروائی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ملک بھر میں کورونا ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے ویکسین کے حصول‘ آکسیجن‘ وینٹی لیٹرز اور ضروری ادویات کی پیداوار اور تسلسل کے ساتھ فراہمی کو ترجیح بنانا ہوگا اورقومی وسائل کا بڑا حصہ کورونا ویکسی نیشن میں استعمال کرکے وبا کا زور توڑنا ہوگا۔ اس کیلئے حکومت کو نجی شعبے اور بڑی کاروباری شخصیات کو آن بورڈ لینا چاہیے تاکہ وہ بھی ویکسین خرید کر قومی خدمت کا ثبوت دیتے ہوئے عوام کو مناسب داموں میں ویکسین لگائیں۔اسی طرح ہمارے طبی اداروں کو چاہیے کہ مقامی سطح پر ویکسین کی فوری تیاری کیلئے حکمت عملی بنائیں اور اپنے تمام عوام کیلئے ویکسین کی پیداوار یقینی بنائیں۔اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران حکومت اشیائے خورو نوش کی سپلائی چین کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے مہنگائی پر قابو رکھے‘ یہ نہ ہو کہ کورونا سے بچ جانے والے غریب عوام غذائی قلت اور مہنگائی کی چکی میں پس کر مر جائیں۔
الغرض آج پوری دنیا کورونا کے خلاف حالتِ جنگ میں ہے‘ بھارت کا خوفناک منظر ہمارے سامنے ہے‘ مگر افسوس کہ ہم اس سے کچھ سیکھ نہیں رہے۔ ہر ایک ملک ویکسین کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے مگر ہمارے حکمران اور سیاستدان ووٹوں کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔خداراہوش کے ناخن لیں‘عوام کی زندگیوں کے ساتھ مت کھیلیں‘ آج ہرصورت ملک میں ویکسی نیشن کا عمل مؤثر اور تیز تر بنانا ہوگا‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے!