"MEC" (space) message & send to 7575

انتخابی اصلاحات اور زمینی حقائق

ہم اپنی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہماری قیادت ہمیشہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا نظر آئی ہے۔جمہوری ادوار ہوں یا غیر جمہوری ادوار‘ ہر زمانے میں چند ہی شخصیات ہم پر قابض رہیں۔ حکمرانوں نے اپنی کرسی کی خاطر تمام شارٹ کٹس‘ ناجائز ذرائع اور سرکاری اداروں کو استعمال کیا۔ حکمرانوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ وہ ریاست کے مطابق نہیں بلکہ ریاست ان کے مطابق چلے‘ جبکہ یہی لوگ ریاستی اداروں کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں۔ الیکشن کمیشن ریاست کا اہم ترین ادارہ ہے۔ اس کی کوکھ سے پارلیمنٹ‘ صوبائی اور بلدیاتی حکومتیں جنم لیتی ہیں‘ مگر اس کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آئین کی شق 218 (3) کے مطابق الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں شفاف‘ آزادانہ اور غیر منصفانہ انتخابات کرائے‘ مگر پاکستان میں ماسوائے 1970 کے کوئی انتخاب غیر متنازع نہ رہا۔
ملک میں ادارہ جاتی تبدیلیوں کا جو طبل بجایا‘ اس میں الیکشن کمیشن کو بھی شامل کیا گیا ہے اور الیکشن ترمیمی بل 2021ء کی صورت میں انتخابی نظام میں چند بڑی تبدیلیوں کی تجاویز دی گئی ہیں۔ بل میں تین بنیادی تبدیلیوں کی بات کریں تو الیکشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 94(1) میں ترمیم کر کے سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا گیا ہے‘ دوسری بڑی تبدیلی سیکشن 103 میں کی گئی ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن عام انتخابات کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں خریدنے کا پابند ہوگا‘ جبکہ تیسری نمایاں تبدیلی ایکٹ کی شق نمبر 24‘ 26‘ 28‘ 34‘ اور 42 میں کی گئی ہے‘ جن کا تعلق انتخابی فہرستوں سے ہے‘ جس میں الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کیا گیا ہے۔بلاشبہ یہ تمام تجاویز اپنی جگہ اہم ہیں مگر سب کو سمجھنا چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات کی خرابی کے زمینی حقائق یہ نہیں‘ دراصل کچھ اور ہیں۔کیا ہم 1977 ء کے انتخابات بھلا دیں جب پیپلز پارٹی پر شدید دھاندلی کا الزام لگا اور نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلا؟ یا 1984 کا ریفرنڈم بھلا دیں جب ایک آمر کو 90 فیصد ووٹ پڑ گئے؟ یا چھانگا مانگا کی سیاست بھلا دیں جہاں اراکین پارلیمان اپنا ضمیر بیچتے رہے؟ یا مشرف دور کے انتخابات بھلا دیں جن میں Desired & Required نتائج حاصل کیے گئے؟ یا دو جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت بھلا دیں جس کے ذریعے اقتدار کی بندر بانٹ ہوئی؟ یا 2008ء کے انتخابات بھلا دیں جب انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی جیتنے والی جماعت کا عندیہ دے دیا گیا تھا‘ پھر ایک الیکشن کو اس وقت کے صدر نے ببانگ دہل آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا‘ یا ایم کیو ایم (لندن والی)کا انتخابی طریقہ کار بھلا دیں؟ جہاں ان کے سیکٹر انچارج انتخابی مہم سے لے کر نتائج کے اعلان تک کے ذمہ دار ہوتے تھے۔ جب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی لائیو پروگرام میں اس بات کا خود اعتراف کر لیں کہ انتخابات چوری ہوتے ہیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟
میں بھی اپنی تین دہائیوں پر محیط سول سروس کی زندگی میں تقریباً تیس سے زائد انتخابات کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حصہ رہا ہوں‘ اور مجھے انتخابی نظام اور اس کی خامیوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 1987ء کے لوکل گورنمنٹ انتخابات کا واقعہ ہے‘ میں لاہور میں انڈر ٹریننگ اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا اور مختلف پولنگ سٹیشنز کا دورہ کرنا میری ٹریننگ کا حصہ تھا۔ انتخابات میں کانٹے دار مقابلہ جاری تھا اور پولنگ ختم ہونے تک سب معمول کے مطابق تھا۔ جیسے ہی ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو کچھ ہنگامہ آرائی کی اطلاعات موصول ہوئیں اور جب نتائج آئے تو برابری کے اس مقابلے کا پانسہ حکومت کی جانب پلٹ چکا تھا‘ وہیں سے میں جان گیا کہ انتخابات کیسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح 1988ء میں ڈی جی خان میں فاروق لغاری کی خالی ہونے والی چوٹی کی نشست پر ضمنی انتخاب ہو رہا تھا‘ میں وہاں پولیٹیکل اسسٹنٹ تعینات تھا اور لغاری قبیلے کے علاقوں کی مانیٹرنگ کر رہا تھا‘ میں نے ٹرن آؤٹ رپورٹ کی تیاری کیلئے بارڈر ملٹری پولیس کے اہلکاروں کو پولنگ سٹیشنز کے باہر تعینات کیا۔ چند دنوں بعد جب نتائج آئے تو میرے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق ووٹرز کی شرح بمشکل 30 سے 40 فیصد تھی‘ جبکہ نتائج میں 90 فیصد ووٹرز کو ظاہر کیا گیا‘ گویا ان علاقوں میں تمام انتخابی عملہ ان کا اپنا بھرتی شدہ ہوتا ہے جو سرداروں کی مرضی کے مطابق نتائج دیتا ہے۔ اسی طرح جب میں ڈی سی مظفر گڑھ تعینات تھا تو ٹبہ سلطان کے ٹاؤن کمیٹی انتخابات میں مجھے احکامات موصول ہوئے کہ مسلم لیگ( ن) کے مقامی ایم پی اے کی الیکشن میں مدد کی جائے۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ وہاں پیپلز پارٹی کے قیوم جتوئی کے گروپ کو واضح اکثریت حاصل ہے تو میں نے حکام کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے مداخلت سے معذرت کر لی‘ جس کے بعد یہ ٹاسک مقامی پولیس کو سونپا گیا اور نتائج حکومتی مرضی کے مطابق آئے۔اسی طرح آزاد کشمیر کے انتخابات کے حوالے سے جو بعض پولنگ سٹیشنز یہاں بنتے ہیں وہاں کے نتائج بھی حکومتی منشاکے مطابق آتے ہیں۔ 1989ء کے انتخابات میں‘ میں اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ تعینات تھا‘ تو دورانِ انتخاب ہمیں چیف منسٹر آفس اور ڈی سی آفس سے براہ راست احکامات موصول ہوئے کہ مقابلے میں سرکاری امیدواروں کی مکمل مدد کی جائے اور اس کی رپورٹ دی جائے۔ 1990ء کے عام انتخابات میں ڈسکہ کے چند پولنگ سٹیشنز پر الیکٹورل رول و دیگر سامان پہنچنے میں تاخیر ہو گئی جس پر ایک حکومتی امیدوار نے پریزائیڈنگ افسر جو کہ معمر استاد تھا پر تشدد کیا‘ جس کی اطلاع میں نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو بھی دی‘ مگر کسی نے کوئی کارروائی نہ کی۔ اس روز حکومتی امیدوار اپنے کارندوں کے ہمراہ پولنگ سٹیشنز میں داخل ہو رہے تھے جبکہ اپوزیشن امیدواروں کو اسلحہ کے زور پر جگہ جگہ روکا جا رہا تھا‘ اس صورتحال نے سراسیمگی پھیلا دی اور شام تک انتخابی عملہ حکومتی امیدواروں کے سامنے بے بس ہو چکا تھا۔ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
سابق سوویت لیڈر جوزف سٹالن نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ جو لوگ ووٹ دیتے ہیں وہ کسی چیز کا انتخاب نہیں کرتے بلکہ اصل انتخاب وہ کرتے ہیں جو ووٹ گنتے ہیں۔ یہی صورتحال ہمارے انتخابی عمل کی بھی ہے‘ جہاں مردم شماری‘ ووٹرلسٹوں کی تیاری‘ پریزائیڈنگ افسر اور انتخابی عملے کی تعیناتی سے لے کر انتخابی نتائج کے اعلان تک سب کچھ حکومتی اداروں کی مرضی و منشا کے مطابق ہوتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسا طریقہ کار‘ اختیار یا مواصلاتی نظام موجود نہیں جس سے وہ ہر پولنگ سٹیشن کی مانیٹرنگ کرتے ہوئے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنا سکے۔سادہ الفاظ میں کہیں تو ہمارا موجودہ انتخابی نظام بری طرح فیل ہو چکا ہے۔ یقیناً ہمیں الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف جانا ہوگا جس سے انتخابی عمل کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ فارم 14 اور 15 کے دیرینہ مسئلے سے بھی چھٹکارا حاصل ہو جائے گا۔ اسی طرح اوور سیز پاکستانیوں کو حق رائے دہی کا موقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے‘ مگر فقط یہ تبدیلیاں انتخابی نظام کی شفافیت کی ضامن نہیں ہو سکتیں‘ اگر حقیقی معنوں میں تبدیلی لانی ہے تو ہمیں اپنے سیاستدانوں کے مائنڈ سیٹ اور اداروں کے کلچر کو بھی بدلنا ہوگا۔ آج ٹی وی اور سوشل میڈیا پر انتخابی اصلاحات موضوع بحث ہیں اور دانشور اس پر کھل کر بات کر رہے ہیں مگر پاکستان کے انتخابی نظام کی ناکامی کے مذکورہ زمینی حقائق کا ذکر کسی نے نہیں کیا‘ جب تک سیاستدان اقتدار کو ذاتی میراث سمجھنا نہیں چھوڑیں گے تب تک نہ عدلیہ‘ نہ پولیس‘ نہ ریٹرننگ افسران‘ نہ انتظامی افسران ‘ نہ کوئی اصلاحی اقدام‘ اور نہ ہی اکیلا الیکشن کمیشن انتخابی نظام کو بدل سکتا ہے؛چنانچہ سکے بدلنے سے زیادہ ضروری انتخابی مشینری کو ٹیکنالوجی سے بدلنے کی ہے‘ ایسی ٹیکنالوجی جو حکومتی صوابدید و اختیارات سے بالاتر ہو کر کام کرے اور جس میں کسی بھی قسم کیPenetration & Manipulation کی گنجائش نہ ہو۔ یہی ہمارے انتخابی عمل کی بہتری کی آخری امید ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں