"MEC" (space) message & send to 7575

ہراسگی کے اسباب

گزشتہ چند دنوں سے خواتین کے خلاف یکے بعد دیگرے پیش آنے والے پُرتشدد واقعات نے ملک میں بڑھتی جنسی ہراسگی‘ جنونیت اور تحفظِ نسواں کے معاملے کو پھر سے موضوعِ بحث بنا دیا ہے۔ یوم آزادی پر مینار پاکستان کے سائے تلے درندگی کا شکار بننے والی ٹک ٹاکر ہو یا دارالحکومت میں قتل ہونے والی سابق سفیر کی بیٹی‘ راولپنڈی میں زیادتی کے بعد اپنے 14 ماہ کے لخت جگر سمیت جان کی بازی ہارنے والی نسیم بی بی ہو یا لاہور میں زیادتی کا نشانہ بننے والی بدنصیب ماں اور بیٹی‘ تمام واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ شہر یا گاؤں‘ امیر گھرانے یا غریب‘ دودھ پیتی بچی یا بزرگ خاتون‘ ہمارے معاشرے میں عورت نہ اپنوں میں محفوظ ہے اور نہ غیروں میں‘ نہ ویرانے میں محفوظ ہے اور نہ ہجوم میں۔ حوا کی بیٹی ہر سو ظلم و ستم‘ پسماندگی اور خوف و ہراس کا شکار ہے۔ خواتین کیلئے غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ہر روز جنسی زیادتی کے 11 واقعات پیش آتے ہیں جبکہ غیرت کے نام پر قتل‘ اغوا‘ گھریلو تشدد بھی ہمارے تنگ نظر معاشرے کے چند خوفناک چہرے ہیں۔
یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ آخر ہمارا معاشرہ عورتوں کیلئے اتنا خطرناک اور غیر محفوظ کیوں ہے؟ عالمی شہرت یافتہ مصنفہ نینسی کیروول نے اپنی کتاب Understanding Violence Against Women میں لکھا ہے کہ جنسی ہراسگی کے واقعات سے دراصل تین عوامل جڑے ہیں: صحت‘ نفسیات اور سماج۔ صحت کے نقطہ نظر سے ایسا معاشرہ جہاں انسان صحت مند سرگرمیوں کی محرومیوں کے باعث گھٹن کا شکار ہو‘ بیروزگاری و غربت کے باعث ڈپریشن اور اضطراب میں مبتلا ہو تو اس کے جنسی جنونیت کی طرف مائل ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرا عمل نفسیاتی ہے۔ چند مردوں کی سوچ اور نظریہ اگر اس بات پر پختہ ہو جائے کہ خواتین صرف استعمال کی چیز ہیں تو انہیں اپنے برے عمل پر کوئی پچھتاوا نہیں رہتا‘ اسی نفسیاتی کشمکش میں وہ یہ خود اطمینانی بھی حاصل کر لیتے ہیں کہ فلاں نے یہ کام کیا تو میرے کرنے میں کیا حرج ہے۔ جبکہ تیسرے اور اہم ترین پہلو یعنی معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں پہلے تو انسان کا Social Learning Process ذمہ دار ہے‘ اگر معاشرہ ہی ہمیں مردوں کی اجارہ داری‘ پدر شاہی نظام سے محبت اور عورت کو کمتر سمجھنا سکھائے گا تو ایسے واقعات بڑھنے کا خدشہ ضرور رہے گا۔ دوسرے‘ ہمارے ارد گرد خصوصاً سوشل میڈیا پر ہراسگی کی طرح طرح کی خبروں اور ویڈیوز کے انبار نے سماجی و نفسیاتی گھٹن کا ماحول بھی پیدا کر رکھا ہے۔ یہ مواد دیکھ کر خواتین مزید عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں۔ ایک اور سماجی سائنسدان سوزن فالودی اپنی کتاب Backlash: The Undeclared War Against American Women میں لکھتی ہیں کہ مرد جنسی زیادتی کا سہارا ہمیشہ عورت کو نیچا دکھانے کیلئے لیتا ہے۔ مصنفہ نے جنسی زیادتی کو جن تین صورتیں میں بیان کیا‘ ان کا عکس پاکستانی معاشرے میں نمایاں ہے: پہلی صورت‘ کسی فائدے کا لالچ دیکر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ جیسے رائیونڈ میں ایک خاتون کو نوکری کا جھانسہ دے کر دفتر میں بلا کر اجتماعی زیادتی کی گئی۔ دوسری صورت‘ ایسا تعلق جو یکطرفہ ہو اور بلیک میلنگ کے ذریعے قائم رکھا جائے جیسے نور مقدم کے واقعے میں ہوا‘ یا ایسے واقعات جن میں نازیبا ویڈیوز بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے اور تیسری صورت ہراسگی کی سب سے عام صورت ہے‘ یعنی مرد عورت ذات کو دیکھ کر حیوانیت پر اتر آئے‘ جیسے ٹک ٹاکر عائشہ کے ساتھ ہوا۔ یہ تمام اسباب ملکر ہمارے معاشرے میں جنسی زیادتی و تشدد کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں‘ جن کو بنانے اور بڑھانے میں یقیناً ہمارا نظام اور انسان دونوں برابر کے قصوروار ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پاکستانی معاشرہ ہراسگی سے جڑے ان اسباب پر باآسانی قابو پانے کی سکت رکھتا ہے؟ تو اس کا جواب ''ناں‘‘ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کو قانون کی عدم حکمرانی‘ بیڈ گورننس اور اخلاقی انحطاط جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ جہاں نظام طاقتور کے تابع ہو اور انصاف مہنگا ہونے کے علاوہ قانونی موشگافیوں کا شکار ہو جائے اور مقدمات میں تاریخ پر تاریخ اور اپیل پر اپیل کا کلچر ہو‘ وہاں انصاف کی امید دیوانے کا خواب ہی لگتی ہے‘ جیسے موٹروے زیادتی کیس کئی ہفتوں تک سب کی نظروں میں رہا‘ اعلیٰ سطحی اجلاس ہوتے رہے‘ بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے گئے‘ ملزمان بھی پکڑ لیے گئے مگر اس کیس میں اب تک کیا انصاف ہو سکا؟ لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق ملک میں جنسی زیادتی کے مجموعی رپورٹ کیسز میں سے صرف 18 فیصد پراسیکیوشن کی سطح تک پہنچ پائے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ عائشہ‘ نور مقدم اور نسیم بی بی کا معاملہ بھی کچھ روز خبروں کی زینت رہے گا اور پھر خاموشی چھا جائے گی۔ اگر دو بوتل شراب جیسے کیس میں از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے تو جنسی ہراسگی کے واقعات کے خلاف یہ اختیار کیوں استعمال نہیں ہوتا؟ یا شق 14 کے مطابق انسانی وقار مجروح ہونے پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟ اگر ماضی میں جنسی ہراسگی کے مجرمان کو عبرتناک سزائیں ملی ہوتیں تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے‘ جیسی سزائیں امریکہ میں جانی مانی شخصیات کو ملی ہیں: ساتھی اداکاراؤں کو ہراساں کرنے پر ہالی ووڈ پروڈیوسر ہاروے ونسٹن کو 23 سال قید کی سزا دی گئی‘ امریکی قومی جمناسٹک ٹیم کا ہیڈ ڈاکٹر لیری نصر خواتین مریضوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانے پر 60 سال کی قید بھگت رہا ہے‘ معروف سماجی و کاروباری شخصیت جیفری ایپسٹن کو بھی جنسی ہراسگی کے الزام پر جیل جانا پڑا جہاں اس نے خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ اسی طرح ایک اور بڑی وجہ ہماری ناکام گورننس بھی ہے۔ ہراسگی‘ تشدد اور جنسی زیادتی کے تقریباً تمام واقعات میں کہیں نہ کہیں پولیس و انتظامی اداروں کی غفلت اور نااہلی نظر آتی ہے۔ اب جیسے گریٹر اقبال پارک‘ جو شہر کے مرکز میں واقع ہے‘ میں دن دیہاڑے خاتون پر 400 افراد حملہ آور ہوئے مگر چار گھنٹے تک پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی۔ شہر میں کروڑوں روپے کی لاگت سے لگائے گئے کیمروں نے اس واقعہ میں کیا مدد فراہم کی؟ جو بھی ثبوت اور ویڈیوز اکٹھی ہوئیں وہ عام لوگوں کی ہی مرہون منت ہیں۔ جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ اور خیبر پختونخوا میں کم سن بچیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں‘ مگر انتظامی مشینری بااثر وڈیروں کے سامنے بے بس رہتی ہے۔ اسی طرح ایک بڑی رکاوٹ ہمارے ہاں انسانوں کا اخلاقی انحطاط بھی ہے۔ ہمارے ملک میں کام کرنے والی کوئی ایسی خاتون نہ ہوگی جسے پبلک ٹرانسپورٹ‘ گلی محلوں‘ بس سٹاپ یا دفتر میں ہراسگی کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو‘ اس کے برعکس مغربی معاشرہ ہے جہاں کوئی خاتون مقامی لباس میں تن تنہا سڑکوں‘ گلیوں‘ پارکوں‘ دفاتر‘ کلب کہیں بھی ہو‘ کسی کی مجال نہیں کہ اس کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے‘ کیونکہ وہاں ہر اک شہری میں قانون اور کڑی سزاؤں کا خوف موجود ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 376 کے مطابق جنسی زیادتی قابلِ سزا جرم ہے‘ جس کے مجرموں کو سزائے موت اور 10 سے 25 سال تک قید ہو سکتی ہے۔ اسی طرح 2006ء سے پاکستان میں ویمن پروٹیکشن بل بھی نافذالعمل ہے جس میں جنسی زیادتی کے مجرموں کیلئے سزائے موت کا قانون شامل ہے‘ جبکہ قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل بھی منظور ہو چکا ہے؛ چنانچہ ہمارے ہاں تمام قوانین اور سزائیں موجود ضرور ہیں مگر اصل فقدان ان پر ٹھوس عمل درآمد کا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جنسی ہراسگی کے مجرمان اور ذمہ داران سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ خواتین جو ہمارے ملک کی نصف آبادی ہیں۔ وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ان کو ہر صورت حقوق و تحفظ فراہم کرکے سماجی و معاشی دھارے میں لانا ہوگا‘ ورنہ ہمارے معاشرے میں غربت اور معاشی و سماجی استحصال کبھی ختم نہ ہو سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں