"MEC" (space) message & send to 7575

سیاسی کھیل میں ریاستی کردار !

ریاست‘ سیاست‘ حکومت اور قیادت ان تمام چیزوں کا محور عوام ہوتے ہیں‘ بالخصوص جمہوریت‘ جسے ابراہم لنکن نے ایسا نظام حکومت قرار دیا تھا جو عوام کا ہو‘ عوام سے ہو اور عوام کیلئے ہو‘ میں عوامی بہبود و خوشحالی ریاست کا اولین فریضہ ہوتا ہے‘ مگر افسوس کہ ہماری 75 سالہ تاریخ میں کئی حکومتی نظام آئے‘ کئی چہرے آتے اور جاتے رہے مگر قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کسی حکمران نے عوامی مفادات کا بھرم نہ رکھا بلکہ فقط اپنے ذاتی مفادات کے اسیر رہے۔ نعرے تو سب نے بڑے بڑے لگائے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا نعرہ لگایا جو فقط کھوکھلے الفاظ ثابت ہوئے اور قومیانے کی پالیسی سے صنعتی و معاشی ترقی رک گئی۔ اس کے بعد ضیاالحق نے اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر سیاست کو مذہب سے جوڑ دیا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے مختلف ادوار میں جمہوریت اور معاشی ترقی کے نعرے لگے جن کی آڑ میں ذاتی اور خاندانی مفادات اور کرپشن کا بازار گرم رہا۔ پھر جنرل مشرف کا دور آیا تو انہوں نے روشن خیال پاکستان‘ جدت اور اصلاحات کا نعرہ لگایا‘ جبکہ 2008ء کے بعد پھر سے شروع ہونے والے جمہوری ادوار بھی خاندانی سیاست‘ غیر شفافیت اور اداروں کی تباہی کی داستانیں سناتے ہیں۔
2018ء میں جب پاکستان کے عوام کسی مسیحا کے منتظر تھے تو عمران خان تبدیلی کے نعرے کے ساتھ بہتری کی امید بن کر ابھرے۔ کپتان نے آتے ہی معاشی انقلاب‘ زرعی ترقی‘ سماجی خوش حالی‘ کڑے انصاف‘ گڈ گورننس‘ غربت کے خاتمے‘ ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں جیسے دلفریب وعدوں سے عوام کا دل جیت لیا۔ عمران خان کا نظریہ موروثیت اور کرپشن کے خلاف تھا اور وہ نوجوان جو ملک کے کرپٹ نظام سے تنگ آ چکے تھے‘ عمران خان کے نظریے کے دیوانے ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ 2018ء کے انتخابات میں کل ووٹوں کا 32 فیصد تحریک انصاف کو ملا۔ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ دیگر سیاسی رہنما جیسے نواز شریف‘ آصف زرداری یا فضل الرحمن 80ء کے دہائی کے سیاستدان ہیں اور نئی نسل کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ نہیں جس طرح عمران خان ہیں‘ کیونکہ عمران خان نے نوجوانوں پر مشتمل 60 فیصد آبادی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا گرویدہ بنایا‘ جو آج عمران کے Keyboard Warriors کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ مگر افسوس کہ اس قدر عوامی حمایت حاصل ہونے کے باوجود عمران خان اپنے نظریات کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ حکمرانی کا تجربہ اور منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث وہ عوام کو خاطر خواہ ڈلیور نہ کر پائے۔ بقول عمران خان: تحریک انصاف کی تبدیلی کے مشن کے حصول میں سیاسی مجبوریاں بھی آڑے آئیں اور الیکٹ ایبلز کے نام پر مفاد پرست دوبارہ سسٹم اور گورننس کا حصہ بن گئے‘ جن کی معاونت اور بیساکھیوں کے ساتھ تحریک انصاف کی حکومت تو بنی رہی مگر کرپشن کا کلچر ختم نہ ہو سکا۔ اسی طرح تحریک انصاف اپنی کوئی مضبوط ٹیم بھی نہ بنا پائی۔ بڑے صوبوں کی سیاسی قیادت عام اور نا تجربہ کار افراد کو سونپنے کا نتیجہ مایوس کن نکلا اور بالآخر عمران خان کو اپنی حکومت ہی سے ہاتھ دھونا پڑگئے۔
آج اقتدار انہی پرانے چہروں کے پاس ہے جنہیں ہم بارہا آزما چکے ہیں۔ جن کی کابینہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جو سنگین جرائم میں ضمانت پر ہیں‘ حالانکہ کسی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے تک میں ایسے افراد‘ جن کے خلاف کوئی انکوائری یا عدالتی اور محکمانہ کارروائی ہو رہی ہو‘ کو کوئی عہدہ نہیں دیا جاتا۔ جمہوریت کا حسن تو یہ ہے کہ اقتدار عوام تک منتقل ہو مگر ہمارے ہاں اقتدار چند خاندانوں کے پاس جاتا ہے۔ وہی خاندان اس ملک کی سیاست‘ معیشت اور ہر شعبہ کو چلاتے ہیں اور پھر قانونِ وراثت کے تحت یہ ذمہ داریاں ان کے شہزادوں اور شہزادیوں کو منتقل ہوجاتی ہیں جن میں اہلیت‘ قابلیت اور شفافیت موجود نہیں۔ خاندانی سیاست ہمیشہ قوموں کی تباہی اور ملکوں کی معاشی و سماجی تنزلی کا سبب بنی ہے۔ جو حالات ہم آج کل سری لنکا میں دیکھ رہے ہیں وہ خاندانی سیاست ہی کا نتیجہ ہیں‘ جہاں راجہ پاکسا خاندان کئی سال سے اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور اس خاندان کے 40 سے زائد افراد کابینہ کا حصہ ہیں۔ آج یہی صورتحال پاکستان میں بھی دکھائی دیتی ہے‘ جسے روکا نہ گیا تو خدشہ ہے کہ کہیں ہم بھی سری لنکا نہ بن جائیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی سیاست‘ کرپشن اور ذاتی مفاد پرستی کے خلاف مزاحمت کی جائے۔ عمران خان یقینا خاندانی سیاست کے سامنے مضبوط دیوار بن سکتے ہیں مگر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آیا عمران خان کا عوامی جنگ لڑنے کا طریقہ ٹھیک ہے؟ میرے خیال میں نہیں! کیونکہ اگر وہ واقعی عوام کی فلاح اور جمہوریت کی بالادستی کے خواہاں ہیں تو انہیں نظام سے الگ ہوکر نہیں بلکہ نظام کے اندر رہتے ہوئے یہ جنگ لڑنا ہوگی۔ عمران خان کو ''مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپنے کے بجائے واپس نظام میں آکر مقابلہ کرنا چاہئے۔ بھارت میں عام آدمی پارٹی کی مثال لے لیں۔ 2012ء میں بننے والی یہ پارٹی آج بھارت کی مقبول جماعت بن چکی ہے‘ جس کے سربراہ کیجریوال نے سڑکوں کی راہ اختیار نہیں کی یا ''پچھلی حکومتیں لوٹ گئیں‘ خزانہ کھا گئیں‘‘ کا رونا نہیں رویا‘ بلکہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اپنا نظریہ منوا کر عمل کروایا۔ دہلی کے عام آدمی کو تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکیج دیا اور حال ہی میں بھارتی پنجاب کے انتخابات میں بھی عام آدمی پارٹی کے عام سے امیدوار لابھ سنگھ اگوکے نے وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ کو شکست دی اور امرتسر میں 25 سال سے فلاحی کاموں سے وابستہ پیڈ وومن نے نوجوت سنگھ سدھو کو شکست دی؛ چنانچہ عمران خان بھی عوام کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے غیر سیاسی رویے کو ترک کرتے ہوئے سسٹم کے اندر رہ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے‘ ملک کو انارکی کی جانب لے جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
کوئی شک نہیں کہ آج ہماری سیاست اور ریاست‘ دونوں گمبھیر صورتحال سے دوچار ہیں۔ جو جماعتیں آج اقتدار میں ہیں وہ تو علاقائی جماعتیں ہیں‘ یعنی پیپلز پارٹی سندھ کی‘ (ن) لیگ پنجاب کی‘ جے یو آئی کے پی کی اور چند جماعتیں بلوچستان کی ہیں جن میں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی‘ جبکہ ملک کی نئی نسل بھی اس تبدیلی سے خاصی نالاں دکھائی دیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف اس وقت پارلیمان کا حصہ ہی نہیں‘ گویا ایسی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو عوامی حمایت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اسی طرح وہ مراسلہ جس کی بازگشت آج کل سنائی دے رہی ہے‘ پر بھی مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ کیا اس پر کوئی جامع تحقیقات نہیں ہونی چاہئے؟ اسی مراسلے کے بل بوتے پر عمران خان نے ایک Narrative بنایا ہے‘ سیاسی ہمدریاں حاصل کی ہیں‘ جسے عوام الناس میں اب تیزی سے قبول کیا جا رہا ہے‘ جبکہ کپتان کے ساتھ ہونے والے سلوک کا قصوروار اداروں کو ٹھہرایا جا رہا ہے‘ جس کی وجہ سے عوام اور اداروں میں عدم اعتماد اور عدم استحکام کی فضا پیدا ہوگئی ہے‘ جو قومی ہم آہنگی کیلئے خوش آئند نہیں۔ اس صورتحال میں 'ڈیپ سٹیٹ‘ کو کردار ادا کرنا ہوگا‘ جس کا مقصد Security‘ Stability اور Continuity ہوتا ہے۔ امریکہ میں جب ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مفادات کے حصول پر اتر آئے تو حالات کو قابو کرنے کیلئے ڈیپ سٹیٹ نے ہی کردارادا کیا تھا‘ پاکستان تو ویسے بھی ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے جس میں ڈیپ سٹیٹ کا کردار غیر معمولی ہوتا ہے‘ جس میں وہ نیوٹرل نہیں رہ سکتے؛ چنانچہ آج ملک کے وسیع تر مفاد اور سیاسی و معاشی استحکام کیلئے ڈیپ سٹیٹ کا بے لوث اور بے غرض کردار ناگزیر ہے‘ جنہیں کوئی درمیانہ راستہ نکالتے ہوئے حالات کو بہتری کی جانب لے کر جانا ہوگا‘ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں