کاش کہ یہ تماشا دیکھنا نصیب نہ ہوتا، لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا، کس نے کیا کردار ادا کیا، یہ وقت کس نے چنا اور آگے کیا ہونے کے امکانات ہیں؟ اگر ان حالات تک پہنچنے کے تمام اسباب (جن کے بارے مختلف آرا پائی جاتی ہیں) پہ قلم اٹھایا تو وقت بھی ضائع ہو گا اور کڑواہٹ بھی بڑھے گی۔ اس وقت زیادہ ضروری یہ ہے کہ اسباب کا جائزہ لینے کے بجائے موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے، اور جس سمت میں واقعات بڑھ رہے ہیں‘ ان کا خاکہ ذہن میں رکھتے ہوئے انتشار اور انارکی کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے اقدامات پہ غور کیا جائے۔ اس مقصد کے ساتھ آئیے پہلے موجودہ صورت حال کی تصویر کشی کریں کہ کیا ہو رہا ہے۔
تحریک عدم اعتماد سے کچھ دیر پہلے کے دور کو لے کر آج تک کے واقعات پہ نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اپنے اپنے مفاد کو آگے بڑھانے یا ان مفادات کی حفاظت کے لیے جس طرح قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیری گئیں اس کی وجہ سے دنیا میں بھی رسوائی ہوئی اور ملک کے اندر بھی ہر ذی شعور شخص بہت رنجیدہ ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ زیادہ دکھ اس بات پہ ہوا کہ جن سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کے ذمے قوم اور معاشرے کو شعور، علم اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کا فریضہ تھا، ان سب نے جم کر اپنی کوتاہ اندیشی کو آشکار کیا۔ موجودہ سیاسی ماحول کڑواہٹ اور بد گمانی کا شکار ہے، جس سے دشمن خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کام کیلئے سوشل میڈیا بطور ایک مہلک ہتھیار استعمال ہو رہا ہے۔ عوام کی سوچ اور احساس کو جھوٹ اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے انتشار کا شکار کر کے سیاسی و معاشرتی اور دیگر دھڑے بندیوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا گیا ہے۔ عساکرِ پاکستان کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا اور عوام کے ذہنوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی مذموم سازشیں کرنے کی بہت کوشش جاری ہے۔
کیا یہ تمام خرابی بڑے عالمی یا علاقائی محرکات سے جڑی ہوئی ہے یا سب کچھ اپنا ہی کیا دھرا ہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے جن بھیانک نتائج کا خدشہ ہے ان کے تدارک کی تدبیریں اس وقت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ اداروں پر اعتماد کی بحالی اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانا وقت کی اشد ضرورت ہے اور یہ کام سب کو مل جل کر کرنا پڑے گا۔ تبھی معیشت میں استحکام اور آئین و قانون پر عمل درآمد ہو پائے گا‘ اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا ۔
اس ضمن میں سب سے پہلے تو بلا تحقیق غلط اطلاعات کی بنیاد پر جو سیاسی اور خیالی قلعے ہم نے اپنے دماغوں میں بنا رکھے ہیں‘ ان کو مسمار کرنا ہو گا یا سوچ میں کچھ تبدیلی لانا ہو گی۔ منطق کی راہ اختیار کرنا ہو گی۔ یہ پاکستان سب کا ہے اور ہم سب کو اس کی بھلائی مطلوب ہے، لہٰذا ایک دوسرے پہ بلا ثبوت دشنام طرازی نہ کی جائے اور سیاسی سوچ مختلف ہونے پر غداری وغیرہ کے سرٹیفکیٹ نہ دیئے جائیں، لیکن اگر جائز شکایات ہیں تو ان کو آگے بڑھانے کے لیے قانونی اور آئینی راستہ اپنایا جائے‘ اور ادارے بھی اپنا حقیقی آئینی تشخص بحال کرنے اور اپنی غیر جانب داری ثابت کرنے کی پوری کاوش کریں۔
اس وقت عوام کی ایک بڑی تعداد عمران خان صاحب کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہے، لیکن دوسری طرف پی ڈی ایم بھی عوام کے کثیر ووٹوں کی نمائندگی کر رہی ہے، اس لیے کسی بھی قسم کا ٹکراؤ ملک اور معاشرے کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر یہ دونوں بڑے سیاسی دھڑے اپنی مقبولیت ایک دوسرے کو باور کروانا چاہتے ہیں تو عوام کو سڑکوں پر لانے کے بجائے نئے انتخابات کی راہ اپنائیں کہ یہ بھی عوام کی رائے طلب کرنے کا ہی راستہ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پی ڈی ایم دور رس قانونی اور انتخابی ریفارمز کے بجائے نیا مینڈیٹ لے کر یہ کارِ خیر انجام دے، کیونکہ ان تلخ سیاسی اور معاشی حالات میں اس حوالے سے کسی خاطر خواہ پیش قدمی کا امکان نہیں۔ جلد از جلد مشاورت کے ساتھ ایک عبوری حکومت تشکیل دی جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب اپوزیشن کی غیر موجودگی میں یہ کام کیسے ہو؟ کیا عمران خان اپنے اراکین اسمبلی کو واپس ایوان میں لا کر کسی مشاورتی عمل کا حصہ بنیں گے؟ میرے خیال میں ایسا ممکن ہے‘ لیکن یہ تب ممکن ہو گا جب پی ٹی آئی کو یقین دلایا جائے کہ فوری طور پر عبوری حکومت اور انتخابات پر حکومتی رضا مندی کے واضح آثار موجود ہیں‘ لیکن چونکہ سیاسی جھگڑا دشمنی کی حدوں کو چھو رہا ہے اس لیے جب تک کوئی تیسرا فریق ثالث کا مؤثر کردار ادا نہیں کرے گا‘ یہ بیل شاید منڈھے نہ چڑھے گی۔ اور میری نظر میں یہ کردار ادا کرنا اسٹیبلشمنٹ کے سوا کسی کے بس کا روگ نہیں۔ چاہے میری اس بات یا اس تجویز کو کتنا ہی خلاف آئین، غیر قانونی، سیاسی اور پیشہ ورانہ طور پر نا پسندیدہ سمجھا جائے، لیکن فی الوقت اور کوئی چارہ نہیں‘ اور ملک میں امن اور سالمیت برقرار رکھنے کے لیے ہر قدم احسن سمجھا جانا چاہیے۔
میرے خیال میں ثالث گروپ کو مندرجہ ذیل کام کرنا ہوں گے:
1۔ پی ڈی ایم کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ فوری انتخابات ہی ملک کو اور خود پی ڈی ایم کو مشکل سے نکال سکتے ہیں کیونکہ مہنگائی کے محرکات بین الاقوامی نوعیت کے ہیں اور ان پر فوری طور پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ علاوہ ازیں اس مختصر عرصے میں وہ کوئی اور قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دے پائیں گے اور عمران خان مستقل ان کے لیے درد سر بنے رہیں گے اور وقت کے ساتھ شاید عوام میں زیادہ پاپولر ہوتے جائیں۔
2۔ پی ٹی آئی والوں کو یہ باور کروانا ہو گا کہ جلد انتخابات کا امکان تب ممکن ہے اگر یہ اسلام آباد مارچ کینسل کریں۔ اس سے ملک انارکی سے بچ جائے گا اور بہتری کی کوئی راہ نکالنا ممکن ہو سکے گا‘ بلکہ اگر ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ ارکان کو اسمبلی میں واپس لائیں تا کہ عبوری حکومت جیسے مسائل پر فوری اور واضح مشاورت ممکن ہو۔
3۔ تمام پارٹیوں سے یہ وعدہ لیا جائے کہ وہ کسی بھی ادارے کو اور خاص طور پر افواج پاکستان کو کسی منفی پروپیگنڈے کا حصہ نہیں بنائیں گی۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر کوئی بحث نہیں ہو گی۔ جس کو بھی فریش مینڈیٹ ملے گا‘ وہی چیف ایگزیکٹو اپنا حق استعمال کرے گا۔
4۔ موجودہ حالات میں ان سیاسی دھڑوں کا آپس میں مل بیٹھنا تو نا ممکن ہو گا اس لیے اس مقصد کی خاطرشٹل ڈپلومیسی سے کام لینا ہوگا۔
5۔ تمام معاہدے تحریری طور پر اور سپریم کورٹ اور آرمی چیف کی گارنٹی سے طے پائیں گے۔
6۔ شفاف اور فری انتخابات کی گارنٹی دی جائے گی۔
اب جو کچھ اوپر تجویز کیا گیا اس پر بہت سے قانونی اور آئینی سوالات اٹھائے جائیں گے، لیکن میری عرض فقط ایک ہے: ''یا تو طوفان کے آنے سے پہلے فیصلے کر لو ورنہ فیصلہ تو ایک روز کرنا ہو گا‘‘ اور یاد رکھئے گا بالآخر وہ فیصلہ ملک بچانے کے لیے ہو گا اور کوئی قانون ملکی سالمیت سے ماورا نہیں ہو سکتا۔