تین خبریں اور ایک سوال

کسی بھی ڈائری کو غیر سنجیدہ اور فروعی خبروں کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ اس سلسلہ میں تین خبریں آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔ اوّل۔ ایک انگریز کو مرغ پالنے کا اتنا شوق چر ایا کہ اس نے چین سے (شنگھائی نسل کا ) مرغ منگوایا۔ اسے اتنی اچھی طرح کھلایا پلایا‘ خصوصاً سینڈوچ‘ مکئی (پاپ کارن) اور آلو کے CRISPSکہ وہ قدو قامت میں ترقی کرتے کرتے سوا دو فٹ بلند ی تک جا پہنچا۔ مرغ کا مالک دس ایکڑ زمین کا مالک ہے جہاں اس کا پالتو اور چہیتا مرغ دندناتا پھرتا ہے اور بچے خوف کے مارے اُس سے دور بھاگتے ہیں۔ مرغ کے مالک نے عالمی ریکارڈز کی کتاب (Guinness) کے مولف سے رابطہ قائم کیا ہے تاکہ اسکے پالتو اور بلند قامت پرندے کو عالمی اور دائمی شہر ت مل سکے۔ دوم: بات چلتے چلتے مرغ سے کبوتر تک جاپہنچی ۔ پاکستان میں یہ سطور کبوتر بازوں کی خصوصی توجہ کی مستحق ہیں۔ اگر آپ تیز رفتار کبوتروں کے قدردان ہیں تو آپ کو بلجیئم میں کبوترکی نیلامی میں حصہ لینا ہوگا۔چند دن پہلے برسلز میں ہونے والی نیلامی میں بجلی کی رفتار سے تیز اُڑنے والا ایک کبوتر دو لاکھ ساٹھ ہزار پائونڈ(روپے بنانے کیلئے 152 سے ضرب دیں) میں نیلام ہوا۔ خریدار کا تعلق سر زمین چین سے تھا۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ برق رفتار کبوتر وہاں کھانے کی میز پر ایک لذید ڈش بن جانے کی بجائے آسمانوں پر اُڑتا نظر آئے گا۔ نیلامی میں کل 530 کبوتر فروخت ہوئے جن کی کل قیمت37 لاکھ پائونڈ تھی۔ چوٹی کے دس میںسے نو بہترین کبوتر چین اور اسکے پڑوسی تائیوان کے شائقین نے خریدے۔ یہ وہی چین ہے جہاں صرف نصف صدی قبل لاکھوں افراد ہر سال قحط کے مارے تڑپ تڑپ کر مر جاتے تھے۔ اب و ہاں دیکھتے ہی دیکھتے اتنی خوش حالی آئی ہے کہ ایک ایک کروڑ روپے کا کبوتر خریدنے اور محض ایک شوق کی تسکین کیلئے خریدار چین سے بلجیئم کا سفر کرتے ہیں۔ یہ ہے اچھی حکمرانی کی برکت۔ صرف ایک گوادر بندگارہ نہیں ( لندن میں یہ افواہ گرم ہے کہ نئی حکومت پراس معاہدہ پر نظرثانی کیلئے دبائو ڈالا جائے گا) ہمیں بجلی کی پیداوار۔ ریلوے‘ PIA‘ سٹیل مل اور اس حساب سے تقریباً سارے وفاقی محکمے اہل چین کو لیز یعنی ٹھیکہ پر دے دینے چاہئیں تاکہ ہم لوگ بھی گرمی میں مرنے‘ بھوک سے تڑپنے‘ نہ ملنے والے روز گار کی تلاش کرنے‘ دھماکوں میں اپنے پرخچے اڑوانے‘ بوری میں بند ہو کر آخرت کا سفر کرنے‘ طرح طرح کے عذاب جھیلنے اور ان گنت دکھوں کا شکار بنے رہنے کی بجائے آرام سے رہیں۔ چین کی بنسی بجائیں۔ ہمارے اوپر بھی رب ذُوالجلال کی رحمتیں نازل ہوں۔ جب ہم ترقی کی معراج تک پہنچیں تو برسلزجائیں اور وہاں ایک اچھا اور مہنگا کبوتر خریدیں ۔ اردو کی ایک غیر معروف کہانی (غالبا ً قدرت اللہ شہاب کی لکھی ہوئی) میں ایک بڑھیا چین کا دلفریب اور د لکش تعارف سن کر بے ساختہ پوچھتی ہے ’’یہ بتائو۔ چین کتنی دور ہے؟۔ وہاں جانے کا کرایہ کتنا لگتا ہے؟‘‘ سوم: تتلیاں‘ پرندوں کے پر‘ ڈاک کے ٹکٹ‘ سکے‘ بنک نوٹ اور نوادرات کو شوقیہ اکٹھے کرنے والے تو کسی تعارف کے محتاج نہیں مگر ایک 78 سالہ انگریز نے بھان متی کا کنبہ تو نہیں مگر طر ح طرح کی اینٹیں اور روڑے دور دارز مقامات سے اکٹھے کر لیے ہیں۔ مجموعہ کی کل تعداد ایک ہزار اینٹوں تک جا پہنچتی ہے۔ زیادہ اینٹیں تاریخی اہمیت رکھتی ہیں جو قدیم اور منہدم ہو جانے والی تاریخی عمارات کے ملبے سے حاصل کی گئی ہیں۔ وہ شخص جب جاگتا ہے تو دورازے کے باہر اسے وہ اینٹیں پڑی نظرآتی ہیں جو لوگ اسے بطور تحفہ دے جاتے ہیں۔ موصوف نے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ان اینٹوں کو حفا ظت سے ا گلی نسل تک پہنچانے کیلئے انہیں اپنے گائوں میں ایک تاریخی دیوار (جن پر اینٹوں کا حسب نسب لکھا جائے گا) تعمیر کریں گے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ وادیٔ سندھ میں موہنجوداڑو کے قدیم شہر میں رہنے والوں نے پانچ ہزار سال قبل دنیا کو گارے سے پختہ اینٹ بنانی سکھائی تھی۔ انسانی تہذیب کی ترقی میں اینٹوں کو لفظی اور لغوی معنوں میں بنیادی اہمیت حاصل ہے مگر خیالات اور نظریات کو بہر حال اینٹوں پر فوقیت حاصل ہے۔ بقول اقبالؔ جہانِ تازہ صرف افکار ِ تازہ سے جنم لیتے ہیں۔ سنگ وخشت سے نئے جہاں پیدا نہیں ہوتے ۔ بوڑھے انگریز کواینٹیں اکٹھی کرنے دیں چونکہ اس کا ملک ہزار سال سے چل رہا ہے ۔ اس کی بنیادوںکو کوئی زلزلہ نہیں ہلا سکتا۔ ہمارا معاملہ دوسرا ہے۔ ہمیں جہا ن ِنو کی ضرورت ہے۔ یہ شوق کی بات نہیں ۔ زندہ رہنے اور اپنی قومی بقا کیلئے اوّ لیں شرط ہے۔ نیا جہان صرف نئے افکار سے معرضِ وجود میں آسکتا ہے۔ ہمارا خطّہ ز ِمین پانچ ہزار سال سے اینٹیں بنانے کا فن تو جانتا ہے‘ مگر بدلتے زمانہ کے ساتھ نئے نظام کے خدوخال طے کرنے میں بہت پیچھے رہ گیا۔ آئیے اس کمی کو دور کریں ۔ اس خامی کی اصلاح کریں۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہم وہی کارنامہ کر کے نہ د کھا سکیں جو چند عشروں کے اندر اہلِ چین کی پہچان بن گیا۔ …………………… یورپ میں جدید تہذیب (جو قُرونِ وسطیٰ میں اصلاحِ کلیسا اور علمی میدان میں نشاۃ ِثانیہ یعنی Renaissance سے شروع ہوئی) کی بنیاد انفرادی آزادی ہے۔ بہت سی اور اچھی چیزوں کی طرح آزادی بھی ہر قسم کی حدود قیود کے دائرہ سے نکل جائے تو برائی میں بدل جاتی ہے۔ چند صدیاں قبل (جب یورپ پر رومن کیتھولک عیسائیت کا مکمل غلبہ تھا) تو طلاق کی ہر گز اجازت نہ تھی۔ اسے بڑے گناہوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ صرف پچاس سال گزرے ہیں کہ برطانیہ کے ضابطۂ فوجداری سے ہم جنس پرستی (Homosexuality) اور اسقاطِ حمل(Abortion) کے سنگین جرائم کو نکال دیا گیا۔ نصف صدی سے نہ ہم جنس پرستی جرم ہے اور نہ اسقاطِ حمل ۔ ظاہر ہے کہ اس پر سوفیصد اتفاق رائے تو ممکن نہ تھا اور نہ ہے مگر برطانوی پارلیمنٹ نے جب یہ دو قانونی ترامیم منظور کیں تو اسے رائے عامہ کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ نصف صدی قبل برطانیہ کی طرح یورپ کے ہر ملک نے پھانسی کی سزا بھی ختم کر دی۔ اب قتل کے مجرم کو بھی صرف عمر قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ اہل یورپ کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ بات کہاں جا کے رکے گی ؟ آخری مثال ہم جنسوں کے درمیان شادی کی اجازت دینا ہے۔ چند ہفتے قبل مانچسٹر میں دو پاکستانی اور مسلمان لڑکیوں نے ایک دوسرے سے اپنی شادی رجسٹر کر وانے کیلئے سرکاری دفتر میں جا کر اپنی ر فاقت کو قانونی شکل دے دی۔ ابھی ہم اس صدمہ سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ 22 مئی کو پیرس سے خبر آئی کہ فرانس کے ایک 78 سالہ مورخ اور دانشور نے بے حد مشہور اور شاندار گرجا گھر ناترے ڈیم جا کر ہزاروں سیاحوں کی موجودگی میں خود کشی کر لی۔ اپنے منہ میں پستول سے گولی چلا کر ۔ وجہ؟ فرانس میں ہم جنس پرستوں کی شادی کی قانونی اجازت دینے کے خلاف احتجاج ۔ گولی چلنے کی آواز نے نہ صرف ا س گرجا گھر کی شان و شوکت کا نظارہ کرنے والے ہزاروں سیاحوں کو اتنا پریشان کیا کہ وہ دہشت گرد ی کے خوف سے دروازوں کی طرف سر پٹ دوڑے بلکہ اس احتجاج نے یور پ کے ہر اخبار میں نمایاں جگہ پائی۔ یورپ کے ہر حصہ میں ہونے والے احتجاج کی شدت بڑھتی جارہی ہے مگر اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ ہم جنس پرستی پر لگائی جانے والی تمام قانونی پابندیوں اور قد غنوں کو ختم کرنے کا سلسلہ رک جائیگا۔ جوانی کا ذکر چھڑ جائے تو بات قیامت تک پہنچ سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں