ڈرامہ نویسی‘ مہینے کا آخری جمعہ اور ڈرون حملے

٭لندن میں شام کا ایک ہی اخبار چھپتا ہے۔ اس کی اجارہ داری ہے۔ تعداد اشاعت لاکھوں میں ہے اور مفت تقسیم ہوتا ہے۔ اس نے جمائما خان کے بارے میں یہ خبر شائع کی ہے کہ وہ زندگی کے ڈرامے کی کسی نہ کسی طرح کردار بنی رہنے پر اکتفا کرنے کی بجائے اب ڈرامہ نویسی کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔ ڈرامہ ایک ایسی انگریز لڑکی کے گرد گھومتا ہے جس کی خوبیاں بھی اُسے رفیق حیات کی تلاش میں کامیابی نہ دلا سکیں تو اُسکی مضطرب اور فکر مند والدہ مجبور ہو جاتی ہے کہ اپنی ہمسایہ پاکستانی خاتون سے تلاش رشتہ میں مدد مانگے۔ جمائما کی انکساری پر سنگ دل اخبار نویس بھی عش عش کر اُٹھے کہ اُس نے اپنی پہلی ادبی کاوش کے ادبی معیار کے سامنے ایک بڑا سوالیہ نشان لگایا ہے۔ جمائما ادیب بنیں یا نہ بنیں، بلند پایہ صحافی بن چکی ہیں، اور وہ بھی اس طرح کہ برطانیہ کے بائیں بازو کے سب سے بڑے اور معتبر ہفت روزہNew Statesman کے ادارتی عملہ کی رُکن ہیں اور اپنی صحافیانہ ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاتی ہیں۔ عملی طور پر بھی اتنی فعال ہیں کہ پاکستان پر ہونے والے (اور نہ ختم ہونے والے) ڈرون حملوں کے خلاف عالمی سطح پر احتجاجی مہم میں سالہا سال سے پر جوش حصہ لیتی ہیں۔ …………………… اس ڈائری کی تنگ دامانی آڑے نہ آئے تو میں قارئین کو لمبی لمبی کہانیاں سنائوں۔ فارسی کی ایک کہاوت کے مطابق کہانی جتنی لمبی ہوتی جائے اُتنی مزیدار ہوتی جاتی ہے مگر آپ داستان امیر حمزہ کی بجائے ادارتی صفحہ پر شائع ہونے والے کالموں میں سے ایک کالم پڑھ رہے ہیں۔ اس کی چار دیواری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈائری کے بقیہ حصہ میں خبروں کو کم از کم الفاظ میں آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا۔ (1)پاکستان کی طرح برطانیہ کا محکمہ ٹیکس بھی مگرمچھوں کو پکڑنے کی نہ ہمت رکھتا ہے اور نہ صلاحیت۔ اس لئے وہ نہ نظر آنے والی چھوٹی مچھلیوں کو اپنے جال میں گرفتار کرنا چاہتا ہے۔ تازہ مثال ہزاروں دیہات میں اتوار کی سب سے بارونق سرگرمی یعنی کرکٹ اور کرکٹ کا اہتمام کرنے والے کرکٹ کلبوں کو نوٹس جاری کرنا ہے کہ وہ ملکہ برطانیہ کو (زیادہ سے زیادہ) چند سو پائونڈ بطور ٹیکس ادا کرنے کا فرض اداکریں ۔ (2) کرکٹ کے تذکرے سے یاد آیا کہ جب میں اس سال اپنے دوست Graham Kirk (جنہیں25 سال کے انتظار کے بعد MCC کے یکتائے زمانہ کلب ممبر بن جانے کا اعزاز حاصل ہوا) کا مہمان بن کر لارڈز کی تاریخی گرائونڈ میں کرکٹ میچ دیکھنے جائوں گا تو دیکھ سکوں گا کہ دو سو سال بعد MCC نے لارڈز نامی گرائونڈ میں سرحدوں Boundary Posts کو ناظرین کی نشستوں سے نو فٹ دور کر دیا ہے۔ تاکہ فیلڈنگ کرنے والے کھلاڑی چوکا روکنے کی کوشش میں کرسیوں سے ٹکرا کر زخمی نہ ہو جائیں۔ (3)اگر آپ کو کسی برطانوی ہسپتال میں آپریشن کروانے کی مجبوری در پیش ہواور آپ کو اپنی جان پیاری ہو تو برائے مہربانی اگست کے مہینہ اور مہینہ کے آخری جمعہ کے دن ہسپتال ہر گز داخل نہ ہوں۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سب سے کامیاب آپریشن سوموار کے دن کئے جاتے ہیں۔ اور جوں جوں ہفتہ کے دن آگے بڑھتے ہیں‘ آپریشن سے زندہ سلامت بچ جانے کے امکانات کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس حساب سے جمعہ کا دن سب سے خطرناک اور مہلک ثابت ہوا۔ اس تشویش ناک انکشاف پر برطانوی محکمہ صحت کا بوکھلاہٹ اور ندامت سے جو قابل رحم حال ہوا وہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ (4)بے حد خوشحال اور سرمایہ داری کے استحصالی نظام کی برکتوں سے مالا مال دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ بھی مشرق میں رہنے والے مسکینوں(پانی رکھنے والے پرانے مٹکوں پر گزارہ کرنے والوں) کو بہت متاثر بلکہ مرعوب کرتا ہے۔ بقول اقبال ؔیہی بلوری برتنوں کے مالکوں کی چکا چوند کر دینے والی چمک دمک کا کمال ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں مگر سرمایہ داری نظام کے مخالفین نے بڑی محنت کر کے یہ پتہ چلایا ہے کہ اسی برطانیہ میں پانچ لاکھ افراد اس حد تک غذائی قلت کے شکار ہیں کہ حکومت سے ملنے والی خیرات کے محتاج ہیں۔ ورنہ نوبت فاقہ کشی تک پہنچے۔ (5 )اگر ہم اتنے کمزور اور بے بس ہیںکہ ڈرون حملوں کی صورت میں ہونے والی مسلسل جارحیت کو نہیں روک سکتے تو اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ خود ڈرون نہ بنا سکیں۔ مصدقہ خبر کے مطابق اب ایک ڈرون طیارہ صرف پانچ ہزار ڈالر کی لاگت سے بنایا جا سکتا ہے۔ جنگلوں اور سمندروں میں غیر قانونی شکار کرنے والوں کو پکڑنے کے لئے دھڑا دھڑ ڈرون طیارے بنائے جا رہے ہیں۔ڈرون کی قیمت کم ہوتے ہوتے اب ایک اچھے موٹر سائیکل کے برابر آگئی ہے۔ (6 )حال ہی میں کئے جانے والے ڈرون حملہ میں طالبان کے راہنما ولی الرحمن کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے یورپ کے تمام اچھے اخبارات نے اپنے تبصروں میں متفقہ طور پر لکھا کہ اس حملہ کا مقصد تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ناممکن بنانا تھا۔ شمالی وزیرستان کے اہم ترین شہر میراں شاہ سے ایک میل کے فاصلہ پر چمسہ نامی گائوں پر کئے جانے والے حملہ میں چار جنگجومسلح افراد (اصل نشانہ صرف ولی الرحمن تھے) کو ہلاک کرنے کے لئے ضروری تھا کہ سارے گائوں کو اتنا تباہ کر دیا جائے کہ وہ دھوئیںکے بادلوں میں تبدیل ہو جائے۔ اَن گنت افراد ہلاک کر دیئے جانے والے لوگوں کا واحد جرم یہ تھا کہ اُن کے گائوں کے ایک گھر میں وقتی طور پر ولی الرحمن بطور مہمان مقیم تھا۔ وہاں کئے جانے والے بے گناہوں کا جو ڈرون حملہ کا نشانہ بن گئے، نہ خبروں میں ذکر ہے اور نہ تبصروں میں، نہ نام نہ نشان، نہ دُرود نہ فاتحہ، نہ جنازہ اُٹھا نہ مزار بنا، بے گناہ مرنے والوں کا نہ حساب نہ کتاب۔ میں اتنا بہادر تو نہیں ہوں کہ ولی الرحمن کی ہلاکت کو شہادت لکھنے کی جرات کر سکوں مگر اتنا بزدل بھی نہیں کہ چمسہ گائوں میں ہلاک کر دیئے جانے والے، بارود سے بھسم کر دیئے جانے والے، چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جانے والے بے گناہ افراد (جن کی تعداد نامعلوم ہے اور ان میں یقینا عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں گے) کی ہلاکت کی ذمہ دار حکومتوں (ڈرون حملے کرنے والی اور ڈرون حملوں کی اجازت دینے والی) کو عذاب الٰہی اور خلق خدا کے غیظ و غضب سے نہ ڈرائوں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں