ڈرون کے خلاف احتجاجی مہم اور کچھ دلچسپ باتیں

12 جون کو برطانیہ کے سب سے موقر روزنامہ گارڈین میں جو خط شائع ہوا۔ میرے لئے اس کا اُردو ترجمہ کرنے سے زیادہ کوئی کام آسان نہیں مگر میرے خیال میں یہ نامناسب ہوگا۔ ترجمہ سے اس تحریر کی خوشبو اتنی دھیمی ہو جائے گی کہ ہمارے قارئین (جن کی بڑی تعداد عام فہم انگریزی کو بخوبی سمجھ سکتی ہے) نیچے لکھی گئی سطور کی اصل رُوح کا فہم حاصل نہ کر پائیں گے۔ مندرجہ ذیل سطور ہمیں بتاتی ہیں کہ برطانیہ میں چلائی جانے والی احتجاجی مہم کی بنیاد یہ ناقابل تردید رپورٹ ہے کہ پاکستان پر کئے جانے والے 350 ڈرون حملوں میں کم از کم 475 غیر مسلح اور معصوم شہری ہلاک ہوئے۔ The Guardian Wednesday 12 June 2013 End the secrecy Over UK drones Today, the Drone Campaign Network will deliver a petition, signed by 10,000 People, calling on the UK government to end the secrecy surrounding the use of British drones in Afghanistan. According to Ministry of Defence figures, the RAF has launched at least 365 drone strikes in Afghanistan since May 2008. Yet its claims that only four civilians have been killed is literally unbelievable,eg an analysis of 350 CIA drone strikes in Pakistan put the civilian death toll there at least 475. What proportion of weapon firings by UK drones are pre-planned and how many are done on the-fly? How does the UK confirm that its targets are not civilians? And does it ever launch strikes against people not directly participating in hostilities? We simply don\'t know, and attempts to use the Freedom of Information Act to get such information have been rebuffed on the spurious grounds that its release would be \"likely to prejudice the defence of the British Island\". As the RAF starts launching \'drone strikes from British soil (Report, 25 April), the government must lift the veil of secrecy surrounding this deadly form of remote-control warfare. Joanne Baker ) Child Victims of War( Warren Bardsley )Friends of Sabeels(. Chris Cole )Drone Wars UK,( Andy Cope )SPEAK Network,( Rona Drennan )Hastings Against War( Helen Drewery Quaker Peace, Maya Evans )Voices for Creative Non Violence UK( Ann Feltham )Campaign Against Arms Trade,( Pat Gaffney Pax Christi, Javier Garate )War Resisters \'International,( Jill Gough )CND Cymru,( Richard Johnson )Leicester CND,( Millius Palayiwa )Fellowship of Recondition, England,) Dr Stuart Parkinson (Scientists for Global Responsibility, Lindis Percy ) …………………………… ثقیل تبصروں نے گذشتہ کالم کو بوجھل بنا دیاتھا۔ آیئے ہم آپ کو چند دلچسپ باتیں سناتے ہیں۔ - 1 خون کے تجزیہ کی جدید ترین تکنیک (جس کی بنیاد DNA یعنی خون کے بنیادی خلیے ہیں) نے ثابت کر دیا ہے کہ آنجہانی شہزادی ڈیاناDiana کے آبائو اجداد میں سات پشت پہلے بزرگ کا تعلق ہندوستان سے تھا۔ رشتہ یہ بنتا ہے: ڈیانا کی نانی کی نانی کی نانی کی نانی کی نانی کے دادا جان۔ یہ حساب ہمارے لئے جوڑنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ بہرحال ڈیانا کی اولاد کو توہم اس مصیبت میں پڑنے سے نہیں روک سکتے۔ مرحومہ کا بڑا بیٹا اپنی نانی (موجودہ ملکہ)کی وفات یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں برطانیہ کا اگلا بادشاہ بن جانے کے امکانات میں جواریوں کی لگائی جانے والی شرطوں میں سب سے آگے ہے۔ یہ غالبؔ کا کمال ہے کہ اُس نے اپنے خون کا تجزیہ کروائے بغیر پورے یقین کے ساتھ اعلان کر دیا تھاکہ سات پشت تو کل کی بات ہے‘ سو پشت پہلے ان کے آبائو اجداد کون تھے اور ان کا پیشہ کیا تھا (سپاہ گری کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا؟) - 2 آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد ایک ہزار سال پہلے رکھی گئی تھی ۔ آج ہم آپ کو آکسفورڈ کے شہرئہ آفاق آرٹ میوزیم لئے چلتے ہیں۔ جس کا نام ہےAshmolean‘ یہ 330 سال پرانا ہے ۔ ان دنوں وہاں یورپ کے ایک عظیم فنکار (Raphael ) رافیل کی شاہکار تصویروں کی نمائش ہر روز اتنے لوگوں کو مقناطیس کی طرح کھینچ لاتی ہے کہ فنون لطیفہ کے دلدادگان کی تعداد کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ رافیل نے صرف 37 سال عمر پائی۔محقق کہتے ہیں کہ جنسی آوارگی قبل از وقت موت کا باعث بنی۔ رافیل کی کئی شہرۂ آفاق تصویریں اُس کی وفات کے بعد اس کے وفادار‘ خدمت شعار اور تابعدار (جنہوں نے خوش قسمتی سے اپنے اُستاد کے کردار کو نہ اپنایا) شاگردوں نے مکمل کی مگر اتنی مہارت سے کہ بالکل پتہ نہیں چلتا کہ استاد کی استادی کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں ختم ہوئی؟ اس آرٹ میوزیم میں شاہکار تصویروں کی کل تعداد 27,000 ہے۔ (آپ آکسفورڈ جائیں تو ایک دن صرف اس عجائب گھر کے لئے لے کر جائیں۔) یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے۔چونکہ T.E Lawrence(جو لارنس آف عریبیا کے نام سے مشہور ہوا) سے لے کر اب تک بہت سے مشاہیر اپنی وصیت میں یہ لکھ کر دُنیا سے رُخصت ہوئے ہیں کہ جو تصویریں اُن کا سب سے قیمتی سرمایہ رہی ہیں وہ مذکورہ بالا میوزیم کو بطور تحفہ دے دی جائیں۔ تحفوں کا انبار ہے کہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ؎ ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ ہماری قوم اس وقت زندگی موت کی کشمکش میں گرفتار ہے۔ خدا کرے وہ وقت آئے جب ہم بھی اہل یورپ کی طرح جمالیات کی طرف توجہ دیں۔ ہم شمشیر و سناں کے مرحلہ سے بچ نکلے تو طائوس و رباب کی طرف ضرور رُجوع کریں گے۔ دوسری زندہ قوموں کا یہی شیوہ ہے ۔بقول اقبالؔ یہی اُمتوں کی تقدیر ہے مگر حکیم الامّت نے جن معنوں میں اول و آخر کا ذکر کیا تھا میں نے اُسی بیانیہ کو مختلف بلکہ متضاد مفہوم میں پیش کرنے کی بے ادبی کی ہے۔ آج اقبالؔ زندہ ہوتے تو غالباً ایک بوڑھے کالم نگار کی اس گستاخی سے درگزر فرماتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں