مغربی یورپ کے تین خوبصورت ملکوں کی سیر

یہ کالم اس لئے معمول سے ہٹ کر ہے کہ یہ تین دنوں میں تین مختلف ممالک میں لکھا جائے گا۔ مغربی یورپ کے یہ تین پڑوسی اور جڑے ہوئے ممالک Baltic States کہلاتے ہیںاورجس ساحل سمندر پر آباد ہیں وہ بھی Baltic Sea کہلاتا ہے۔ 17 اگست کی صبح کو مغربی لندن کے ہوائی اڈہ لیوٹن سے پرواز شروع ہوئی اور ڈھائی گھنٹے کے بعد لٹویا(Latvia )کے دارالحکومت ریگا(Riga) پہنچ گئی۔ یہ ہزار سال قدیم شہر ہے۔ اہل مغرب کی پختہ روایت کے مطابق اس شہر کے رہنے والوں نے بھی اپنا تاریخی ورثہ بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں سارا سال سیاحوں کی بہت بڑی تعداد آتی ہے ۔دیکھنے کی آرزو بار بار دیکھنے سے بھی نہیں جاتی، اس لیے بہت سے سیاح بار بار یہاں آتے ہیں ۔یہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ میں شُبھ گھڑی آیا ہوں۔ ہر صدی میں یہ شہر اپنا جنم دن وسط اگست میں ایک بار مناتاہے اور اس صدی کے لئے 17 اور 18 اگست2013 ء کے دن چنے گئے تھے۔ غروب آفتاب کے بعد موسیقی کا زبردست پروگرام اور اس کے بعد نہ بھولنے والی آتش بازی۔ میں اس جشن دیکھنے کی تیاری کرنے کے ساتھ ساتھ بی بی سی پر تازہ خبریں بھی سننے لگا ۔ مصر کے بازاروں میں عوام کے فوج کے ہاتھوں قتل عام کی رُوح فرسا خبر کی تفصیل سن کر اور جا بجا بے گناہ اور پرُ امن مظاہرین کی لاشوں کے انبار دیکھ کر دل اس قدر پریشان ہوا کہ جشن میں شریک ہونے کا ارادہ متزلزل ہو گیا۔ اگلی خبر جو بی بی سی ٹی وی کی عالمی سروس نے دکھائی وہ پنجاب کی تھی جہاں بے شمار دیہات ایک بار پھر تباہ کن سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔گہرے پانی میں خواتین اپنے بچے اُٹھائے بڑی بہادری سے محفوظ مقامات کی طرف جاتی نظر آئیں ۔اِہل وطن کو سیلابی ریلے میں پھنسنے کا یہ منظر دیکھ کر اُن کے ایک ہم وطن کا بوڑھا دل بھی غم و انددہ میںڈوب گیا۔ مجھے اس جشن میں شرکت کا ارادہ ترک کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ ساری شام یہ سوچتے گزری کہ جب سے ہمارا ملک معرض وجود میں آیا ہے، وہاں باقاعدگی سے خوفناک سیلاب آتے ہیں مگر یہ غیر متوقع ہرگز نہیں ہوتے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ہر بار اسی طرح تباہی و بربادی کا شکار ہوتے ہیں اور کوئی بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرنے، عوام کے بچائو کے لئے ضروری اقدامات کرنے اور آنے والی قیامت خیز تباہی سے مریضوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو بچانے کا بندوبست کرنے کی بجائے ہمیشہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب پانی سر سے گزرنے لگے تو بھاگ دوڑ شروع کرتے ہیں۔ کبھی فوج کو بلاتے ہیں اور کبھی خالق دو جہاں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں ۔جب امدادی سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں، بے شمار مالی اور جانی نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ مصطفی زیدی نے اپنی محبوبہ کو پتھروں پر چل کر اُن کے پاس آنے کی چیلنج نما دعوت دی تھی اور دلیل یہ تھی کہ اُن کے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے۔ریگا نے بھی مجھے اسی قسم کی دعوت دی مگر اس فرق کے ساتھ یہ شہر رات کو بُقعہ نور بنا ہوا تھا اوراُس کے تمام بازاروں میں کہکشاں جگمگا رہی تھی۔ کالم کی محدود جگہ اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ کو ان تین برادر ممالک کی تاریخ بتائوں ،صرف اتنا لکھنا کافی ہوگا کہ یہ صرف بیس سال پہلے رُوس کے تسلط سے آزاد ہوئے۔ دُوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو ان پر جرمنی نے قبضہ کر لیا اور رُوسی تسلط کو پہلی بار ختم کیا۔ جنگ عظیم ختم ہوئی تو رُوسی فوجوں نے جرمنی کو شکست دے کر اسے پھر اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ سوویت یونین کے خاتمہ سے ان ممالک کو بھی (وسط ایشیائی ممالک کی طرح) آزادی نصیب ہوئی۔ پاکستانیوں کے برعکس مشرقی اور شمالی یورپ اور وسط ایشیا کے نو آزاد ملک اپنی آزادی کی قدر کرتے ہیں اور فخر بھی۔ آزادی کی قدر کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے ملک کے قوانین کا احترام کیا جائے۔ ہر قسم کی لوٹ مار سے سخت پرہیز کیا جائے کہ یہ شیوئہ غلامی ہے۔ اپنے ہم وطنوں کی عزت کی جائے اور اُن کا خیال رکھا جائے۔ اپنے ملک کی سرزمین کو بے حد صاف رکھا جائے۔ اگر آپ کے ملک کا نام پاکستان ہے تو اُسے ہر معنی میں پاک رکھا جائے، پاک کیا جائے، سرسبز و شاداب بنایا جائے اور اُس کے نقش و نگار سنوارے جائیں۔ میرے خیال میں علامہ اقبالؔ کو اپنی علمی سرگرمیوں کی وجہ سے ہائیڈل برگ کے علاوہ دُوسرے شہروںکی سیر کا وقت نہ ملا ہوگا ورنہ وہ پراگ کے علاوہ ریگا اور ٹالن (Tallinn)کے قدیم اور عظیم الشان گرجا گھروں کو دیکھنے کے بعد یہ شکایت نہ کرتے کہ مسیحی عبادت گاہوں کے مقابلہ میں بینکوں کی عمارتیں بڑھ کر ہیں۔ علامہ اقبالـؔ نے یورپ کا جتنا بھی حصہ دیکھا وہ شاعر مشرق سے یہ مبالغہ آمیز مصرع لکھوا گیا ع افرنگ کا ہر گوشہ ہے فردوس کی مانند میں 18 اگست کو افرنگ کے ایک گوشہ سے آرام دہ بس میں ساڑھے چار گھنٹے کا سفر کرتا ہوا اسکے دُوسرے گوشہ تک پہنچ گیا۔ دو سو میل لمبی سڑک کے دونوں طرف گھنے جنگلات نظر آئے۔ اتنے درخت دیکھے کہ سر چکرا گیا۔ ان تین ملکوں کی آبادی ہمارے شہر کراچی سے بھی کم ہے۔ اُن ممالک کے رقبہ کا اسّی فیصدصد درختوں سے ڈھکا ہو اہے۔ ایک درخت جس کا نام صنوبر ہے ،اقبالؔ کو اتنا پسند آیا کہ اُنہوں نے اس کے بارے میں اس کا نام لے کر یہ شعر لکھا : ؎ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پابہ گل بھی ہے انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کرلے اقبالؔ نے اپنی قوم کی جامد صورت دیکھی تو ہمیں صنوبر بن جانے کا مشورہ دیا۔ آپ غور فرمائیں تو غالباً میرے ساتھ متفق ہوں گے کہ ایک ارب سے زیادہ مسلمان ذہنی طور پر گل محمد بنے ہوئے ہیں یعنی درختوں سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ 19 اگست کی شام مجھے ایک پرواز ایسٹونیا(Estonia) کے قدیم اور قابل دید دارالحکومت ٹالن سے تھوانیا کے دارالحکومت ویلنیس (Vilnius ) لے آئی۔ پھولوں سے لدی ہوئی شاہراہوں کے وسط میں اور دونوں جانب قطار اندر قطار درخت اس شہرکے حُسن کو دوبالا کرتے ہیں ۔اس شہر کے بہادر لوگوں نے سوویت یونین کے سامراجی قبضہ کے خلاف بائیس سال قبل ایک زبردست مزاحمتی تحریک چلائی۔ درجنوں افراد نے جان کی قربانی دی۔ رُوسی ٹینکوں کی مظاہرین پر چڑھائی کو کنکریٹ کے جن بڑے بڑے بلاکوں کو رکھ کر روکا گیا تھاوہ اب پارلیمنٹ کے باہر نمائش اور سیاحوں کی زیارت کیلئے رکھے گئے ہیں۔ نئی نسل اُن شہیدوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں جن کی قربانی کی بدولت اُن کا ملک آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہا، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ہاں نوجوانوں کو بھگت سنگھ، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان اور موجودہ پیر پگاڑا کے دادا سے لے کر جزائر انڈیمان (کالا پانی) میں عمر قید کی سزا بھگتنے والوں میں سے شاید ہی کسی کا پتا ہو۔ مذکورہ ممالک میں مجھے ایک بھی ایسا شخص نظر نہیں آیا جو میری طرح غیر سفید فام ہو۔ پڑوسی ملک ناروے نے اس کی کسر نکال دی جہاں کم از کم پچاس ہزار پاکستانی آباد ہیں۔ گزشتہ ماہ رمضان نے ناروے کے مسلمانوں کا بہت سخت امتحان لیا چونکہ یہاں روزہ کھولنے اور شروع کرنے میں بمشکل ایک گھنٹے کا وقفہ ہوتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی لغت میں اجتہاد کا لفظ سرے سے غائب ہے۔ اقبال ؔ کی لغت میں تھا توہوا کرے ،ہمیں کیا؟ ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں