انقلاب ،حکیم اللہ محسود اور غلامی

پچھلا کالم فاطمہ بھٹو کے تبصرہ پر ختم ہوا تھا۔ آج کا کالم فاطمہ کے ذکر سے ہی شروع کیا جاتا ہے۔ برطانیہ میں جب خزاں کی ٹھنڈی اور مرطوب ہوا چلے تو وہ نہ صرف زرد پتوں کو اُڑاتی ہے بلکہ انقلاب کی چنگاریوں کو جگاتی اور شعلوں (چاہے کتنے مدھم ہوں) میں تبدیل کرتی ہے۔ برطانیہ میں Russell Brand لوگوں کو اپنے مزاحیہ جملوں سے ہنسانے کا ماہر ہے، نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران موجودہ نظام پر اتنا فکر انگیز تبصرہ کیا کہ اُس کے اُٹھائے ہوئے نکات برطانیہ کے تمام سنجیدہ حلقوں میں بحث کا موضوع بن گئے۔ اگرچہ اس کی ساری کی ساری باتیں توجہ طلب ہیں مگر خاص بات یہ ہے کہ اُن کی تان جا کر انقلاب کے نعرئہ رندانہ پر ٹوٹتی ہے۔ اس پس منظر میں برطانیہ کے سب سے معتبر سیاسی ہفت روزہNew Statesman نے اپنی حالیہ اشاعت میں Noam Chomsky جیسے بڑے دانشوروں سے پوچھا کہ ان کی نظر میں انقلاب کا کیا مطلب اور کیا معنی ہے؟ جن روشن دماغ لوگوں سے یہ اہم سوال کیا گیا اُن میں فاطمہ بھٹو اور ہمارے سلمان احمد (بین الاقوامی شہرت کے فن کار اور Activist ) بھی شامل تھے۔ اس مضمون کی ابتداء بھی فاطمہ کے جواب سے کی گئی۔ فاطمہ نے لکھا کہ وہ کابل میں پیدا ہوئیں۔ دمشق میں پلی بڑھیں اور اب کراچی میں رہتی ہیں۔فاطمہ کے ذہن میں انقلاب کا مطلب ہے انصاف کے لئے جدوجہد اور مستقبل کو ماضی پر فوقیت دینے کا عمل۔ یہ داخلی بغاوت کا دُوسرا نام ہے اور اس کے اجزائے ہیںصحیح سمت،نیک نیتی، اچھا کلام،اچھے اعمال،رزق حلال، بہترین کوشش، ذہنی پاکیزگی، یکسوئی اور کامل دھیان۔اس کے بعد فاطمہ نے دیانتداری سے اعتراف کیا کہ یہ سارے الفاظ اُنہوں نے گوتم بدھ کے اقوال سے مستعار لئے ہیں۔ یہ الفاظ بدھ کی زبان سے ہزاروں سال پہلے ادا ہوئے مگر اُن سے بہتر انقلاب کی تعریف کوئی اور الفاظ نہیں کر سکتے۔ نوم چومسکی کو گوتم بدھ کے الفاظ دہرانے کی ضرورت نہ تھی چونکہ اُن کا شمار دنیا کی بڑے فلاسفروں میں ہوتا ہے ۔وہ یہودی ہونے کے باوجود اسرائیل کے جانی دشمن ہیں ۔ان کے بعد ہمارے سلمان احمد کی باری آئی۔ اُنہوں نے ہمیں یہ خوش خبری سنائی کہ وہ بہت جلد پاکستان کے طول و عرض کا دورہ کر کے عوام سے براہ راست ملنا اور تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ قومی اتفاق رائے جن چار نکات پر قائم کیا جاسکتا ہے وہ ہیں۔ امن ، انصاف، روزی (روزگار) اور تعلیم۔ ہم شہید کی بے مقصد بحث کریں یا سلمان احمد کی بات سنیں۔ جس قوم کے راہنمافی سبیل اللہ فساد پھیلانے میں مہارت رکھتے ہوں اُن کا دھیان کبھی اس تشویش ناک رپورٹ پر نہیں جاتا (اور نہ جاسکتا ہے) کہ آٹھ ہزار افراد بارہ بارہ سالوں سے پھانسی کی اُن کال کوٹھڑیوں میں اپنی اپیلوں کے فیصلہ کا انتظار کرتے ہیں جہاں برطانوی قانون کے تحت آپ کتے کو نہیں رکھ سکتے۔ اُنہیں یہ بھی فکر لاحق نہیں کہ ساٹھ فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ اُنہیں اس کی کوئی بھی پروا نہیں کہ صحت کے عالمی ادارےWHO کے مطابق دُنیا بھر میں Hepatitis کے سب سے زیادہ مریض گوجرانوالہ میں ہیں۔ اُسے ایشیاء کا (صحت کے اعتبار سے) بدترین شہر ہونے کا ’’اعزاز‘‘حاصل ہے۔ دُوسرے بڑے فن کار جواد احمد بھی یہی کہتے ہیں مگر ہمارے سیاست دانوں کو ان مسائل کا شعورہے، نہ فکر ۔ دو سے تین نومبر تک تمام برطانوی اخباروں میں حکیم اللہ محسود کے امریکی ڈرون حملہ میں ہلاک ہو جانے کی خبر نمایاں طور پر شائع کی گئی۔ BBC کے خبر ناموں میں اُس خبر کو بار بار دہرایا گیا ۔ہر ٹیلی ویژن چینل پر نشر کی جانے والی خبروں میں پہلی خبر شمالی وزیرستان میں کئے جانے والے ڈرون حملہ اور ہلاک ہو جانے والے شخص کے بارے میں تھی۔ چار نومبر کو گارڈین نے صفحہ نمبر33 پر اپنے تعزیتی مضمون میں جو لکھا اُس کا خلاصہ یہ ہے ’’حکیم اللہ کی عمر34 سال تھی۔ وہ کرشمہ سازی اور خوئے دلنوازی کی ساتھ بے رحم مزاج کی شخصیت کا مالک تھا۔ انگریزی الفاظ میں Charming/ Charismatic/ Ruthless ۔اُسے2009 ء میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد قائد بنایا گیا۔ 2010 ء میں وہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن بن گیا اور اُس نے خیبر پختون خوا، اسلام آباد اور پنجاب میں فوجیوں اور شہریوں کی بہت بڑی تعداد کو خودکش بم دھماکوں سے مار ڈالا۔ یہ وہ انتقامی کارروائی تھی جو جنوبی وزیرستان (حکیم اللہ کی جنم بھومی) پر پاکستانی فوج کے حملہ کے بعد شروع کی گئی۔ پیدائش کے وقت اُس کا نام ذوالفقار رکھا گیا۔ جائے پیدائش کا نام ہے Kotkai ۔ کئی صدیوں سے محسود قبیلہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلح مزاحمت کرنے میں اتنی شہرت رکھتا ہے کہ سابق انگریز حکمران سر آلف کیرو(Sir Olaf Caroe)کے الفاظ میں بھیڑیوں جتنے وحشیانہ کردار کا مالک ہے۔ مدرسہ میں زیادہ دیر نہ پڑھا اور AK-47بندوق جلد سنبھال لی اور بہادری کیلئے مشہور ہو گیا۔ بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ اخباری نمائندوں پر رُعب ڈالنے کے لئے ایک پہاڑ کی چوٹی پر اپنی جیپ کو تیز رفتاری سے چلاتے ہوئے کنارے سے (آگے ہزاروں فٹ گہری کھائی تھی) چند فٹ پہلے بریک لگا کر روک لیتا تھا۔ اس کے مداح اس کو دوسرا نیک محمد کہتے تھے،جسے 2004 ء میں CIA کی طرف سے کئے جانے والے پہلے ڈرون حملہ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ نیک محمد کے مقابلہ میں حکیم اللہ زیادہ راسخ العقیدہ اور فرقہ پرست تھا۔ 2007ء میں اُس نے جنوبی وزیرستان میں پاکستان کے (کم از کم) دو سو فوجیوں کو اغوا کر لیا۔ سارے یرغمالی اُس وقت رہا کئے گئے، جب حکومت پاکستان نے کئی درجن طالبان قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ اُس کے لشکر جھنگوی سے قریبی تعلق تھا۔ اُس کا چچا زاد بھائی (قاری حسین محسود) لشکر جھنگوی کا لیڈر تھا۔ کم عمر نوجوانوں کو خود کش حملوں کی تربیت دیتا تھا اور خود2010 ء میں ڈرون حملہ کا شکار بنا۔ 2008 ء میں حکیم اللہ نے اس گروپ کی راہنمائی کی جس نے NATO کا سامان لے جانے والے ٹرکوں پر حملہ کر کے اُنہیں نذر آتش کر دیا۔ وہ کمزوروں پر ہر گز رحم نہیں کرتا تھا۔ایک اطلاع کے مطابق مارچ2009 ء میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی بھی اس نے کی تھی۔ صرف تین ماہ بعد پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر کئے جانے والے حملہ کا مقصد اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو ہلاک کرنا تھا چونکہ وہ امریکہ کے چہیتے ہورہے تھے۔حکومت پاکستان نے اس کے سر کی قیمت پچاس ملین روپے رکھی اور امریکی حکومت نے پچاس ملین ڈالر۔ آٹھ جنوری 2010 ء کو ایک متنازعہ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ حکیم اللہ جس شخص کے ساتھ بیٹھا دوستانہ گفتگو کر رہا ہے، اُس کا نام Humayun Khalil Abu Malak ہے۔ اُس نے اسی دن افغانستان میں CIA کے سات بڑے حکام کو بم دھماکہ سے ہلاک کر دیا تھا ۔ پچھلے برس بھی اُس کی ہلاکت کی خبر نشر کی گئی۔ اکتوبر2013 ء میں حکیم اللہ نے BBC کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان سے صرف اس شرط پر مذاکرات کرنے پر تیار ہے کہ ڈرون حملے پہلے بند کئے جائیں۔ اور آخر میں یہ دُنیا کے سات تحقیقی اداروں نے عصر حاضر میں غلاموں کی تجارت پر جو رپورٹ شائع کی ہے، اُس کے مطابق دُنیا بھر میں 29.8 ملین (آپ اسے دس لاکھ سے ضرب دے لیں ) انسان غلاموں کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سر فہرست ہمارا ہمسایہ بھارت ہے، (13.9 ملین) اورپاکستان بھی کچھ زیادہ پیچھے نہیں ۔ یہاں غلاموں کی تعداد2.1 ملین (یعنی 21 لاکھ) بتائی گئی ہے۔ سید منور حسین صاحب اور مولانا فضل الرحمن کو چاہیے کہ اس پر غور فرمائیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں