نیا سال مبارک!

جس دن میرے قارئین مندرجہ ذیل سطور کو پڑھ رہے ہوں گے وہ سالِ رواں کا آخری دن ہوگا۔ یہ دن اس لئے بے حد اہم ہے کہ اُس دن ہم نہ صرف مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں کہ کیا کھویا کیا پایا؟ جہاں گذرے ہوئے سال میں ملنے والی خوشیوں اور دُکھوں کی فہرست مرتب کرتے ہیں، وہاں خوش اُمیدی اور نیک خواہشات کے ساتھ آنے والے سال کی طرف دیکھتے ہیں۔ نصف صدی سے اپنے آبائی وطن سے چھ ہزار میل کے فاصلہ پر رہنے والا 77 سالہ کالم نگار دُعا گو ہے کہ آنے والا سال آپ کے لیے، آپ کے اہلِ خانہ کے لیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے وطن عزیز کے لیے مبارک ثابت ہو۔ تین الفاظ پر اکتفا کرتا ہوں۔ نیا سال مبارک ! 
میں دسمبر میں دو ہفتے پاکستان گزار کر واپس آیا تو اسی میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز اور برفانی ہوائوں نے میرا استقبال کیا۔ برطانیہ میں آمد و رفت اور زندگی کے معمولات درہم برہم تو نہ ہوئے مگر متاثر ضرور ہوئے۔ اس طرح کی آزمائشوںسے پتہ چلتا ہے کہ فرد یا معاشرہ یا ریاستی نظام کتنا مضبوط یا کتنا کمزور ہے؟ کسوٹی یہ ہے کہ بحرانوں، مصیبتوں (جو ہمیشہ ناگہانی ہوتی ہیں) اور آزمائشوں کا مقابلہ کس طرح کیا گیا؟ صبر سے، ہمت سے، بہادری سے یا بے نظمی، بے ترتیبی اور پست ہمتی سے؟ ماضی قریب میں سب سے روشن مثال جاپان کی ہے جہاں سونامی سے آنے والی قیامت خیز تباہی سے ایٹمی ری ایکٹر کو بھی بُری طرح نقصان پہنچا اور کافی زیادہ تابکاری پھیلی۔ جاپانیوں نے اس نظم و ضبط سے اتنی بڑی مصیبت کا مقابلہ کیا کہ انہیں ٹوپی اُتار کر سلام کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے بدترین مثال ہماری اپنی ہے کہ زلزلہ آنے کے اتنے ماہ بعد بھی جنوبی بلوچستان میں ہزاروں گھرانے (عورتوں اور بچوں سمیت) بے سرو سامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ مانا کہ اسلام آباد کا بابو نگر ان اُفتاد گانِ خاک سے بہت دُور ہے مگر کوئٹہ میں ڈاکٹر مالک جیسے عوام دوست شخص کی حکومت کی مجرمانہ غفلت دیکھ کر جتنا بھی روئیں، کم ہوگا۔ اگر ڈاکٹر مالک خود 'دُنیا ‘کے قارئین میں شامل نہیں تو اُن کا کوئی نہ کوئی افسر تو یہ اخبار ضرورپڑھتا (پڑھتا نہیں تو دیکھتا) ہوگا۔ اقبالـؔ کا بھلا ہو کہ اُنہوں نے ہمارے راکھ سے بھرے ہوئے دلوں میںاُمید کا چراغ روشن کرتے ہوئے لکھا ؎ 
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
میرا سوال یہ ہے کہ اسلام آباد اور کوئٹہ (جو غالباً افلاک سے بھی زیادہ دُور ہیں) کے ایوانِ اقتدار میں زلزلہ زدگان (اور وہ بھی ہزاروں) کی فریاد کب سنی جائے گی؟
پاکستان میں دو ہفتوں کے قیام کے دوران مجھے دانشوروں اور عوام (پاکستان میں ان دونوں میں بُعدالمشرقین ہے یعنی Polls Apart) دونوں سے ملنے اور بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملے۔ انفرادی ملاقاتوں کی فہرست تو اتنی طویل ہے کہ گنوائی نہیں جا سکتی، صرف اجتماعی ملاقاتوں کا تذکرہ ممکن ہے اور مناسب ہے کہ اسلام آباد میں ایک معزز اور معتبر تحقیقی ادارہSDPI کی بین الاقوامی کانفرنس کے علاوہ ایوانِ اقبال لاہور میں قومی مسائل پر غور و خوض کرنے والی کونسل کی ہفت روزہ نشست اور آنے والے وقت کے لیے اتفاق رائے سے ایک جاندار سیاسی ایجنڈا مرتب کرنے والی قومی مجلسِ مشاورت کے دُوسرے سہ ماہی اجلاس میں شرکت سے لے کر پسرور (ضلع سیالکوٹ) میں اپنے گرد آلود آبائی گائوں میں رہنے والوں (اہلِ حدیث اور بریلوی مسلکوں کے اختلاف میں برُی طرح اُلجھے ہوئے ایک ہی برادری کے افراد) اور ساہیوال کے دو دُور دراز دیہات میں کسانوں اور مزارعین سے جوش و جذبہ بڑھانے والی ملاقاتوں تک۔ وکالت کی مصروفیت آڑے نہ آئے اور روزنامہ 'دُنیا ‘کے فاضل مدیر مجھے ایک کالم کی بجائے پورا صفحہ دینے کا فیاضانہ (مگر غلط) فیصلہ کر دیں تو میں وُہ آپ کے سامنے رکھ دُوں جو میں نے دیکھا اور سنا اور محسوس کیا۔ مختصراً یہ کہ مجھے ہر طرف خوف، بے یقینی اور اضطراب کی فضا نظر آئی۔ پوری قوم تقسیم در تقسیم کی برُی طرح شکار ہو چکی ہے۔ ہماری پرانی اور قابلِ فخر تہذیبی روایت کے مطابق میزبان ہمیشہ اصرار کر کے مہمان کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتا ہے۔ مجھے لاہور سے براستہ کراچی واپس لندن آنا تھا، مگر کراچی میں میرے میزبانوں نے متفقہ طور پر مجھے مشورہ دیا کہ میں کراچی نہ آئوں۔ وہ میری حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ میں نے PIA کو (جس نے 21 دسمبر کو مجھے 
لاہور سے لندن کی آٹھ گھنٹے کی پرواز کے دوران ایک وقت کا کھانا کھلانے سے بھی انکار کر دیا۔) 35 پائونڈ جرمانہ ادا کر کے ٹکٹ تبدیل کرالیا اور لاہور سے ہی اپنے دُوسرے وطن لوٹ آیا۔
صرف برطا نیہ نہیں بلکہ دُنیا بھر میں شاید ہی کوئی ہفت روزہ اکانومسٹ(The Economist) سے زیادہ توجہ اور اتنی بڑی تعداد میں پڑھا جاتا ہو۔ بدقسمتی یہ رسالہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ترجمان ہے اور دائیں بازو کی سامراجی سوچ اس میں لکھی ہوئی ایک ایک سطر سے ٹپکتی ہے۔ ہر سال کے آخر میں یہ رسالہ اگلے سال کی پیش گوئیوں پرمشتمل ایک خصوصی ضمیمہ شائع کرتا ہے۔ میں تیزی سے ورق گردانی کرتا ہوا صفحہ نمبر100 تک پہنچا چونکہ وہاں پاکستان کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ چلیے خشک اعداد وشمار کی طرف چلتے ہیں۔ ہماری قومی آمدنی کے سالانہ بڑھائو (GDP Growth) کی شرح (بھارت کی 8.1 فی صد کے مقابلہ میں) 5 فیصد ہو گی۔ فی کس آمدنی(بھارت کے 1700 امریکی ڈالروں کے مقابلہ میں) 1350 امریکی ڈالر ہوگی۔ بھارت میں افراطِ زر کی شرح نو فی صد سالانہ ہوگی، جبکہ پاکستان میں (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) 6.9 فیصد۔ قومی آمدنی کے مقابلہ میں بجٹ میں خسارہ6.2 فی صد ہوگا اور آبادی ساڑھے اٹھارہ کروڑ تک جا پہنچے گی۔ اس رسالہ کے باخبر ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کے سامنے سب سے بڑا امتحان نہ صرف طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ ہوگا بلکہ داخلی اور خارجی تحفظ (سکیورٹی) سے جُڑے ہوئے حساس معاملات میں فوج کے انٹیلی جنس ادارہ ISI کا عمل دخل ختم کرکے اُسے سیاسی قیادت کے تابع کرنا ہوگا۔ توانائی کا بحران بھی ہمارے وزیراعظم کے لیے کافی سر دردی کا باعث بنے گا۔
برطانوی اخباروں نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ (U.S.A ) کے جنوبی ہمسایہ میکسیکو (Mexico)کے بارے میں دو دلچسپ خبریں شائع کیں جو ان سطور کے قارئین کے لئے خصوصی توجہ کی طلبگار ہوں گی۔ صدیوں سے میکسیکو غربت کا شکار رہا ہے اور اس کا شمالی ہمسایہ امریکہ خوشحالی کی قابل رشک مثال رہا ہے۔ امریکہ نے میکسیکو سے غیر قانونی طو رپر داخل ہونے والے تارکینِ وطن کو روکنے کے لیے دو ہزار میل لمبی باڑ نصب کی جس پر 
کروڑوں ڈالر خرچ آئے۔ بن بلائے مہمانوں کی روک تھام پر کروڑوں ڈالر خرچ کرنے اور موثر باڑ کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تو اہلِ امریکہ کو معلوم ہوا کہ میکسیکو کے عوام کی قسمت نے اتنا پلٹا کھایا ہے کہ اب وہ امریکہ جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔وہاں اربوں ڈالر کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری سے کاروں کے پرزے بنانے سے لے کر ہوائی جہازوں کے پرزے بنانے تک نئی صنعتوں کا جال بچھایا جاچکاہے۔ ایک نیا متوسط طبقہ اُبھر رہا ہے۔ میکسیکو کی سرحدی امریکی ریاستArizona کی حکومت اب ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہو گئی ہے جو میکسیکو کے خوشحال باشندوں کو امریکہ کی سیر پر آنے۔ وہاں اپنے غریب رشتہ داروں کو ملنے اور اس سیر کے دوران وہاں لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کر کے مقامی معیشت کو سنبھالا دینے کی ترغیب دے سکیں۔ یہی حال کیلی فورنیا کا ہے جہاں اب مذکورہ بالا فصیل نما باڑ کے اُوپر ایک ایسا پل بنایا جا رہا ہے، جو میکسیکو سے آنے والے سیاحوں کے آنے جانے کے لئے استعمال کیا جا سکے گا۔ پہلے میکسیکو کی برآمدات غیر قانونی تارکینِ وطن اور منشیات پر مشتمل تھیں۔ صدیوں تلک اہلِ امریکہ ان انتہائی غیر پسندیدہ برآمدات کے امریکہ میں داخلہ کو ناممکن بنانے میں مصروف رہے۔ جنرل موٹرز، فورڈ ہونڈا، نسان، فوکس ویگن... یہ تمام بڑی کمپنیاں اب اتنے بڑے پیمانے پر میکسیکو میں کاروں کے پرزے بنوا رہی ہیں کہ وہا ں اب کاروں کے پرزے بنانے والوں کی تعداد نہ صرف کار سازی صنعت کے امریکی گڑھDetroit بلکہ Midwestکی تمام ریاستوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ماضی قریب میں اتنا بڑا معاشی معجزہ شاید کسی اور جگہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میکسیکو کی معیشت فرش سے عرش تک جا پہنچی ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ اگلی بار ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار مغرب کی طرف پرواز کریں تو اپنا سفر واشنگٹن میں ختم کرنے کی بجائے چند سوڈالر (اور وہ بھی سرکاری خزانہ سے) اور خرچ کریں اور میکسیکو جائیں اور وہاں سے مذکورہ بالا نسخۂ کیمیا کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کر کے وطن لوٹیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں