پانچ تقریریں

ایک تاریخی دن اور پانچ تقاریر۔ 25 دسمبر۔۔۔ کرسمس کا دن! حفظ مراتب کا تقاضا ہے کہ ہم ملکہ برطانیہ کی تقریرسے کالم شروع کریں ۔ ہر سال کی طرح ملکہ کی تقریربی بی سی کے ہر ریڈیو اور ہر ٹیلی ویژن سٹیشن سے نشر کی گئی۔ ملکہ الزبتھ برطانیہ اور دولت مشترکہ کے تمام ممالک کی سربراہ ہیں۔اُنہوں نے دولت مشترکہ کے تقریباً ڈیڑھ ارب انسانوں کے لیے اپنی نیک تمنائوں کا اظہار کیا اور دُعا مانگی کہ ان سب کے لیے نیا سال مبارک ہو۔ خداوند تعالیٰ اُن کی خوشیوں میں اضافہ کرے ، مصیبتوں سے بچائے اور اگر دُکھ جھیلنے پڑیں تو ذاتِ باری ہمت ، حوصلہ اور صبرعطا کرے۔ ملکہ برطانیہ کے خطابات میں کبھی کوئی چونکا دینے والی بات نہیں ہوتی مگر وہ بڑی توجہ اور احترام سے سنا جاتا ہے۔ خطاب کا انداز اتنا دوستانہ اور غیر سرکاری ہوتا ہے کہ لگتا ہے آپ کے گھر میں آپ کا کوئی پرانا دوست کرسمس کے موقع پر پیش کیا جانے والے مشروب آرام سے پی رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ آپ سے دُکھ سکھ کی باتیں کر رہا ہے۔ ملکہ کا یہ خطاب لاکھ رسمی اور روایتی ہو مگر برطانیہ کے کم از کم تین چوتھائی گھروں میں سنا اور دیکھا جاتا ہے۔ یہ نشریہ ملکہ کو اپنی وفادار رعایا سے براہ راست مخاطب ہونے کا واحد موقع فراہم کرتا ہے۔
اب دُوسری تقریر کی طرف چلتے ہیں ۔ بی بی سی کے مقابلے میں ایک غیر روایتی اور بت شکن قسم کی ٹیلی ویژن کمپنی کا نام ہے چینل ـ 4 ۔عین اُس وقت جب شاہی خطاب نشر کیا جاتا ہے، اس چینل پر اُس شخص کی تقریر نشر کی جاتی ہے جو برطانیہ کے حکمران طبقے کی نظر میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔دو سال قبل اس چینل پر ایران کے سیماب صفت اور آتش زیر پا صدر احمدی نژاد کی تقریر نشر کی گئی جس کا ایک ایک لفظ برطانوی حکمرانوں کے سینوں کو چھلنی کرتا رہا۔اُنہوں نے چلتے چلتے ملکہ برطانیہ اور اُن کے تمام وزیروں کو مشرف بہ اسلام ہو جانے کی دعوت بھی دی۔اقبال نے یہ مصرعہ لکھا تو اسی سال پہلے تھاکہ 'اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی‘ مگر اس کا عملی مظاہرہ احمدی نژاد کی تقریر کی صورت میں دیکھا۔اس کرسمس پر چینل ـ 4 نے سابق برطانوی جاسوس اور ان دنوں ماسکو میں پناہ گزین سنوڈن کی تقریر نشر کر دی جس میں اس بہادر اور باضمیر اورعہد آفریں شخصیت نے کہا کہ اُس نے برطانوی حکومت کے جس بڑے راز(ہر شہری کے ای میل پڑھنے اور ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو سننے ) کو افشا کیا ہے وہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کو مستحکم اور توانا اور ناقابل شکست بنانے کے لیے ضروری تھا۔اُنہوں نے کمال انکساری سے کہا کہ وہ اپنے آپ کو ہیرو نہیں سمجھتے، اپنی جان خطرے میں ڈال کر اور اپنے ملک سے بھاگ کر دُشمن ملک میں پناہ لینے تک جو بھی اقدامات کئے وہ قربانی کے زمرے میں نہیں بلکہ اپنے اخلاقی فرض کی ادائیگی کے دائرے میں آتے ہیں۔
تیسری تقریر پوپ کی تھی جو اُنہوں نے روم میں اپنے صدر مقام ویٹیکن میں زائرین کے بہت بڑے ہجوم کے سامنے کی مگر ٹیلی ویژن کی بدولت دُنیا بھر میں دیکھی اور سنی گئی۔پوپ کا درجہ کلیسا کے رومن کیتھولک فرقہ کے ایک ارب انسانوں کے رُوحانی پیشوا کا ہوتا ہے۔ دُنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان میں بھی ویٹیکن کا اپنا سفارت خانہ ہے۔ ٹیلی ویژن والوں نے پوپ کی تقریر کا ہر اُس ملک میں ترجمہ اور تبصرہ نشرکیا جہاں رومن کیتھولک لوگوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ نئے پوپ فرانسس کو عوام دوست، روشن دماغ اور لبرل سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اپنی ذمہ داری سنبھالے اس مارچ میں پہلا سال مکمل ہوگا۔ میرے باخبر قارئین جانتے ہوں گے کہ نئے پوپ کے تخت پر بیٹھنے کا مطلب کانٹوں کا تاج پہنناتھا۔ ماضی قریب میں رومن کیتھولک چرچ مالیاتی اور جنسی سکینڈلوں کی دلدل میں برُی طرح پھنس گیاتھا،اس لیے نئے پوپ کے لیے تمام رُسوائیوں کا دھبہ دھو کر اس فرقے کے پیروکاروں کو جادہ پیمائی کے لیے آمادہ کرنا جوئے شیر لانے سے بھی مشکل تھا۔ پوپ نے کرسمس کے دن اپنی تقریر میں مراعات یافتہ طبقے کی چیرہ دستیوں کے خلاف اور غریب و نادار لوگوں کے لیے بہتر معیار زندگی کے حق میں آواز بلند کی۔انہوں نے بین الاقوامی اجارہ داریوں کی مذمت کی کیونکہ ان کے خمیر میں ہی انسان دُشمنی شامل ہوتی ہے اور ان کا واحد مقصد ہرجائزو ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ نفع کمانا ہوتا ہے، چاہے اس کارروائی میں انسانی صحت سے لے کر ماحولیات کی حفاظت کے تمام تقاضوںکو پامال کرنا پڑے۔ پوپ کی تقریر سے دُنیا بھر میں ہرارب پتی کی پیشانی پر کئی شکن پڑے ہوں گے۔ صدیوں تلک کلیسا کو قدامت پسندی اور مروجہ استحصالی نطام کا بہترین اتحادی سمجھا جاتارہا۔خوشگوار حیرت کا مقام ہے کہ عوام دوستی کے کعبہ کو اپنی حفاظت کے لیے رومن کیتھولک چرچ کے صنم خانوں سے پوپ کی شکل میں نیا پاسباں مل گیا؟ 
چوتھی تقریر برطانیہ میں پروٹسٹنٹ فرقے کے سربراہ ڈاکٹر ویل بی کی تھی جو آرچ بشپ آف کنٹربری ہیں۔اُن کے پیرو کاروں کی تعداد صرف آٹھ کروڑ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے جیسے ملک میں دین ملا فی سبیل اللہ فساد ہوتا ہے (یا سمجھا جاتا ہے)،اس لیے وہاں کے لوگوں کو یہ بات سمجھنے میں کافی مشکل پیش آئے گی کہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ اور مروجہ معنوں میںسیکولر ملک میں آرچ بشپ جیسے دینی رہنما کی تقریر یہاں کے سارے سماجی ماحول اور ذہنی آب و ہوا کو کس حد تک بدل دیتی ہے یا بدل سکتی ہے؟مناسب ہوگا کہ اپنے قارئین کو یاد دلایا جائے کہ دسمبر کے شروع میں ایک اہم برطانوی سیاست دان کو اخراجات کاجھوٹا بل پیش کر کے دھوکہ دہی سے سرکاری رقم وصول کرنے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا دی گئی،اس طرح 1999ء سے اب تک اس طرح کے فراڈ کرنے اور جیل کی سزا پانے والے سیاست دانوں کی تعداد سولہ تک جا پہنچی۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں آرچ بشپ نے اعلیٰ و ارفع اخلاقی قدروں کو اُجاگر کیا جس کے بغیر سیاسی سرگرمی کو اقبالؔ کی زبان میں 'چنگیزی‘ کے اسم صفت سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ یہ آرچ بشپ علمی طور پر اتنا بلند درجہ رکھتے ہیں کہ وہ بینکنگ کمیشن کے رُکن رہ چکے ہیں۔ بقول اقبالؔ گرجوں سے کہیں بڑھ کر ہیں بینکوں کی عمارات۔ روایتی طو رپر کلیسا کا کردار قدامت پسندی کے سرپرست اور نگہبان بلکہ ترجمان کا رہا ہے۔ برطانوی سیاست کے پرانے باوقار اور قابل احترام مرتبہ پر بدنما دھبہ لگ گیا تواینگلیکن پروٹسٹنٹ چرچ نے حرص و ہوس کے اُس کلچر کی مذمت میں اپنی معتبر آوازبلند کی جس کی آغوش میں سیاسی نظام پل بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا بیانیے میں ہمارے لیے ایک اہم سبق مضمر ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے موجودہ بحران سے نکل آئیں تو ہمیں اپنی مساجد اور عبادت گاہوں کا اپنے سیاسی نظام سے زندہ و تابندہ رشتہ استوار کرنا پڑے گا۔ یہ کام کس طرح سرانجام پائے گا؟ یقیناً کوئی ایک شخص اس کا جواب نہیں دے سکتا،اس کے لیے اجتماعی دانش کی ضرورت ہے جو صرف مشاورت اور قومی اتفاق رائے سے جنم لیتی ہے۔
پانچویں اورآخری تقریرسب سے اہم ہے مگر قابل فہم وجوہ کی بناپر ادا کی گئی نہ سنی جاسکی۔ یہ وہ تقریر ہے جو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں (ان میں سے ایک فی صد یعنی آٹھ لاکھ خوشحال اور مراعات یافتہ لوگوں کومنہاکر دیں) کے دلوں میں آتش فشاں کے لاوے کی طرح کھولتی رہی مگر نہ پہاڑ پھٹا نہ لاوا بہا نہ زلزلہ آیا۔حسرت کا حدود اربعہ صرف اُن غنچوں تک محدود نہیں ہوتا جو بن کھلے مرجھا جاتے ہیں بلکہ ان تقریروں تک بھی جا پہنچتا ہے جو پورے نہ ہوپانے والے ارمانوں کی طرح دل میں پیدا ہو کر دل میں ہی دفن ہو جاتی ہیں۔ بے بس اوربے سہارا لوگ، بے آواز اور بے آسرا بھی ہوتے ہیں۔ میں اپنے قارئین سے دردمندانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ مل کر ہاتھ اُٹھائیں اور دُعا مانگیں کہ یا رب،یا پروردگار! بے آوازوں کو آواز دے۔ وطن عزیز میں متوسط طبقے کو محنت کش طبقے کا ساتھی اور اتحادی بن جانے کی توفیق عطا فرما تاکہ نیا سال ہم سب کے لیے مبارک ثابت ہو!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں