امریکہ میں غلامی کی داستان

1825ء کا ذکر ہے جب امریکہ میں ایک مفرورغلام ولیم گرائم نے خود نوشت لکھی اور پانچ سو ڈالرکماکراپنے مالک سے آزادی خریدلی۔ پوری کتاب تو دستیاب نہیں مگر اُس کا آخری جملہ ادب سے نکل کر تاریخ کا حصہ بن گیا:''غلامی کے دوران میری پیٹھ پر جوکوڑے برسائے گئے تھے،اگراُن کی ضربوں سے میری پیٹھ پرلکیروں کے نشانات نہ پڑ جاتے تو میں اپنی وصیت میں لکھتا کہ میری پیٹھ کی جلد جسم سے اُتارکرامریکہ کے آئین کی جلد سازی کے لیے استعمال کی جائے،اس لیے کہ امریکی آئین آزادی اور خوشیوں سے مالا مال زندگی کی ضمانت دیتا ہے‘‘۔آپ کواس سے بڑھ کر منافقت کی اور کیا مثال ملے گی کہ آئین ایک طرف شخصی آزادی کی ضمانت دیتا ہے اور دُوسری جانب غلامی کی اجازت بھی۔ 1825ء میں یہ خود نوشت امریکہ میں شائع ہوئی اور امریکی ادب میں سنگ میل کا مقام حاصل کر لیا۔ اس سے کئی سال پہلے 1789ء میں ایک امریکی غلام کی داستانِ غم The Interesting Narrative of Life of Olaudah Equiano کے نام سے شائع ہوئی۔ محققین بتاتے ہیں کہ 1750ء سے 1865ء (یعنی غلامی کے قانونی خاتمہ تک) سو غلاموں کی خود نوشتیں شائع ہوئیں۔ ان میں سے 1853ء میں Solomon Northupکی خودنوشت Twelve Years as a Slave ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔گزشتہ برس اس کتاب پرفلم بنی جو ان دنوں امریکہ اور برطانیہ کے سیکڑوں سینما گھروں میںدیکھی جا رہی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اسی فلم کو آسکر ایوارڈ ملے گا۔
آئیے اب اس فلم کی طرف چلتے ہیں۔ Northup خود ایک مفرور غلام نہ تھا،اس نے یہ کتاب David Wilson نام کے ایک ایسے سفید فام شخص کے ساتھ مل کر لکھی جسے اغوا کر کے بطورغلام فروخت کردیا گیاتھا۔1861ء میں ایک سابق غلام نیویارک میں بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا،اس کی عمر33 برس تھی اور وہ لکھ پڑھ سکتا تھا۔ وہ نہ صرف وائلن بجانے کا ماہر تھا بلکہ کاشتکاری اور بڑھئی کاکام بھی جانتا تھا۔ایک بُرے دن اُس کی شامت یوں آئی کہ اُسے دو سفید فام اجنبی لوگوں نے پیشکش کی کہ وہ ان کے ساتھ ایک سفری میوزک شو میں حصہ لینے پر تیار ہو جائے جس کابڑامالی معاوضہ دیا جائے گا۔ سادہ لوحNorthupان کے ساتھ واشنگٹن چلا گیا جہاں بدنصیبی اُس کی منتظر تھی۔ اس کے کاغذات چرا لیے گئے،اسے نشہ آور دوا پلائی گئی، جاگا تو زنجیروں میں جکڑا ایک تہہ خانے کے فرش پرپڑاتھا۔پھراس بے چارے کومار مارکرادھ موا کرنے کے بعد ذہن نشین کرایاگیا کہ اگراس نے منہ کھولا تو اُسے فوراً ہلاک کر دیا جائے گا۔ یہ مظلوم واشنگٹن کے کوچہ وبازار سے اس حالت میں پیدل گزرا کہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پائوں میں بیڑیاںاورہونٹوں پر مہرثبت تھی ۔ یہ اُس ملک کا دارالحکومت تھا جس کا آئین ہر شخص کو آزاداور خوش وخرم زندگی بسرکرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس شخص کو جنوبی امریکہ کی ایک ریاست نیوآرلینڈ لے جایا گیا جہاں اگلے بارہ برس اُس نے بطور غلام کپاس کے کھیتوں میں جبری مشقت کی۔ وہ اکیلا نہ تھا، سیکڑوں مقامی غلام اُس کے ساتھی تھے جہاں جسمانی اذیت، کوڑوں کی سزا اور فاقے اُن کی زندگی کا مستقل حصہ تھے ۔ وہ ہفتے کے چھ دن صبح سے شام تک جبری مشقت کرتے، صرف کرسمس پر تین دن کی چھٹی ملتی۔غلاموں کو صرف اتوار کے دن ذاتی کام کاج کی اجازت دی جاتی تاکہ وہ کھانے کے برتن خریدنے کے لیے درکار رقم کما سکیں۔اچھے مالکوں کا دستور تھاکہ وہ اپنے غلاموں کوکوڑے مارنے کے بعد ان کے زخموں پر نمک پاشی کرتے تھے مگراتوارکے دن غلاموں سے کام لے کرانجیل مقدس کے حکم کی خلاف ورزی کا تصوربھی نہ کرتے ۔
اس مظلوم کو اتنی جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ کئی بار مرتے مرتے بچا۔ایک بار اُس کا مالک کلہاڑی لے کر اس کی طرف دوڑا کہ اس کا سر قلم کر دے چونکہ مالک کے خیال میں اُس نے مرمت کے لیے غلط قسم کے کیل استعمال کیے تھے۔ ایک نوجوان غلام کو اتنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ غصے سے پاگل ہو گیا اوراس نے مالک کے ہاتھ سے کلہاڑی چھین کراس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور پھانسی دیے جانے تک بار بار یہی کہتا رہا کہ اُس نے جو کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور اسے یہ قدم کافی عرصہ پہلے اُٹھانا چاہیے تھا۔غلام عورتوں پر مزید یہ ظلم ڈھایا جاتا تھا کہ دُوسری جسمانی سزائوں کے علاوہ ان کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی بھی کی جاتی تھی۔ اس موضوع پر بہت سی دل ہلا دینے والی کتابیں لکھی گئی ہیں۔
مذکورہ کتاب پر بننے والی شاہکار فلم کا لب لباب یہ ہے کہ غلامی کانظام نہ صرف غلاموں کو بلکہ ان پر ظلم ڈھانے والے سفید فام مالکوں کو بھی شرف انسانیت اور تمام مروجہ انسانی قدروں سے محروم کر دیتا تھا۔ تشدد کر کے غلام کو مار ڈالنے والے شخص کو یہ بھی یاد نہ رہتا کہ اگر تشدد کی تاب نہ لا کرغلام مرگیا تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی وفات سے اُسے بہت مالی نقصان پہنچے گا۔ فلم دیکھنے کے بعد آپ سمجھ جاتے ہیں کہ دراصل قابل نفرت وہ سفید فام درندے نہیں جوغلاموں پر تشددکرتے ہیں بلکہ وہ نظام ہے جس نے اس درندگی کو جنم دیا۔ وہ سفیدفام لوگ جو طبعاً نیک ہوتے تھے وہ بھی غلاموں کے مالک بن کر اُن پر درندہ صفت لوگوں کی طرح بے تحاشا ظلم کرتے تھے کیونکہ اس نظام کی بنیاد ہی غیر انسانی رویے پر رکھی گئی تھی۔ ساری توجہ غلام کی جلدکی رنگت پرمرکوزکردینا اس لحاظ سے غلط ہوگا کیونکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ کئی غلام رنگت کے اعتبار سے اپنے مالکوں سے بھی زیادہ گورے ہوتے تھے مگرسفید رنگت انہیں غلامی اورظلم سے نہ بچا سکی۔
آخر کار غلاموں کی سنی گئی۔ اُن کی نجات کی طویل جدوجہد ایک کینیڈین باشندے باس(Bass) نے شروع کی۔ وہ ایک قصبے کے بڑے فارم سے چل کرہر اس فارم تک پیدل جاتا تھاجہاں زراعت کے لیے غلاموں سے بیگار لی جاتی تھی۔وہ غلاموں کے مالکوں کو سمجھاتا کہ یہ لوگ حیوان نہیں بلکہ ہماری طرح کے انسان ہیں اور اُن کی پسماندگی کی واحد وجہ غلامی کی وہ زنجیریں ہیں جنہوں نے ان کے جسم اور ذہن کو جکڑرکھا ہے۔کئی بڑے سفیدفام جاگیردار باس کے دلائل سے قائل ہوکر غلاموںکو رہا کر دیتے تھے۔
باس نے اپنی جان کو خطرہ میںڈال کر Northup کا خط نیویارک میں اُس کے اہل خانہ اور دوستوں تک پہنچایا۔ وہ یہ خط لے کراسے جاننے والے ایک امیرشخص کے پاس گئے۔ وہ شمالی امریکہ سے چند سو میل کا لمبا سفرطے کرکے 1853ء میں لوزیاناخودگیا اور مقامی حکام کو ساتھ لے کراس فارم میں جا پہنچا جہاں مذکورہ کتاب اور فلم کا مرکزی کردار غلامی کا عذاب بھگت رہا تھا۔ناقابل تردید شواہد کی بنا پراس مظلوم شخص کو بارہ برس بعد غلامی کے عذاب سے نجات ملی۔ یہی بارہ سال کتاب اور فلم کا موضوع ہیں۔دونوں نے مل کر ان بردہ فروشوں کا سراغ بھی لگالیا جو ایک آزاد شخص کو اپنے ذاتی مالی مفاد کی خاطر غلام بنانے کے ذمہ دار تھے۔ ان دونوں پر مقدمہ چلا اورانہیں سخت سزا دی گئی۔
آپ یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ مجرموں نے عدالت میں اپنا یہ دفاع پیش کیا کہ Northup برضاورغبت غلام بنا تھا تاکہ جب وہ کئی برسوں بعد آزادی حاصل کرے اور اپنے سفید فام مالکوں کو ناجائز طو رپر غلام بنالینے کے جرم میں سزادلوائے اورمالی معاوضہ وصول کرے تو وہ اس رقم کو آپس میں بانٹ لیں گے۔ Northup کو مروجہ قانون کے تحت اپنی جلدکے سو فیصد سفید نہ ہونے کی وجہ سے عدالت میں گواہی دینے کی اجازت نہ دی گئی۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اگرکسی سیاہ فام شخص پراس الزام میں مقدمہ چلایاجاتاکہ وہ مفرور غلام ہے تو مدعی سفید فام کا حلفیہ بیان اس شخص کو سزا دلوانے کے لیے کافی ہوتاتھاکیونکہ ملزم کواپنی صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں