میکسیکو کے عظیم شاعر کی یاد میں

شاعر کا نام جتنا مشکل ، اُس کا کلام اُتنا ہی آسان اور دل میں اُتر جانے والا۔ دل سے لکھی جانے والی ہر تحریر (خصوصاً شعر) پڑھنے والے کو یوں لگتا ہے 'گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ اس زود گو شاعر کا پورا نام تھا Josae Emiliio Pasheco ۔ جنوبی امریکہ کے ایک ملک میکسیکو کے رہنے والے تھے، اس لیے اُن کی مادری زبان ہسپانوی تھی۔ سپین نے میکسیکوکو ختم کرکے وہاں اتنا طویل عرصہ حکومت کی کہ اُس ملک کی تہذیب و تمدن کے ساتھ وہاں کی زبان بھی بدل گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میکسیکوکے قدرتی وسائل کو مستقل بنیادوں پر لوٹنے کے لیے حملہ آوروں کی بڑی تعداد وہاں آباد ہوگئی تھی ۔ میرے قارئین میں سے جن لوگوں نے یورپ کا کلاسیکی ادب پڑھا ہے وہ یقیناً Cervantes کے نام اورکام سے واقف ہوں گے۔ سپین کا یہ سب سے مشہور ادیب 1547ء میں پیدا ہوا اور ایک شاہکارکتاب لکھ کر شہرت دوام حاصل کی۔ اُس کے افسانوی ہیروکا نام Don Quixote بھی عالمی ادب کا استعارہ بن گیا۔ اس ہیروکے دماغ پر یہ خبط سوار تھاکہ وہ خدائی خدمتگار ہے اس لیے اُس کا فرض ہے کہ وہ ہردشمن پر حملہ کر دے اور جب تک اُسے صفحہ ہستی سے مٹا نہ دے چین سے نہ بیٹھے۔ ایک دفعہ وہ اپنے فرضی دشمن کی تلاش میں نکلا تو اُسے دُور سے ہوا سے چلنے والی چکیاں نظرآئیں۔ ان سے زیادہ بے ضرر اور کیا چیز ہو سکتی تھی مگر ہمارا ہیرو (جو گھوڑے پر سوار تھا) ان پر غیظ و غـضب کے عالم میں ٹوٹ پڑا اور منہ کے بل گرگیا،تب اُسے اپنی مضحکہ خیز غلطی کا احساس ہوا۔ اس احمقانہ حرکت ، جس کے پیچھے برائی کو ختم کرنے کا نیک جذبہ کار فرما تھا، کی وجہ سے وہ رہتی دُنیا تک اُن غیر حقیقت پسند لوگوں کی علامت بن گیا جن کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جا سکتا مگر اُن کے منصوبوں کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انگریزی محاورے کا اُردو ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے: ''جہنم کو جانے والی شاہراہ کو جن اینٹوں اور پتھروں سے تعمیرکیا جاتا ہے اُن کا ٹریڈ مارک یعنی شناختی نشان نیک نیتی ہوتا ہے‘‘۔ 
مذکورہ ہیرو کو تخلیق کرنے والے کا مکمل نام پڑھ کرآپ دردِ سرکی دوا کی طرف لپکیں گے اور وہ تھا Miguel de Cervantes Saavedra۔69 سال کی عمر پائی اور سترہویں صدی کے شروع (1616ء) میں وفات پائی۔ تین صدیاں گزر جانے کے بعد موصوف کی شہرت کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے بلکہ لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اُس کا ادبی مقام روزافزوں ترقی کر رہا ہے۔ اتنی لمبی تمہید کی ضرورت یوں پیش آئی کہ آج کا کالم جس شاعر کے اعزاز میں لکھا جا رہا ہے اُسے 2010ء میں سپین کا سب سے بڑاادبی انعام Cervantes Prize دیا گیا۔ ہمارے ممدوح جب سپین کے بادشاہ جان کارلوس (جن کی بیٹی اور داماد ان دنوں کرپشن کے سب سے بڑے سکینڈل میں ملوث ہیں) سے انعام وصول کرنے کے لیے اپنی نشست سے اُٹھ کر چلنے لگے تو اُن کی ڈھیلی ڈھالی پتلون پھسل کر اُن کے زانو تک گرگئی، بھرے شاہی دربار میں ہمارا منظور نظر شاعر اور ناول نگارگھبرایا نہ شرمندہ ہوا، ایک ہاتھ سے پتلون کھینچ کر اُوپرکر لی اور اپنی قلندرانہ شان سے لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے بے ساختہ کہا کہ اس طرح کے حادثات کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ یہ آدمی کا غرور خاک میں ملا دیتے ہیں۔ 
پاس ہیکو(Pasheco ) کوگزشتہ صدی کے دُوسرے حصے میں میکسیکو کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کیا گیا۔ سمجھ لیں کہ وہی مقام جو ہم نے بیسوی صدی کے دوسرے حصے میں فیض صاحب کو دیا اور بجا طور پر دیا۔ اس شاعر کو ان گنت اعزازات دے گئے۔ بدقسمتی سے وہ 74 سال کی عمر میں ایک حادثے کا شکار ہوکر زمین پرگرگئے اور یہی حادثہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ (بوڑھوںکو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے لیکن یہ مشورہ دینے والاخود 77 سال کی عمر میں بھی جوش و خروش سے کرکٹ کھیلنے سے باز نہیں آتا۔) پاس ہیکو کے والد نے میکسیکو کے 1910ء میں بپا ہونے والے انقلاب میں انقلابی فوجی دستوں کی بطور جرنیل قیادت کی۔انہیں ان کے سینیئر افسروں نے حکم دیا کہ وہ ایک انقلاب مخالف جرنیل کوگولی مارکر سزائے موت دیں تواُنہوں نے اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا اور فوج سے استعفیٰ دے کر قانون پڑھا اور کئی سال بڑے اعلیٰ پیمانے کی وکالت کی۔ اُن کے بیٹے نے یونیورسٹی میں فلسفہ اورادب پڑھا، 24 سال کی عمر میں اُس کی شاعری کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تو میکسیکو کے ادبی اُفق پرایک روشن ستارہ نمودار ہوا جو نئے سال کے پہلے مہینے کے آخری ہفتے میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ دُنیا بھرکے معیاری اخباروں میں تعزیتی مضامین شائع ہوئے جن میں آنجہانی پر عقیدت واحترام کے پھول برسائے گئے۔یہ کالم بھی اس عالمی تحسین و تعزیت کا ایک چھوٹا ساحصہ ہے۔ 
پاس ہیکوصرف شاعر نہیں بلکہ بلند پایہ ناول نگار بھی تھے۔ انہوں نے جو پہلا ناول لکھا اُس کا موضوع میکسیکو کے راسخ العقیدہ، قدامت پسند اور رومن کیتھولک معاشرے میں شدید تنقید بلکہ مذمت کا باعث بنا۔ ناول کا جواںسال ہیرو بلوغت کے ابتدائی دنوں میں اپنے قریبی دوست کی ماں کے عشق میں مبتلا ہوا اوربعد ازاںگرفتار ہو گیا ،اُ س کا وہی حشر ہوا جو عام طور پر دُنیا بھر میں گرفتار ہو نے والے ہر اخلاقی مجرم کا ہوتا ہے۔ بھلا ہو میکسیکو کے وسیع القلب لوگوں کا جنہوں نے اپنے ہونہار ادیب کے اس ناول کو اُس کی پہلی کاوش قرار دے کر معاف کر دیا۔ دُوسراناول ''صحرائوں میں جنگیں‘‘ 1981 ء میں شائع ہوا۔ خوش قسمتی سے اس نے کسی سکینڈل کو جنم نہ دیا بلکہ لکھنے والے کی ادبی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ اس مختصر ناول کے 60 ایڈیشن شائع ہوئے۔ اس کی مقبولیت کے پیش نظر 1987ء میں اُس پر فلم بنائی گئی جس کا نام کافی دلچسپ تھا۔۔۔ Mariana،Mariana ۔ ناول کا یورپ کی ہر زبان میں ترجمہ ہوا اور ہر ملک میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔کتنا اچھا ہو کہ یہ تحریر پڑھ کر میرے کسی قاری کا سویا ہوا ذوق جاگ اُٹھے اور وہ اس ناول کا اُردو ترجمہ کرنے پرکمر بستہ ہو جائے۔
مذکورہ ناول کا بنیادی نظریہ تھا، ضروری نہیں کہ ماضی کا مطلب خوشگوار یادیں ہی ہو،اسے انگریزی میں Nostalgia کہتے ہیں۔آپ بھی ناول کی چند سطور پڑھ لیں:
''اُنہوں نے میرا سکول منہدم کر دیا ، ماریانا کا فلیٹ بھی۔ میرا گھر اور خانہ بدوشوں کی بستی بھی نہ بچی۔ قدیم میکسیکو کی ہر اچھی یاد مٹا دی گئی۔ المیہ یہ ہے کہ کسی کو پروا بھی نہیں۔ اس طرح کی خوفناک یادوں کا روگ کون پالے گا‘‘۔ اپنے شاعرانہ کلام کے ایک مجموعے کے دیباچے میں اس مردکمال نے لکھا: ''میں شاعری کو اس لیے پسند کرتا ہوں کہ وہ انسان کی داخلی اور دل سے اُُٹھنے والی آواز کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسی آواز ہے جسے کوئی سن نہیں سکتا مگر شعر پڑھنے والے شخص کو یوں لگتا ہے کہ یہ میری اپنی آواز ہے‘‘۔ مرجانے والے شاعرکی راکھ پھولوں پر بکھیر دی گئی مگر اُس کے اشعار زندہ جاوید رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں