پرنس کارقص،اطالوی سیاست اورطوائفوں کی یونین

22 فروری کو برطانیہ کے ہراخبار میں ایک تصویر نمایاں طور پرشائع ہوئی۔ برطانیہ کے ولی عہد پرنس چارلس سعودی عرب کا روایتی قبائلی لباس پہنے ہوئے تھے، ہاتھ میں تلوار تھی اورسعودی شاہی خاندان کے مرد افراد کے ساتھ رقص کر رہے تھے۔انہوں نے بھی صحرائی قبائل یعنی بدوئوںکا روایتی لباس پہناہوا تھا۔اُن کے ہاتھوں میں بھی ننگی تلواریں تھیں اورایک دائرے کی صورت میں ایک ایسا ولولہ انگیز رقص کر رہے تھے جو صدیوںسے بندۂ صحرائی کی ثقافتی پہچان ہے۔ رقص میں حصہ لینے والوںکا جوش و خروش دیدنی تھا۔یہ قدیم روایتی لوک رقص آردا کہلاتا ہے جو ہر سال ثقافتی میلے جنادریان (Janadriyan) کے دوران کیا جاتا ہے۔ 
لگتا ہے کہ اسلام کی ندی بہتے بہتے سرزمین حجازسے جنوبی ایشیاء تک پہنچی تو پانی کا رنگ بدل چکا تھا۔آپ جانتے ہیں کہ مردانہ رقص شجاعت اورطاقت کا اظہار تسلیم کیا جاتا ہے اور ہمارے ہاں یہ بلوچستان اور پختون خواکی مقامی ثقافت کا طرۂ امتیاز ہے۔ خٹک ناچ کا نام کون نہیں جانتااور کس نے اسے تصویروں میں نہیں دیکھا۔بھنگڑاپنجابی سکھوں کا علامتی نشان ہے۔ بھنگڑے نے برطانیہ میں بھی مضبوطی سے قدم جما لیے ہیںاور انگریزوں میں بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ جہاں تک مغربی پنجاب میں آباد مسلمانوں یعنی ہمارا تعلق ہے، ہم اب بھی رقص کو صرف زنانہ سرگرمی سمجھتے ہیں اور ہمارے راسخ العقیدہ مذہبی طبقے کی نظر میں رقص نہ صرف معیوب ہے بلکہ خلاف اسلام ہے۔ مناسب ہوگا کہ یہ رائے رکھنے والوں کی توجہ سعودی عرب کے مذکورہ میلے میں ہر سال بڑے پیمانہ پر کیے جانے والے مردانہ رقص کی طرف دلائی جائے۔کتنی ستم ظریفی ہے کہ محمد بن قاسم کے سندھ پراتفاقی یا حادثاتی حملے کے نتیجے میں ہندو مذہب چھوڑکر اسلام قبول کرنے والے اُن لوگوں کے رقص پرخلاف شرع سرگرمی ہونے کا الزام لگاتے ہیں جہاں سے اسلام کا سورج طلوع ہوا تھااور ابتدائی مسلمان ہونے کی وجہ سے اُن کے طوراطواراور رسوم و رواج کو مستند مانا جانا چاہئے۔
اب ہم اپنے قارئین کو اٹلی لیے چلتے ہیں جہاں بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی کشمکش، موقع پرستی، مفاد پرستی اور بے بصیرتی نے اٹلی میں حکومت سازی کا عمل معطل کرکے رکھ دیا ہے۔ اٹلی کے 89 سالہ صدرکو مجبوراً ایک ایسے شخص کو وزارت سازی کی دعوت دینا پڑی جو پارلیمنٹ کا رُکن تک نہیں،اس کی عمر صرف 39 برس ہے اور وہ ایک مضافاتی شہر کا میئر ہونے کے علاوہ کسی بھی سیاسی عہدے پر فائز نہیں رہا۔رین زی(Ren ZI) نامی یہ نوجوان اس آزمائش میں پورا اُترا تواطالوی تاریخ کا سب سے کم عمر وزیراعظم ہوگا۔اُ س کا منشور یہ ہے کہ اطالوی حکومت کوکرپشن سے پاک کیا جائے اورایسی معاشی پالیسی اپنائی جائے جوبڑے بڑے سرمایہ داروں کو مزید امیر بنانے کے بجائے عوام دوست ہواورجس کے تحت امیر لوگوں سے ٹیکس وصول کرکے غیرمراعات یافتہ لوگوں پر خرچ کیاجائے ۔ نئے وزیراعظم کو بہت جلد پارلیمنٹ سے اعتمادکا ووٹ حاصل کرناہوگا۔کابینہ کے جو سولہ افراد نامزد کیے گئے ہیں اُن میں نصف خواتین ہیں۔ایک حاملہ خاتون اگلے ماہ اپنے دوسرے بچے کو جنم دے گی اوراس نے حلف اُٹھانے سے پہلے ہی زچگی کی چھٹی کی درخواست دے دی ہے۔
اٹلی سے آنے والی دوسری خبراس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ اطالوی طوائفوں نے اپنی ایک یونین بنا لی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اُن سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ کھلا تضاد یہ ہے کہ اطالوی قانون کے تحت طوائفوںکی جسم فروشی پرکوئی پابندی نہیں مگر قانون اس کاروبارکو پیشہ تسلیم نہیںکرتااورنہ ہی اس کاروبار سے پیسے کمانے والوں سے ٹیکس کی ادائیگی کامطالبہ کرتا ہے۔اب طوائفوں نے برسرعام پر زور مطالبہ کیا ہے کہ جب وہ اپنی آمدنی (جوکروڑوں ڈالر سے کم نہیں ہوتی) پر ٹیکس دینے پرکمر بستہ ہیں اور اُن کاپیشہ بھی قانوناً جرم نہیں توحکومت اُن سے ٹیکس وصول کرنے سے کیسے انکارکر سکتی ہے۔ طوائفوں کی یونین کے رہنما نے ایک اور بات جوکہی وہ ہماری اسمبلیوں کے ٹیکس چورارکان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ طوائفوںکے لیڈر نے کہا کہ اُس کی یونین کے اراکین کی حکومت سے شکایت کی وجہ یہ ہے کہ قانون کا احترام کرنے والے شہری کی حیثیت میں ٹیکس دینا ہرطوائف کا بنیادی فرض ہے اوراس فرض کی عدم ادائیگی اُن میں احساس جرم پیدا کرتی ہے جوان کے لیے ناقابل قبول اورناقابل برداشت ہے۔
آئیے اب اٹلانٹک عبورکریںاورامریکہ چلیں جہاں کعبے کو صنم خانے سے ایک اور پاسباں مل جانے کی اچھی خبرآئی ہے۔ امریکہ سے لے کر پاکستان اور بھارت تک ہر ملک جہاں سرمایہ دارانہ نظام گلتے سڑتے اقرباپروری اوردوست نوازی(Crony Capitalism)کی دلدل میں گرگیا ہے وہاںارب پتی لوگ اپنے معاشی مفادات کی حفاظت کرنے والے سیاست دانوںکو بڑے بڑے عطیات دے کر اپنا تابعدار،ترجمان اور وفادار بنا لیتے ہیں۔ امریکہ میں یہ کام دھڑلے سے ہوتا ہے ،کوئی روک ٹوک نہیں۔گھوڑوں پر رقم لگانے والے ارب پتی ، سیاست دانوں کوعطیات دے کر ایک دُوسری قسم کا جوا کھیلتے ہیں۔اس صورت حال پرامریکہ کی پیشانی پرکبھی بل نہیں پڑا۔وسط فروری میں یہ خلاف معمول خبر برطانوی اخباروں میں شائع ہوئی کہ امریکہ میں ایک ارب پتی ٹوئن سٹیئر(Toyn Steyer)اوراپنے جسم پر پانچ ٹیٹو(Tattoos) کھدوانے والی اس کی غیر رواجی بیوی نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے چند ماہ میں دس کروڑ ڈالر صرف اس مہم پر خرچ کریں گے کہ ماحول کی حفاظت کرنے والوں کو آنے والے انتخابات میں کامیاب کرایا جائے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ امریکہ میں صرف ترقی پسند اور عوام دوست سیاست دان ہی ماحول کی حفاظت کے جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور ہراس نیک کام کی حمایت کرتے ہیں جس سے ماحول پراگندہ نہ ہو،کاربن ڈائی اوکسائیڈ جیسی زہریلی گیس کا فضا میں تناسب نہ بڑھے اور اس کے نتیجے میں زمین اور خلا کے درمیان اوزون کی حفاظتی ڈھال میں شگاف نہ پڑیں۔
امریکہ تو سات سمندر پار ہے، وہاں کی باتیں کتنی بھی اہم کیوں نہ ہوں وہ ہمارے ہمسایہ ممالک میں ہماری قدرتی دلچسپی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔سنڈے ٹائمز نے 23 فروری کو جس ہنستی مسکراتی ہندوستانی لڑکی کی تصویر شائع کی اُس کا نام ہے شازیہ علمی۔ یہ خاتون پہلے ٹیلی ویژن پر پروگرام پیش کرنے سے لوگوں کی نظروں میں آئی اور اب عام آدمی پارٹی کی قیادت میں شامل ہونے کی وجہ سے نئی سیاسی جماعت نے جو لاکھوں پوسٹر ملک بھر میں چسپاں کئے ہیں اُن پراسی شازیہ کی تصویر نظر آتی ہے اور اس اعتبار سے اب اُسے عام آدمی پارٹی کا سب سے جانا پہچانا چہرہ مانا جاتا ہے۔ اگر 23 سالہ شازیہ کے خیالات اتنے عوام دوست اور ترقی پسندانہ نہ ہوتے اور وہ خوش شکل نہ ہوتی تو یقیناً اُسے یہ اعزاز نہ ملتا۔ شازیہ کی باتیں ہر کسی کو آسانی سے سمجھ آجاتی ہیں۔ شازیہ نے اپنی سیاسی جماعت کے منشورکو تین نکات میں سمو دیا ہے۔ اوّل: عوام جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں کس طرح مقررکی جاتی ہیں؟ دوم: عوام کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے فیصلے کس طرح کئے جاتے ہیں؟ سوم: حکومت کے ہر شعبے میں شفافیت کیوں ضروری ہے؟
لوک سبھا (بھارتی پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) کی نشستوں کی کل تعداد545 ہے،عام آدمی پارٹی 350 نشستوں پر الیکشن لڑنا چاہتی ہے۔ اُسے نو ہزار افراد کی طرف سے پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کے حالیہ جائزے کے مطابق اس وقت بھارتی ووٹروں کا38 فیصد حصہ اروندکجری وال کو وزیراعظم کے عہدے پر دیکھنا چاہتا ہے۔اگریہ نئی پارٹی مئی میں ہونے والے انتخابات میں توقع سے کم نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئی تو بھارتی جنتا پارٹی کے نریندر مودی کے لیے وزیراعظم بننا مشکل ہو جائے گا۔کتنا اچھا ہوکہ ایسا ہی ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں