جون آف آرک… (2)

23 مئی1430ء کو ہونے والی ایک جنگی جھڑپ میں فرانسیسی بادشاہ ( چارلس دوم جو جون کا سرپرست تھا )کی مخالف فوج نے جون کو جنگی قیدی بنا لیا۔ اُس نے کئی بار فرار ہونے کی کوشش کی مگر بدقسمتی سے ہرکوشش جس میں 70 فٹ اُونچی دیوار سے نیچے چھلانگ لگانا بھی شامل تھا ، ناکام رہی۔ باغی فوج نے جون کو انگریزی فوج کے حوالے کر دیا اور اس کارنامے کا گراں قدر معاوضہ وصول کیا۔ جون کے خلاف کافرانہ خیالات کے اظہار کے جرم کا مقدمہ چلایا گیا۔ مقدمے کی کارروائی میں ہونے والی جرح کے دوران جون سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خداوند تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں پر یقین رکھتی ہے؟ جون کا جواب تھا : '' اگر میں خدا کی رحمتوں سے محروم ہوں تو مجھے اُن سے مالا مال کیا جائے اور اگر میں پہلے ہی رحمتوں سے فیض یاب ہوں تو پھر ان کا مبارک سایہ ہمیشہ میرے سر پر رہے‘‘۔ جون نے اپنی صفائی میں جو فصیح و بلیغ بیانات دیئے وہ ادب کی اس حد کو چھوتے تھے کہ چھ سو سال بعد ایک برطانوی تمثیل نگار جارج برنارڈشا نے Saint Joan کے نام سے ڈرامہ لکھا تو اس میں جون آف آرک کے کئی اقوال کو من و عن درج کردیا۔ استغاثہ کا موقف اتنا کھوکھلا اور بے بنیاد تھا کہ جون کے مردوں والے جنگی لباس کو بھی عیسائی شریعت کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ جون کو توقع کے عین مطابق موت کی سزا دی گئی۔ 30 مئی1431ء کو جون کو زندہ آگ میں جلا کر سزا کے حکم نامہ پر عمل کیا گیا۔ مرتے وقت تک اس نے اپنے ہاتھ میں صلیب کو اتنی مضبوطی سے تھامے رکھا کہ آگ کے شعلوں کی حدت اور تپش بھی اسے نیچے نہ گرا سکی۔ جون کی راکھ دریا میں بہا دی گئی اس لیے جون کا مزار نہ بن سکا ، راکھ غرق دریا ہوئی مگر اُس کی موت نے رسوائی دینے کے بجائے اسے اہل فرانس کی نظروں میں شہادت اور ولی اللہ کادرجہ دے دیا ۔ جون کی وفات کے 25 سال بعد (جون 1425ء میں) فرانس کی تاریخ نے کروٹ لی تو جون پر چلائے جانے والے مقدمے پر نظرثانی کی گئی اور عدالت عالیہ نے متفقہ طور پر اُسے بے گناہ قرار دے دیا اور سرکاری طور پر اُسے شہید تسلیم کئے جانے کی سفارش کی۔ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد آج ہر فرانسیسی شہری کے دل میں جون کا ایک چھوٹا سا مزار ہے جس میں ہر وقت عقیدت کے دئے جلتے رہتے ہیں۔ لیل میں نظر آنے والا ہر مرمریں بت ایک نہ ایک دن ٹوٹ پھوٹ کر خستہ حال ہو جائے گا مگر دلوں میں بننے والا جون کا مزار ابدی اور لازوال ہے۔
ہماری برق رفتار ٹرین تیزی سے بڑھی اور بلجیم کے دارالحکومت برسلز پہنچ گئی، وہاں دفتری کام کرکے ہم ایک عام ٹرین سے سفرکرکے بلجیم کے شہرہ آفاق ، خوبصورت اور دلکش شہر بروژ ( Bruges ) گئے جو ہزار سالہ پرانی عمارتوں اورگرجا گھروںکی وجہ سے اسے منفرد مقام حاصل ہے۔اس شہر کی سیر وسیاحت کا کام دو دن میں مکمل ہوا تو واپسی کا سفر شروع کرنے سے پہلے مناسب سمجھا کہ اہل خانہ اور دوستوں کے لئے تحائف خریدے جائیں۔ فیصل سے مشورہ کیا تو اس نے بتایاکہ برطانیہ میں سب سے زیادہ بلجیم کے بنے ہوئے چاکلیٹ پسندکئے جاتے ہیں ( چاکلیٹ کا بار بار ذکر میں نے زمانہ طالب علمی میں صرف شفیق الرحمن کی کتابوں میں پڑھا تھا مگر زندگی میں پہلی بار31 برس کی عمر میں برطانیہ آنے پر چکھا۔) چاکلیٹ اتنے انواع واقسام کے نظر آئے کہ چنائو میں بڑی مشکل پیش آئی۔ فیصل نے پھر معاونت کی اور صلاح دی کہ وہ چاکلیٹ خریدے جائیں جو برطانوی تاریخ کے ایک مشہورکردار Lady Godiva کے نام پر تیار کئے گئے ہیں۔ چاکلیٹوں کے ڈبے خریدے جانے لگے تو ڈبوں کے اُوپر ایک ایسی خاتون کی تصویر دیکھی جو ننگ دھڑنگ گھوڑے پر سوار بڑے سکون سے ایک بستی کی سیر کر رہی ہے۔ لندن واپسی پر میں ڈر رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محکمہ کسٹم کے عقاب صفت عہدے دار میرے تحائف (جن کی خریداری مجھے کافی مہنگی پڑی) کو اس بنیاد پر ضبط کر لیں کہ ڈبوں کے اُوپر بنی ہوئی تصویر فحاشی کے زمرے میں آتی ہے۔کسٹم والوں نے میرے سامان کا جائزہ لیا ، چاکلیٹوں کی اعلیٰ قسم اورڈبوں پر بنی ہوئی تصویر دونوں کی تعریف کی اور پوچھا کہ کیا میں تصویر میں برہنہ نظرآنے والی خاتون کا حدود اربعہ ( جسمانی نہیں بلکہ تاریخی ) جانتا ہوں ؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو دوستانہ مشورہ دیاگیا کہ گھر جاکر اس کے بارے میں پڑھ لوں۔ میں نے جو کچھ پڑھا اُس کا خلاصہ آپ کو بتا تا ہوں :
یہ خاتون Leofric نامی جاگیردار Earl of Mercia کی بیوی تھی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ان دنوں برمنگھم کی قریبی کائونٹی کا صنعتی شہر آباد ہے( اتنا صنعتی کہ جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کی فضائیہ اس پر روزانہ کم از کم ایک بار ضرور بم گراتی تھی۔) لیڈی گوڈی وا (Godiva) کے خاوند نے اپنی رعایا اور مزارعین پر بھاری ٹیکس عائد کر کے ان کا جینا دُوبھر بنا دیا تھا۔ یہ خاتون ہر روز اپنے خاوند کی منت سماجت کرتی تھی کہ وہ اپنی رعایا پر رحم کھائے اور اُن پر لگائے گئے ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ختم کر دے مگر بے سود ، آخر ایک ایسا دن آیا جب میاں بیوی کے درمیان شرط لگ گئی کہ اگر وہ دن دہاڑے بے لباس ہوکر اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر سارے شہرکا چکر لگائے تو ٹیکس منسوخ کر دیئے جائیں گے۔ عوام دوست خاتون نے ایسا ہی کیا اور شرط جیت لی۔ اُس کی یاد میں جتنے بھی مجسمے بنائے گئے ہیں‘ ان میں یہ خاتون اپنے لمبے بالوں سے ستر پوشی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ واقعہ ایک ہزار سالہ پرانا ہے ، اتنا پرانا کہ حقائق اور افسانہ آپس میں خلط ملط ہو جاتے ہیں مگر ہمیشہ یاد رہ جانے والی داستان کو جنم دیتے ہیں اور انسانی تاریخ میں رنگ بھرتے ہیں۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں