تین نادر کتابیں

یورپ کے ہر ملک کے ہر بڑے شہر کی طرح لندن بھی کتابوں کی دُکان اور کتب خانوں کا شہر ہے۔ کئی ایسی اچھی دُکانیں بھی ہیں جہاں آتش دان کے پاس بڑی آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر کتابوں کی ورق گردانی کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ (اور برائے نام پیسے خرچ کر کے چائے یا کافی پینے کی بھی )لندن میں روزانہ بارشوں کا سلسلہ ذرا تھما اور دھوپ نکلی (جو یہاں ایک نعمت سے کم نہیں)تو میں لمبی سیر کرتے ہوئے کتابوں کی ایک اچھی دُکان تک جا پہنچا۔ جن چند دلچسپ کتابوں سے تعارف کا شرف حاصل ہوا۔ میں اُن کاباری باری ذکر کرتا ہوں تاکہ قارئین کو لندن کے سفر کی زحمت دیے بغیر اپنی خوشی میں شریک کر سکوں۔
پہلی کتاب کا موضوع بذات خود ''کتاب ‘‘تھا، یعنی کتاب کی تاریخ۔ کاغذ کو بجا طور پر دُنیا کی سب سے اہم ایجاد کہا جا سکتا ہے۔ 105ء میں (آج سے 1909 سال پہلے) چین میں ایک مخنث (جو شاہی دربار میں معمولی عہدہ پر فائز تھا) کائی لیون نامی نے شہتوت کے درخت کی چھال کو یاک پودے کے گودے سے ملا کر گوندھا اور پھر دھوپ میں سکھایا تو وہ کاغذ کی شکل اختیار کر گیا۔ لکھنے کا کام تو پہلے بھی ہوتا تھا مگر اس کے لیے جانوروں کی کھالیں، سوکھی مٹی ،پتھر کی سلیں اور اس طرح کی دُوسری چیزیں صدیوں سے استعمال کی جاتی تھیں۔ کاغذ کو ان سب چیزوں پر برتری پہلے دن ہی مل گئی۔ اُس کو بنانا مقابلتاً بہت سستا تھا، اُس کا وزن بہت کم تھا اس لئے نقل و حمل میں زیادہ آسانی تھی، اس پر لکھنا زیادہ آسان تھا، وہ نہ صرف مضبوط بلکہ سیاہی کو بہتر طریقہ سے جذب کرتا تھا۔ کاغذ نے آناً فاناً بانس کی چٹائیوں اور ریشمی کپڑے کی جگہ لے لی۔ آج دُنیا بھر میں جتنا کاغذ اور گتا بنایا جاتا ہے اُس کا مجموعی وزن 60 کروڑ ٹن ہے، یعنی ایک چھوٹی پہاڑی کے برابر۔ ٹائلٹ پیپرز سے لے کر نوٹ چھاپنے تک، استعمال ہونے والی اس زبردست ایجاد نے انسانی تہذیب و تمدن کا نقشہ بدل دیا۔ کتاب کے مصنف کے الفاظ میں انسانی تاریخ نے کاغذ کے کندھوں پر سوار ہو کر دو ہزار سال لمبا سفر طے کیا ہے۔ جس قدیم دور میں یونانی اور رومن باشندے لکھنے کے لئے پتھروں پر کھدائی کرنے یا سر کنڈوں کے سُوکھے ہوئے گودے (Papy pus scrolls)کو استعمال کرنے پر مجبور تھے،چین میں کاغذ کا استعمال عام ہو چکا تھا۔ چوتھی صدی تک چین کی تہذیب میں کاغذ کو کلیدی مقام حاصل تھا اور بُدھ مت کے فروغ میں کاغذ پر لکھی ہوئی تحریروں کا سب سے بڑا کردار تھا۔ جب بدھ مت چین کی سرحدوں سے نکل کر کو ریا اور جاپان تک پہنچا تو کاغذ بنانے کی صنعت بھی اس کے ساتھ ساتھ گئی۔ 751ء میں Battle of Tauas (آپ کا کام ہے کہ نقشہ پر یہ غیر معروف جگہ ڈھونڈیں) میں عباسی خلیفہ کے بھیجے ہوئے عرب لشکر نے چین کو شکست دی تو چین کی شکست خوردہ فوج کے جنگی قیدیوں نے فاتحین کو کاغذ بنانے کا گر سکھایا۔ 795ء میں بغداد میں کاغذ بنانے والی پہلی فیکٹری بنا دی گئی۔ نویں صدی تک قرآن پاک کاغذ پر لکھا جانے لگا اور وہ کتابی شکل میں اسلامی دُنیا کے طول و عرض میں دستیاب ہونے لگا۔ ظاہر ہے کہ وہ قلمی نسخے ہوں گے، چونکہ ابھی چھاپہ خانہ ایجاد نہ ہوا تھا۔ انسانی تہذیب اس اہم سنگ میل تک 1439 ء میں پہنچی۔ اس اہم ایجاد کا سہرا جرمنی کے Gutten Berg کے سر بندھا۔ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا کارنامہ بھی چھاپہ خانہ کی بدولت رُونما ہوا۔ کتابیں چھپنے لگیں تو وہ زیادہ لوگوں تک پہنچیں۔ اندھیروں کی جگہ روشنی پھیلنے کا عمل تیز تر ہونے لگا۔ دقیانوسی رومن کیتھولک نظریات سے بغاوت کرنے والے اور پروٹسنٹ فرقہ کے بانی مارٹن لوتھر نے انجیل مقدس کا عبرانی سے جرمن زبان میں پہلا ترجمہ کیا تو وہ اُس وقت دُنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔
دُوسری کتاب لندن کے جس جانے پہچانے ناشر نے شائع کی اُس کا نام ساقی ہے جو مشرق وسطیٰ پر کتابوں کی اشاعت کی وجہ سے مشہور ہوا۔ کتاب کے مصنف کا نام نور الدین طوسی اور کتاب کا نام ہے، سلطان کے اقتباسات/ ہوس انگیزنسخے (میرے قارئین مجھے معاف فرمائیں کہ میں کتاب کے مندرجات کو اپنے کالم میں نقل کرنے کی جرأت سے محروم ہوں)۔ قرون وسطیٰ کی تاریخ میں المُوت نامی قلعہ کو جو مقام حاصل ہے وہ فقید المثال ہے۔ یہ قلعہ جسامت کے لحاظ سے تو ہمارے لاہور کے شاہی قلعہ ،دہلی کے لال قلعہ یاجہلم کے رہتاس قلعہ کا بمشکل دسواں حصہ یا شاید اس سے بھی چھوٹا 
ہوگا مگر اس نے بے مثال شہرت اُس کردار کی وجہ سے پائی جو قلعہ میں صدیوں تک رہنے والوں نے ادا کیا اور وہ کردار تھا قتل و غارت کا۔ ایک ماہ ،ایک سال یا ایک صدی نہیں بلکہ صدیوں تک گھات لگا کر اور اپنے شکار کو دھوکہ دے کر قتل کر دینے کی روایت کو زندہ رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قلعہ پر قابض لوگوں نے سیاسی قاتل یعنی حشیشین کا لقب پایا۔ جغرافیائی حدود اربعہ کیا تھا؟ شمال مغربی ایران کی سب سے اُونچی پہاڑی Elbuz کے اُوپر مذکورہ بالا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔ ناصر الدین طوسی کو نہ صرف قلعہ تک رسائی ملی بلکہ وہاں کئی سالوں تک رہائش کی اجازت اور قلعہ کے اندر ایک بہت بڑی لائبریری سے استفادہ کی بھی۔ طُوسی1201ء میں پیدا ہوا اور 73 سال کی عمر پاکر 1274ء میں وفات پائی۔ اپنے علم و فضل کی وجہ سے طوسی کو قلعہ پر قابض فرماں روا نے اپنا مشیر بنا لیا۔ یہ بنا بنایا کھیل1256 ء میں بگڑ گیا، جب منگول جرنیل ہلاکو خان نے اس قلعہ کا محاصرہ کر لیا اور قلعہ کے اندر رہنے والوں کے لئے زندہ رہنا اتنا مشکل کر دیا کہ طوسی اپنے پرُانے آقائوں کو چھوڑ کر ہلاکو کا ملازم بن گیا اور ہلاکو کی وفات کے بعد اُس کے بیٹےAbaqa کا۔ باقی خوبیوں کے علاوہ طوسی علم نجوم کا بھی ماہر تھا۔منگولوں کی ستاروں کی گردش میں خصوصی دلچسپی نے طوسی کو گریڈ 22 کی ملازمت دلوا دی۔ محقق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طوسی کی ذاتی لائبریری میں کتابوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب تھی۔ (آج اتنی کتابیں صرف ایک اچھی یونیورسٹی کی لائبریری میں ہوتی ہیں)۔ اتنی کتابوں کو پڑھنے والا کتابیں لکھنے میں بھی کمال رکھتا تھا۔ درباری زبان فارسی تھی مگر کتابیں عربی میں لکھیں۔ مذکورہ بالا کتاب سے قطع نظر طوسی کی لکھی ہوئی زیادہ کتابوں کا موضوع اخلاقیات، فلسفہ اور علم نجوم تھا۔ جس کتاب کے تذکرہ سے طوسی کا ذکر شروع کیا گیا وہ ایک (علوم شرقیہ کے ماہر برطانوی Danien Newman نے عربی سے ترجمہ کی اور اپنے پڑھنے والوں کو خوشخبری سنائی کہ وہ طوسی کی اور کتابوں کے ترجمہ کی تیاری کر رہے ہیں ۔ ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
اگر آپ کو انگریز پروفیسروں کی فارسی اور عربی ادب پر مہارت کے بارے میں کوئی شک و شبہ ہو تو بانگ درا پڑھ لیں جس میں اقبال نے اپنے محترم اُستاد پروفیسر آرنلڈ کی یاد میں ایک کمال نظم لکھی۔ مناسب ہوگا کہ کیمبرج میں اقبال کے دُوسرے اُستاد اور علمی راہنما پروفیسر آربری کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے اور چلتے چلتے اقبال پر نہایت عالمانہ کتابیں لکھنے والی جرمن صوفی خاتون پروفیسر این میری شمل کو بھی۔جب کیمبرج کا ذکرآیا تو میرا دھیان اُس کتاب کی طرف گیا جو حال ہی میں اس یونیورسٹی کے مطبع نے شائع کی اور عنوان ہے ''طفلان سلطنت‘‘ ۔اگر آپ کو دن کا چین اور رات کا آرام اچھا نہیں لگتا تو پھر اس کتاب کو ضرور پڑھیے گا۔ اپنا ذہنی سکون برباد کرنے کا کوئی طریقہ اس سے زیادہ موثر نہیں ۔مختصر احوال یہ ہے کہ 1869 ء سے لے کر 1967 ء تک، برطانوی خیراتی اداروں نے (حکومت کی چشم پوشی یا معاونت سے) پچانوے ہزار بچوں (عمر تین سے چودہ برس تک) کو ایک شرمناک سازش اور صریحاً دھوکہ سے برطانیہ میں اُن کے والدین یا بچوں کی پناہ گاہوں سے چھین کر اپنی نوآبادیات (Dominions Colonies ) میں زبردستی بھیج دیا۔ ان بدنصیب بچوں کے والدین یا تو اتنے غریب تھے کہ اُن کی کفالت نہ کر سکتے تھے یا غیر شادی شدہ تھے اور بچے کی ماں اُس کی پرورش کا اکیلے بوجھ نہ اُٹھا سکتی تھی۔ چار سال پہلے برطانوی وزیراعظم (گارڈن برائون) نے اس جرم عظیم کے ارتکاب پر حکومت کی طرف سے اس جرم کا شکار ہونے والے بچوں سے عاجزانہ معافی مانگی۔
میرا جی چاہتا ہے کہ میں اُس لاطینی مقولہ کو نقل کرنے پر یہ کالم ختم کروں جو قرونِ وسطیٰ میں آدم اور قسطنطنیہ (عیسائی مذہب کے دو بڑے فرقوں کے مراکز) کے درمیان سفارتی، مذہبی اور علمی تعلقات کے موضوع پر لکھی جانے والی اور میری مذکورہ سیر کے دوران دریافت کی جانے والی ایک اور کتاب کے سرورق پر لکھا ہوا تھا۔ Habent Sua Fata Libelli (ہرکتاب کی اپنی قسمت اور منزل ہوتی ہے) میں دُعاگو ہوں کہ میری یہ تحریر اس لحاظ سے خوش نصیب ہو کہ اسے لوگوں نے دلچسپی اور توجہ سے پڑھا۔ کتابیں لکھنے کی باری بھی آنے والی ہے۔ پھر اُن کی خوش نصیبی کے لئے دُعا مانگی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں