کچھ انڈونیشیا کے بارے میں۔۔۔۔

مجھے وکالت کی مصروفیت اجازت نہیں دیتی کہ زیادہ سماجی تقریبات میں شریک ہو کر شام کو وہ چند گھنٹے گپ شپ میں گزاروں جو مقدمے کی تیاری کے لئے استعمال کرنا میری پیشہ ورانہ ذمہ داری بنتی ہے۔ پھر بھی جس شخص نے پنجاب میں ہوش سنبھالا ہو وہ حقہ نوشی اور میلے ٹھیلے کا اتنا دلدادہ بن جاتا ہے کہ جہاں بھی محفل جمے اور اُسے دعوت نامہ مل جائے تو اُس کا دل اُس کے دماغ پر غالب آجاتا ہے۔ وسط جون میں مجھے انڈونیشی سفارت خانے میں ایک تقریب میں شرکت کے لئے بلایا گیا تو میں نے ایک بار پھر دل کی بات مانی اور وہاں چلا گیا اور خوش ہوں کہ نہ صرف اچھے لوگوں سے ملا بلکہ اچھی موسیقی ، خوراک اور مشروبات سے لطف اندوز ہونے کے علاوہ اپنے محدود علم میں اضافہ کرنے اور اپنے ذہنی اُفق کو وسیع کرنے کے موقعے سے محروم نہ رہا۔
آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ انڈونیشیا 13466 جزیروں پر مشتمل دُنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ 360 نسلوں کے لوگ719 زبانیں بولتے ہیں۔ میں سنگاپور اور ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور دو بار گیا اور ہر باریہ افسوس کرتا ہوا واپس برطانیہ آیا کہ کولہوکے بیل کو دو چار دنوں کی فرصت ملتی تو وہ جنوب مشرقی ایشیاء کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ مسحور کن ملک کے کسی نہ کسی گھاٹ کا پانی بھی پی آتا۔آپ جس دن یہ سطور پڑھیں گے اُس سے اگلے دن (9 جولائی) کو انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات ہوں گے۔ مقابلہ جن دو اُمیدواروں کے درمیان ہوں گے اُن میں بُعدالمشرقین ہے۔ ایک طرف Subianto Pra Bowo ہے جو ایئر فورس کا سابق جنرل اور انڈونیشیا کے سابق فوجی آمر جنرل سوہارتوکا داماد ہے۔ اُس کا بھائی ہاشم ارب پتی ہے اور وہ اس کی انتخابی مہم پر سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، اُس کے دو حامی اپنے ملک کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں اوردوایسی کامیاب ٹیلی ویژن کمپنیوں کے مالک ہیں جنہیں انڈونیشیا کی کل آبادی کا نصف دیکھتی ہے۔ اس شخص کو فوج سے اس جرم میں برطرف کیا گیا تھا کہ وہ جمہوریت پسند لوگوں کی گمشدگی، ماورائے قانون گرفتاریوں اورلوگوں کے لاپتہ ہو جانے میں ملوث پایا گیا۔ اس راز کو انڈونیشی فوج کی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ (عبداللہ محمود) نے فاش کیا جو اب Subianto کے اُس مخالف اُمیدوار کے دست راست بنے ہوئے ہیں جو Joko Widodo کے نام سے مشہور اوردارالحکومت جکارتا کے گورنر ہیں۔ اُن پر خفیہ طور پر عیسائی ہونے کا الزام لگایا گیا تو اُنہوں نے اپنی صفائی میں حج کی سعادت حاصل کرنے کا تصویری ثبوت پیش کیا۔ دونوں اُمیدوار ٹیلی ویژن پر ہونے والے دوگرماگرم مناظروں میں حصہ لے چکے ہیں تاکہ ووٹروں کو اُن کے خیالات سے براہ راست واقف ہونے اور فیصلہ کرنے کا موقع مل سکے۔ انہیں اشتراکی تو ہر گز نہیں کہا جا سکتا مگر سابق فوجی جرنیل کے مقابلے میں وہ کئی درجے زیادہ عوام دوست اور انڈونیشیا پر غیر ملکی سرمایہ کے بڑھتے ہوئے غلبے اور تسلط کے مخالف ہیں۔
صدارتی اُمیدواروں کے درمیان ہونے والے مناظروں میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ سابق فوجی جرنیل Subianto کی خواہش یہ ہے کہ اچھے نظم و نسق کی خاطر18 اگست1945ء کو منظور کئے گئے اُس آئین کو بحال کیا جائے جو ہر آمر مطلق کے خواب کی تعبیر کی صورت میں مرتب کی جانے والی دستاویز ہے۔ مبصرین کی رائے میں Subanto خلاف توقع صدر بن بھی جائے تب بھی وہ اگست 1945ء کے حنوط شدہ آئین کی بحالی میں کامیاب نہ ہو سکے گا مگر اس طرح کی کوشش کرنے سے انڈونیشیا کے نوزائیدہ جمہوری نظام کو شدید نقصان پہنچے گا۔
آئیے ہم انڈونیشی سفارت خانہ لوٹ چلیں جہاں سفید دستانے اور اپنے ملک کا روایتی لباس پہنے ہوئے خدمت گزار ہر طرح کے مشروب ٹرے میں اُٹھائے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ مسکراہٹوں کی فراوانی کا یہ عالم کہ لگتاتھا ہم سفارت خانے کے سرکاری نہیں بلکہ عملے کے ذاتی مہمان ہیں۔ میزبان نے دستور کے مطابق میرا سب مہمانوں سے تعارف کرایا۔ ہر ایک سے رسمی گفتگو ہوئی مگر جب مجھے بتایا گیا کہ میری مخاطَب خاتون نے حال ہی میں انڈونیشیا پر ایک عالمانہ کتاب لکھی ہے تو میںاُن کے پاس رُک گیا اور ساری شام اپنے محدود علم میں اضافہ کرتا رہا۔ فاضل مصنفہ نے بتایاکہ اُنہوں نے کس طرح انڈونیشیا کی سیر وسیاحت میں ایک سال گزارا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اورشعبے کے لحاظ سے Epidemiologist یعنی وبائی امراض کی روک تھام کی ماہرہیں۔ اس کتاب میں صحت عامہ سے شروع ہوکر جمہوری عمل، اقتدار اور اختیارات کی مرکزیت کے خاتمے، کرپشن، عدم مساوات ، تعلیمی نظام کی ناکامی، جہادی جذبہ رکھنے والے مسلمانوں کی اُبھرتی ہوئی تحریک ۔۔۔۔غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر اظہار خیال کیا ہے۔ انڈونیشیا کی قوس و قزح کا کوئی ایک بھی رنگ ایسا نہیں جو اُن کی عقابی نظروں سے اوجھل رہا ہو۔ اُنہوں نے قتل کر دیے جانے والے اُن لاکھوں افراد کا مرثیہ بھی لکھا ہے جن کا واحد جرم بائیں بازوکی ترقی پسند اور عوام دوست سیاسی جماعت سے وابستگی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے مجموعی طور پر انڈونیشیا کو کیسے پایا تو مختصر مگر جامع جواب ملا : ''بالکل ایسے کہ آپ کسی غیر ذمہ دار اور بے اُصول شخص کو اپنا دوست بنا لیں ، دوستی کو قائم رکھیں مگر ہمیشہ کڑھتے رہیں کہ میں نے اتنے برُے شخص کے ساتھ یہ جذباتی رشتہ کیوں قائم کیا‘‘۔ کتاب اتنی تفصیلات سے بھری ہوئی ہے کہ اُس سے وہاں کے تعلیم یافتہ لوگ بھی واقف نہ ہوںگے۔ مثلاً یہ کہ کئی ایسے جزیرے بھی ہیں جہاں خانہ بدوش آج بھی کھلے آسمان کے نیچے سوتے ہیں، بارش ہو تو درختوں کے نیچے پناہ لیتے ہیں۔ جاوا(جہاں اُس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی رہتی ہے) اور بالی میں لوگ برائے نام کپڑے پہنتے ہیں۔ گرم مرطوب آب و ہوا کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا جا سکتا ہے۔ 
مجھے ایلزبتھ پیسانی نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ انڈونیشیا کو دریافت کی بجائے ایجادکے طور پر دیکھیں تو آپ کو اس کے کمال خدوخال نظر آئیں گے۔ جب سوئیکارنو نے آزادی کا پرچم بلند کیا تو وہ ایک ایسے ملک کوکچھ افرادکے تسلط سے نجات دلوا رہے تھے جواُس وقت تک قوم ہونے کی ہر خصوصیت سے محروم تھا۔ تھوڑی بہت ثقافت اور ماضی قریب کے تاریخی بندھن کے علاوہ ان میںکچھ بھی مشترک نہ تھا۔ میں نے فاضل مصنفہ سے پوچھاکہ پھر 13466 جزیروں میںآباد 360 نسلی اکائیاںاور719 زبانیں بولنے والے لوگ گزرے ہوئے 65 سالوں میں قوم کس طرح بنے؟ جواب سیدھا سادا تھا: ایک قومی زبان انڈونیشی بھاشا، صدر سوئیکارنوکے بعد سوہارتوکی 32 سالہ حکومت، قومی فوج اور مرکزی سول سروس کی بدولت۔ مرکزی حکومت نے اقتدارکو جکارتا میں مرکوز کرنے کے بجائے مقامی صوبوں تک منتقل کردیا جس نے عوام کو انتظام مملکت میں شرکت کا وہ احساس دلایا جو قومی جذبے کا روح و رواں ہوتا ہے۔ 
اس کے باوجود کہ راسخ العقیدہ اورکٹڑ مذہبی رُجحانات کی لہراُونچی ہوتی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ جلد یا بدیر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لی گی،انڈونیشیا کا بنیادی مذہبی کلچر معتدل، نرم، دھیما اوراختلاف کو برداشت کرنے والا ہے۔ لوگ ایک دُوسرے کی عبادت گاہوں کو اتنا مقدس سمجھتے ہیں کہ وہاں جا کر عبادت کرنے میں کوئی قباحت یا عار محسوس نہیں کرتے۔ میرا آخری سوال یہ تھا کہ آپ نے وہاں سب سے مضبوط بندھن کون سا پایا جس نے احساس قومیت کو اتنا جاندار بنا دیا کہ اب انڈونیشیا کی سا لمیت کو کسی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ جواب ملا Collectivism یعنی اجتماعیت۔۔۔۔ ذاتی تعلقات سے لے کر گھرانوں اور قبیلوں کے رشتوں کے تانے بانے نے کروڑوں عوام کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہر فرد کا دوسرے کے ساتھ کوئی نہ کوئی ایسا رشتہ ہے جو اُسے اتنا عزیز ہے کہ وہ اسے زندہ و تابندہ رکھنا چاہتا ہے۔کیاہی اچھا ہو کہ جب کوئی اور عالم فاضل شخص دُنیا کے دُوسرے بڑے اسلامی ملک پاکستان کے بارے میں کتاب لکھے تو اُسی خوبی کو دہرائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں