ناقابل یقین کہانی

اگر آپ نے بچپن میں میری طرح ابن صفی کے جاسوسی ناول (دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام کر دینے والے ناول) پڑھے ہیں(ایک آنہ لائبریری کے طفیل) تو اب آپ کو بڑے ہونے کے بعد اُس سے بھی زیادہ سنسنی خیز کتاب پڑھنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ کتاب کا نام ہے Agent Storm (القاعدہ کے اندر گزاری ہوئی زندگی کی داستان)۔کہانی کے مرکزی کردار (سٹارم) نے اپنی کتھا دو صحافیوں کو سنائی اوراُنہوں نے اُن کی روداد کو کتابی شکل دے دی۔ 
یہ ناقابل یقین کہانی دو برس پہلے خبر بن کر اخباروں میں شائع ہوئی تو قارئین کی پیشانیوں پر کئی بل پڑے اور اُنہوں نے اسے سچی کہانی ماننے سے انکار کر دیا۔ کتاب پڑھ کر مندرجات کے سچائی پر مبنی ہونے سے انکار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈھیروں دلائل اور شواہد اسے معتبر اور قابل یقین بنا دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا خبر شاید آپ کے ذہن سے محو ہو گئی ہو اس لئے دوبارہ لکھتا ہوں۔ تہلکہ مچا دینے والی خبر یہ تھی کہ 2011ء میں یمن کی سرزمین پر سی آئی اے کے کارندوں نے القاعدہ کے جس راہنما (Anwar Al-Awalki)کو ہلاک کیا وہ ایک دراز قد اور سرخ داڑھی والے ڈنمارک کے باشندے کی مخبری کی وجہ سے ممکن ہوا۔یہ کتاب اس کردار کے کارناموں پر لکھی گئی ہے اور اس کی سچائی پر اس لیے یقین کرنا پڑتا ہے کہ کوئی بھی شخص ، چاہے وہ کتنا ہی بڑا نثر نگار ہو ،اتنے بڑے پیمانہ پر فرضی واقعات نہیں گھڑ سکتا۔
اب یہ پرُ اسرار کردار برطانیہ کے کسی خفیہ مقام پر رہتا ہے۔ (کتنا دلچسپ ہو اگر بعد میں پتہ چلے کہ وہ میری ہی گلی میں بھیس بدل کر رہتا رہا ہے ،یاشاید ہر روز صبح وہی میرے گھر اخبار پہنچانے کی مزدوری کرتا رہاہے) قد چھ فٹ ایک انچ۔ ڈنمارک کا باشندہ۔ لڑکپن اور جوانی آوارگی میں گزارے۔ موٹر سائیکل پر ہمہ وقت سوار۔ چمڑے کے لباس میں ملبوس۔ نہ کام نہ کاج۔ ان گنت دوسرے آوارہ نوجوانوں کے ایک گروہ کا ایک گم نام رُکن۔ آپ اس کا کمال ملاحظہ کریں کہ اس جگہ سے القاعدہ تنظیم کا قابل اعتبار رُکن بن جانے تک اُس نے کتنے ڈرامائی مراحل طے کئے ہوں گے۔ وہ امریکی سی آئی اے اور برطانوی جاسوس ادارے ایم آئی سکس ،دونوں سے تنخواہ وصول کرتا تھا۔ اتنا قابل اعتبار کہ القاعدہ کے مذکورہ بالا راہنما نے گھر بسانے کا ارادہ کیا تو دُلہن کی تلاش (جو انٹرنیٹ پر کی گئی) کے لئے سٹارم کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کی جیمزبانڈ سے ذرا سی بھی مماثلت نہ تھی۔ جب اُسے کسی مشن پر جانا ہوتا تو وہ اپنے ذہن کو اچھی موسیقی سن کر اور کوکا کولا جیسا غیر نشہ آور مشروب پی کر تیار کرتا تھا۔ سٹارم کا خفیہ نام ''قطب شمالی کا ریچھ‘‘ تھا اور وہ مغربی جاسوسی اداروں میں اپنی نگرانی کرنے والوں کو عام شراب خانوں میں بیئر پینے پلانے کے بہانے مل کر القاعدہ کے سارے راز بتاتا اور کسی کو شک نہ گزرتا۔ 
سٹارم کی عمر صرف چار برس تھی جب ڈنمارک کے ایک ساحلی مقام پر اُس کا باپ بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ سٹارم کی والدہ نے دُوسری شادی کر لی تو وہ سوتیلے باپ کے تشدد کا نشانہ بننے لگا۔ 13 سال کی عمر میں ڈاکہ ڈالنے کے جرم میں پکڑا گیا۔ 18 سال کی عمرمیں سکول سے نکل کر جیل پہنچ گیا۔ 21 برس کی عمر میں ایک فلسطینی لڑکی سے محبت ہونے پر اُس سے منگنی کر لی۔ کتابیں پڑھنے کا شوق اُسے لائبریری لے گیا۔ جہاں وہ اسلام پر لکھی گئی کتابیں پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ برطانیہ آکر سٹارم لندن سے پچاس میل دُور ایک شمالی شہرMilton Keynes کے ایک گودام میں ملازم ہو گیا۔ منگیتر کو اس کے جرائم سے بھرے ہوئے ماضی کا پتہ چلا تو اُس نے منگنی توڑ دی۔ سٹارم نے اپنی شکستہ دلی کا یہ علاج سوچا کہ مرکزی لندن کی سب سے بڑی مسجد (Regents Parke) کے امام کے قدموں میں بیٹھ گیا تاکہ اپنا رُوحانی علاج کرائے ۔ امام صاحب نے اُسے یمن جا کر اسلام کا مطالعہ کرنے اور عربی زبان سیکھنے کا موقع فراہم کیا تو سٹارم بلا پس و پیش ایک ایسے ملک کی طرف روانہ ہو گیا جس کا نام بھی اُس کے لئے غیر آشنا تھا۔ 
جب وہ یمن سے واپس آیا تو اُس کا اسلامی نام مراد سٹارم تھا اور وہ لندن کی مختلف مساجد میں تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا۔ اس عرصہ میں اُس کی بہت سے ایسے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں جو بعد میں دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ سٹارم نے اگلے پانچ برس لندن اور یمن کے درمیان بار بار سفر کرنے اور ایک یمنی خاتون سے شادی کرنے میں گزارے۔ یہاں اُس کی ملاقات Awalaki سے ہوئی۔ یہ مذہبی راہنما امریکہ میں پیدا ہوا تھا لیکن جونہی جہادی سرگرمیوں کی طرف مائل ہوا، امریکہ سے ترکِ وطن کر کے یمن آباد ہو گیا ،جہاں بہت جلد سٹارم اس کا قریبی ترین ساتھی بن گیا۔ القاعدہ کے ایک اہم راہنما کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ اُس کا جگری دوست (سٹارم) اُسے اچھے لباس، مہنگے چاکلیٹ اور بہترین خوشبو کے جو تحائف دے رہا ہے، مغربی جاسوسی ادارے اُن کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ جب مشرقی یورپ کی ایک خاتون کو بطور دُلہن چنا گیا تو سی آئی اے کے کارندوں نے جہیز کے سامان میں ایسے برقی آلات چھپادیے جس سے اُس کی شوہر کی نقل وحرکت کا پتہ چل سکتا تھا۔ 30 ستمبر2011 ء کو امریکی ڈرون طیارے نے اولاقی اور اُس کی معصوم بیوی کو ہلاک کر دیا۔ ایک نوبیاہتا دُلہن کو محض اس جرم میں سزائے موت دے دی گئی کہ اُس کا شوہر امریکی جاسوسی اداروں کی نظر میں ایک خطرناک اور بے حد ناپسندیدہ شخص تھا۔
ابھی میرا بوڑھا دماغ مذکورہ بالا کتاب کے مندرجات سے نہ سنبھلا تھا کہ 'یک نہ شد دو شد ‘کے مصداق ایک اور سنسنی خیز کتاب سے واسطہ پڑگیا۔ نام ہےThe Good Spy: The Life And Death of Robert Ames سے امریکہ کے ایک اشاعتی ادارے (کرائون پبلشنگ )نے شائع کیا۔ مصنف کا نام Kai Birdہے ۔ قیمت صرف ڈالروں میں لکھی ہوئی ہے، جس کا مطب ہے کہ وہ ابھی برطانیہ میں دُکانوں پر دستیاب نہیں۔ میں نے 416 صفحات کی اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا (اور شاید وقت کی کمی کے باعث کبھی نہ کر سکوں گا) مگر میرا فرض ہے کہ اپنے قارئین کا اس اہم کتاب سے تعارف کرائوں ،یہ کتاب جس شخص کے بارے میں لکھی گئی ہے وہ سی آئی اے کا بلند مرتبت افسر تھا ،لبنان کی حزب اللہ نے جب 1981 ء میں بیروت میں امریکی سفارت خانے کو بارود سے بھرے ٹرک سے حملہ کر کے دُنیا کے نقشہ سے مٹا دیا تو سینکڑوں ہلاک ہو جانے والے افراد میں Ames بھی شامل تھا۔ عربوں کی جاسوسی کرتے کرتے وہ اُن کا گرویدہ ہو گیا اور گونا گوں خوبیوں کا معترف۔ اُس نے اپنی زندگی فلسطینی مفادات کی حتی المقدور حفاظت کے لئے وقف کر دی۔ علی حسن (جو دہشت گردوں کا سربراہ سمجھا جاتا تھا) نہ صرف اُس کا ذاتی دوست بن گیا بلکہ یاسر عرفات کے ساتھ Ames کی کئی ملاقاتیں بھی اس کے توسط سے ہوئیں۔ علی حسن کے ساتھ یہ رشتہ کس طرح اُستوار ہوا؟ لبنان کا ایک بڑا امیر شخص (مصطفی زین) ان دونوں کا مشترکہ دوست تھا۔ دوستی کے اس رشتہ کا Ames نے اس حد تک احترام کیا کہ سی آئی اے میں اپنے آقائوں کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اُن دونوں کو اپنا تنخواہ دار کارندہ بنانے سے انکار کر دیا۔ علی حسن کو اس کے جاننے والے سُرخ شہزادے کے لقب سے پکارتے تھے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) نے اپنی خاتون کارندہ Erica Chambers (جس نے اپنے برٹش پاسپورٹ اور دلکش نسوانیت کی بدولت ایک اہم فلسطینی راہنما کی قربت حاصل کر لی) کو استعمال کر کے اسے بم دھماکہ سے ہلاک کر دیا۔ 
لبنان کی خانہ جنگی نے اتنے خوبصورت ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ہزاروں بے گناہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے مگر Ames نے لکھا کہ اس خانہ جنگی کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لبنان کے لوگوں کو پہلی بار پتہ چلا کہ زندگی کا مطلب صرف مرسیڈیز کار، اطالوی کپڑے اور پیرس کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اس سے بھی زیادہ فکر انگیز بات یہ لکھی کہ خفیہ اداروں کو پالیسی بنانے اور جاسوسی کرنے کے درمیان بے حد اہم فرق نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بقول Ames امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اسرائیل سے وعدہ کر لیا تھا کہ امریکہ فلسطینیوں کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم نہیں کرے گا۔ یہ بدترین فیصلہ تھا۔ Ames کی دوستی فلسطینی کمانڈو خاتون مغینہ کے ساتھ بھی تھی۔ اس کالم کو سٹارم کے ذکر پر ختم کیا جاتا ہے جواُسامہ بن لادن سے 1995 ء میں خرطوم میں ملا۔ اور اُس نے القاعدہ کو خود کش دھماکہ کی تکنیک سکھائی۔ اب کوئی ہفتہ نہیں گزرتا جب ان دھماکوں کی آواز پاکستان میں سنائی نہ دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں