ایک تھی نانی

ایک تھی نانی ...یہ اُس ڈرامے کا نام ہے جو کچھ عرصہ قبل شاہد محمود ندیم نے ایک عظیم خاتون کے بارے میں لکھا اوردکھایا تھا۔ گزشتہ ماہ پاکستان کے مختلف اخباروں میں اسی باکمال بزرگ فن کارہ کی وفات پر نوحے شائع ہوئے۔ میں بھی اُن کے لاکھوں چاہنے والوں اور ہزاروں واقف کاروں میں شامل ہوں(کاش میں ان کے ساتھ دوستی کا دعویٰ بھی کر سکتا۔ آج میں نے ہمت کر کے Obituary کا ترجمہ نوحہ کیا ہے۔ ایک زندہ زبان نئے الفاظ کے اضافے اور پیوندکاری سے پھلتی پھولتی ہے۔ مجھے مان لینا چاہیے کہ میں اس ترجمے سے غیرمطمئن ہوں،اس لیے قارئین کو دعوت دوں گا کہ وہ اردو کا زیادہ مناسب لفظ تجویزکریں تاکہ ہم مل جل کر اپنی قومی زبان کی درخشاں کہکشاں میں ایک نئے ستارے کا اضافہ کر سکیں۔ 
اب چلتے ہیں نانی کی طرف۔ ان کا نام تھا زہرہ سہگل۔ 27 اپریل1912ء کو پیدا ہوئیں اور دس جولائی 2014 ء کو ایک سو دوسال کی عمر میں وفات پائی۔ شادی سے پہلے نام تھا زہرہ بیگم ممتاز اللہ خان۔ بہن بھائیوں کی تعداد چھ تھی۔کم عمر تھیں کہ والدہ کا مبارک سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ باپ نے دُوسری شادی کرنے کے بجائے اپنے سات بچوں کی نگہداشت اور پرورش پر اپنی محبت اور پدرانہ شفقت کی بارش کر دی۔ اتنا لاڈ تو اچھے سے اچھے بچے کوبھی بگاڑ دیتا ہے مگر ممتاز اللہ خان کے تمام بچوں نے اپنے محبت کرنے والے باپ کی خوش اُمیدی اوراعتماد کی لاج رکھ لی، ساتوں بچے تعلیم اور پھر عملی زندگی میں کامیاب رہے مگر سب سے زیادہ شہرت اور پذیرائی زہرہ کو ملی۔کوئین میری کالج میں تعلیم نے زہرہ کی زندگی کا رُخ بدل دیا۔ یہاں وہ جدید ادب اور مغربی ثقافت سے متعارف ہوئیں۔ انہوں نے ڈراموں میں بھرپور حصہ لیا جس سے اُن کے اداکاری کے پیدائشی وصف کو جلا ملی۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس دورکے کوئین میری کالج سے فارغ التحصیل لڑکیاں کتنی سلیقہ شعار، منظم اور اپنی زندگی کو ڈھب سے گزارنے کے فن پر کتنا زیادہ عبور رکھتی ہوںگی۔ اب ہماری درس گاہیں علامہ اقبال، علامہ مشرقی، ڈاکٹر عبدالسلام ، ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور ڈاکٹر حمید اللہ کے بجائے دُوسرے اور تیسرے درجے کے لوگ پیدا کررہی ہیں۔ 
کئی سال پہلے بھارت میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا۔ مصیبت زدگان کی مالی مدد کرنے کے لئے لندن میں بھارت کے فعال اور قابل تعریف ثقافتی مرکز (نہرو سنٹر) میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ چندہ اکٹھا کیا جا سکے۔ مہمانِ خصوصی شبانہ اعظمیٰ تھیں۔ وہاں میری اُن سے مختصر سی ملاقات ہوئی۔ان کے ساتھ یادگاری تصویر اُتروانے کا شوق مجھے اس تقریب میں کشاں کشاں لے گیا۔ میزبانوں نے ہماری آئو بھگت کی اور یہ اعزاز بخشا کہ ہم میاں بیوی معزز مہمان کا استقبال کرنے والوں میں شامل کئے گئے۔ جب میری بیوی نے دیکھا کہ پریس اور ٹیلی ویژن کے کیمرے استقبالی صف پر نظریں جمائے ہوئے ہیں تو وہ گھبرائی اور اس صف سے نکل گئیں۔ شبانہ اعظمیٰ تشریف لائی تو ایسا لگا کہ آسمان سے چاند اُترکر وسطی لندن کی ایک عمارت میں چمکنے لگا ہے۔ دُوسرے لوگوں سے ملتے ملاتے میرے پاس پہنچیں تو میرا ہاتھ تھامے دوستانہ باتیں کرنے لگیں۔ میں نے اُن کے انقلابی ذہن رکھنے والے والدکیفی اعظمی کا ذکرکیا تو اُن کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ میں نے شبانہ کو دیانتداری سے بتا دیا کہ میں آج کی تقریب میں صرف آپ کو اپنی بیوی سے متعارف کروانے آیا ہوں مگر دیکھئے وہ یہاں سے بھاگ کرکہاں پناہ گزین ہیں ! یہ سن کر شبانہ لپک کر میری بیوی کی طرف تیزقدموں سے گئیں اور اُن کے ساتھ بڑی اپنائیت سے ملنے کے بعد استقبالی صف کی طرف لوٹ آئیں۔ شبانہ کا شکریہ ادا کرنے کا اس سے اچھا طریقہ اورکیا ہو سکتا تھاکہ ہم میاں بیوی اپنی استطاعت سے بڑھ کر چندہ دیتے۔
اس تقریب کا ذکرکرنا اس لئے ضروری تھا کہ وہاں پہلی بار زہرہ سے تعارف ہوا۔پھرگاہے تجدید ملاقات ہوتی رہی۔کئی باردل چاہا کہ زہرہ سے دوستی کی پینگیں بڑھائی جائیں مگر وکالت سے جڑی ہوئی پیشہ ورانہ مصروفیت پائوں کی زنجیر بن گئی ۔ میں یہ سوچ کر اپنے دلِ ناصبورکو تسلی دے لیتا ہوں کہ یہ المیہ صرف میرا اکیلے کا نہیں،کئی دُوسرے محنت کش لوگ بھی دو ٹکے کی نوکری کی خاطر لاکھوں کا ساون گنوا دینے کا دُکھ برداشت کرلینا سیکھ لیتے ہیں۔ 
زہرہ نے وسطی ہندوستان (اُتر پردیش ) کے ایک معروف شہر سہارن پور کے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ متوسط طبقے کے دُوسرے روایتی گھرانوں کی طرح ہر لحاظ سے قدامت پسند اور پرانے رسم و رواج کا پابند تھا۔ ایسے گھرانے تعلیم نسواں کے یاکم مخالف ہوتے تھے یا زیادہ مگر ہوتے سب تھے۔ ممتاز اللہ خان نے اس فرسودہ روایت کو توڑ دیا اور اپنی بیٹیوں کو اُس درجہ تک تعلیم دلوائی جس کی وہ اہل تھیںیا شوق رکھتی تھیں۔ اس معاملے میں زہرہ نے اپنے باپ کی روشن خیالی کا بڑا سخت امتحان لیا مگربہادر باپ فیل نہ ہوا۔ زہرہ جیسی بچی پیدا ہوئی تو نام کے ساتھ صاحبزادی لکھا گیا مگر 1933ء میں وہ اداکاری اور رقص سیکھنے جرمنی پہنچ گئیں ۔ زہرہ نے دونوں فنون میں کمال حاصل کیا اور بین الاقوامی سطح پرنام کمایا ۔اُن کی وفات پر برطانیہ،امریکہ،بھارت اور پاکستان کے اخبارات میں نوحے شائع ہوئے۔ برطانیہ میں اسماعیل مرچنٹ کی بنائی ہوئی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھاتے دکھاتے1984ء میں وہ جس فلم کے ذریعے اپنے فن کی معراج پر پہنچیں اُس کا نام ہےThe Jewel in the Crown ، ان کی عمر اسی سال سے تجاوزکر گئی تو وہ واپس ہندوستان چلی گئیں۔ اُنہوں نے ممبئی میں بننے والی کئی فلموں میں کام کیا۔ سب سے زیادہ قابل ذکرفلم کا نام '' کم چینی ‘‘ ہے ۔ 2007 ء میں دکھائی جانے والی اس فلم میں اُنہوں نے امیتابھ بچن کی ماں کا کردار ادا کیا ۔ 
روی شنکر (ستار نواز) کے بھائی اودے شنکر کے بنائے ہوئے طائفہ کے ساتھ زہرہ نے یورپ اور امریکہ کے کئی شہروں میں سالہا سال تک اپنے رقص کے مظاہرے کئے اور ان گنت دیکھنے والوں کو اپنی فنکاری سے متاثرکیا۔ اُودے شنکر نے کوہ ہمالیہ کے دامن میں ایک ثقافتی مرکز قائم کیا جہاں زہرہ کی ملاقات کمیش ورسہگل (Kameshwar Sehgal) سے ہوئی اور ان کی باہمی دوستی بڑھتے بڑھتے محبت اور پھر ازدواجی رشتہ کی شکل اختیارکرگئی۔ ان کی شادی (جو ہندوستان میں ایک بڑے سیکنڈل کی صورت میں زلزلہ سے مماثلت رکھتی تھی)1942ء میں ہوئی۔ تقسیم تک میاں بیوی لاہور رہے جہاں اُنہوں نے رقص سکھانے کا ادارہ پانچ سال چلایا۔ ممبئی جانے کے بعد یہ دونوں وہاںعوامی تھیٹر میں شامل ہوگئے جو ترقی پسند تحریک کا ہر اول دستہ تھا اور ملک بھر میں عوام دوست ڈرامے سٹیج کر کے عوامی شعور بلند کرتا تھا۔ زہرہ نے 1943ء میں''نیچا نگر‘‘ نامی فلم اور 1946 ء میں ''دھرتی کے لال‘‘ نامی فلم میں اداکاری کی اور داد و تحسین کے پھولوں کے انبار سمیٹے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیچانگر نامی فلم کو فرانس کے شہر Cannes میں ہونے والے عالمی فلمی میلہ میں Palme d'Or نامی سب سے بڑا انعام دیا گیا۔ زہرہ کی بدقسمتی سے اُن کے شوہر نے 1959ء میں خود کشی کر لی اور اُنہیں تنہا دوچھوٹی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا بڑا بوجھ اُٹھانا پڑا۔ زہرہ نے یہ ذمہ داری بڑی کامیابی سے نبھائی۔ یوگا کی ورزشوں، کھانے پینے میں زبردست احتیاط، عاشقانہ مزاج اور آٹھ دس گھنٹے کی نیند نے اُنہیں طویل عمر دلوائی۔ چار سال پہلے بھارتی حکومت نے اُنہیں سب سے بڑا شہری اعزاز پدم بھوشن دیا۔ جولائی کی دس تاریخ آئی تو رام پور میں پیدا ہونے والی بچی اس شہرکی خاک میں ابدی نیند سوگئی جہاں وہ 102 سال پہلے پیدا ہوئی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں