کبڈی سے کراچی تک

اگرپاکستان (خصوصاً لاہور اور لاہور میں ماڈل ٹائون) کے موجودہ ہنگاموں سے پیدا ہونے والی قدرتی پریشانی نے میرے قارئین کے ذہن سے میرا گزشتہ ہفتہ کا کالم بھلا دیا ہو تو وہ قابل معافی ہیں۔ چھ ہزار میل کے محفوظ فاصلہ سے اہل وطن کی حالت دیکھ کر (چشم تصور سے نہیں بلکہ ہر لحظہ ٹیلی ویژن پر) مجھے صرف چھ الفاظ پر مشتمل ایک موزوں مصرع یاد آتا ہے (جو غالباً اخترالایمان کی ایک نظم کا حصہ ہے) ع
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
گزشتہ کالم کا موضوع پاکستان میں کرکٹ پر لکھی جانے والی ایک قابل تعریف کتاب تھی۔ کالم لکھے جانے کے بعد، بمشکل دو دن گزرے ہوں گے کہ برطانوی اخباروں میں (جن میں گارڈین جیسا معیاری اخبار پیش پیش تھا) ایک ایسا لفظ ایک بڑی خبر کی سُرخی بن کر شائع ہوا جسے پڑھنے کے بعد چند لمحات تک میں اس پہلے کہیں کبھی نظر نہ آنے والے لفظ کی طرف گھورتا رہا، بے اعتباری اور بے یقینی کے عالم میں۔ وہ لفظ تھا: ''کبڈی‘‘ ۔خبر یہ تھی کہ لندن کے سب سے بڑے ہال میں (جہاں عام طور پر بڑے گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیںاورجس کا نام 02 ہے) مستقبل قریب میں کبڈی کے بین الاقوامی مقابلے ہوں گے ۔ اخبار نویسوں نے اپنے قارئین کو کبڈی کے اسرار و رموزسے متعارف کراتے ہوئے لکھا کہ آپ ایک بار یہ بے حد شاندار کھیل (جو کشتی اور رگبی کا امتزاج ہے) دیکھ لیں تو آپ کبڈی کبڈی کے الفاظ بار باردہرائیں گے اور کہیں گے کہ ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ انگریزقارئین نے تو اپنے مزاج (جو روایتی زندہ دلی ،تجسس اور مہم جوئی سے مرتب ہوا ہے) کی وجہ سے نہ صرف یہ خبر بڑی دلچسپی سے پڑھی بلکہ کبڈی کے ہونے والے مقابلوں کو دیکھنے کے لئے اپنے ذوق و شوق کا ایسا مظاہرہ کیا کہ پچاس ہزار نشستوں کے ٹکٹ آنا ً فاناً فروخت ہو گئے۔ ٹکٹ کی قیمت 500 روپے بنتی ہے۔ کبڈی کا لفظ پڑھتے ہوئے سیالکوٹ کے ایک دیہاتی کو اپنا لڑکپن یاد آگیا۔ پہلے ہی ہمارے ہاں مٹی کونسی کم ہوتی ہے، ہریالی نہ ہونے کی وجہ سے چاروں طرف خاک اُڑتی ہے۔ ان حالات میں کبڈی کھیلنے کا مطلب غالباً وہی ہے جو پادری (انجیل مقدس کے الفاظ میں) جنازہ پڑھاتے ہوئے کہتا ہے، "Dust unto Dust" اگر میرے جیسے (مقابلتاً) کمزور کھلاڑی کو کبڈی کے میدان میں زمانہ طالب علمی میں بادل نخواستہ اُترنا پڑتا تھا تو مندرجہ بالا دُعا کے بقیہ حصہ (Ashes to Ashes) کے اطلاق کا مرحلہ بھی کافی قریب آجاتا تھا۔ بقول اقبال ع
ہم مشرق کے مسکینوں کا دل مغرب میں جا کر اٹکا ہے
مغرب میںدل اٹکانا بذات خوداتنی پریشانی کا باعث نہیں مگر اقبالؔ اس پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنے پیارے بھائیوں اور بہنوں کو یاد دلاتے ہیں کہ مغرب میں دل لگاتے وقت ذہن میں رکھیں کہ وہاں سارے برتن (خصوصاً گلاس) بلوریں ہیں اور آپ کے پاس صرف ایک مٹکا ہے اور وہ بھی پرانا۔ یہ بات نہ بھولیں اور پھر شوق سے اپنا دل بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے آپ کو (یعنی سالم بدن کو) مغرب میں اٹکا لیں۔ مجھے مغرب میں رہتے ہوئے 47 برس ہو گئے مگر ابھی تک یہی لگتا ہے کہ اٹکا ہوا ہوں ۔نصف صدی گزر گئی اوریہ احساس کبھی نہیں ہوا کہ میں مغرب میں مستقل طور پر ٹک گیا ہوں۔ یہ ہوتا ہے ٹکنے اور اٹکنے میں فرق۔ بات شروع ہوئی تھی کبڈی سے اور چلتے چلتے اقبالؔ کے فرمودات تک جا پہنچی۔ چلیے واپس چلیں۔ کبڈی پنجاب کا روایتی کھیل ہے۔ پنجاب کے تہواروں، پنجاب کے لوک گیتوں اور پنجاب کے نیلے آسمانوں پر اُڑنے والے سفید پتنگوں کی طرح پرانا۔ کبڈی کا اچھا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو نہ صرف جسمانی طاقت اور پھرتیلے پن بلکہ زیادہ دیر تک اپنی سانس پر قابو رکھنے(جس میں وہ کبڈی کبڈی کی گردان کرتا ہے) جیسی تین خوبیاں رکھتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ 1947 ء میں برطانوی راج ختم ہونے کے بعد سیاسی طور پر آزاد ہو جانے والے پاکستانی ذہنی اور ثقافتی طور پر غلام ہوتے چلے گئے۔ بیساکھی اور بسنت کے تہوار (جو ہماری ثقافت کے ماتھے کے جھومر تھے) غیر شرعی قرار پائے۔ دیہات میں سجائے جانے والے میلوں ٹھیلوں کی تقریبات خواب و خیال ہو گئیں۔ کُشتیوں کے اکھاڑوں میں (محاورتاً اور لفظاً) خاک اُڑنے لگی۔ کبڈی کا کھیل قصہ پارینہ بن گیا۔ تہمدکی جگہ شلوار نے اور شلوار کی جگہ جینز Jeans نے لے لی۔ لسی اور ستو کی جگہ سافٹ ڈرنکس ہمارے محبوب مشروب بن گئے۔ہیر (وارث شاہ) کے گانے کی دلگداز آواز فلمی گانوں میں دب کر رہ گئی۔ اب مغرب میں کبڈی کو فروغ ملنے لگا ہے تو ایک بوڑھے شخص (اور کبڈی کے پرانے کھلاڑی) کے دل میں اُمید کا ایک ننھا سا چراغ جل اُٹھا ہے کہ شاید اُس کے (مغرب زدہ) اہل وطن مغرب کی نقل کرتے ہوئے دوبارہ کبڈی کی طرف راغب ہو جائیں۔
ابھی مندرجہ بالا وجہ سے میرے حیران ہونے کا عمل ختم نہ ہوا تھا کہ 16 اگست کو شائع ہونے والے روزنامہ گارڈین کے صفحہ 18پر نظر پڑی۔ آدھے صفحہ کے مضمون کی سُرخی کا پہلا لفظ تھا ''کراچی‘‘تھا۔فوراً خیال آیا کہ ہو نہ ہو خبر کا تعلق کراچی میں ہونے والے قتل عام سے ہوگا۔ خبر پڑھ کر تشویش اور اضطراب کی جگہ خوشگوار حیرت نے لے لی۔ گارڈین کے نامہ نگار Jon Boone نے اپنے قارئین کو بتایا کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر اِن دنوں معجزاتی طور پر اُن سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن گیا ہے جو کراچی کے شاندار ماضی کے اُفق پر جگمگانے والی پرانی اور تاریخی عمارتیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسی عمارتیں زیادہ تر شہر کے اُن حصوں میں ہیں جہاں نظم و نسق کی حالت بدترین ہے مگر سیاح جان و مال کو پیش آنے والے خطرات کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ جو عمارتیں اُنیسویں صدی میں تعمیر کی گئیں، اب خستہ حالی کی وجہ سے منہدم ہونے کے قریب ہیں۔ سیاحوں کی رہنمائی فاروق سومروکرتے ہیں، رضا کارانہ طور پر اور فرصت کے اوقات میں ۔ پرانی اور تاریخی عمارتوں کی فہرست میں گرجا گھر ، گوردوارے، مندر، Masonic Lodges (جہاں فری میسن نظریات رکھنے والے اپنے پرُ اسرار اجلاس کرتے تھے اور جادوگر سمجھے جاتے تھے) سے شروع ہو کر قائداعظم کے سکول اور بطور گورنر جنرل سرکاری رہائش گاہ (فلیگ سٹاف ہائوس) تک شامل ہیں۔ 1800ء میں کراچی ماہی گیروں کی چھوٹی سی بستی تھی اور اب اُس کی آبادی 23 ملین (دو کروڑ تیس لاکھ) کے قریب ہے۔ فاروق سومرو کہتے ہیں کہ کراچی میں رہنے والے جو لوگ دُنیا بھر کی سیاحی کرتے ہیں، خود اپنے شہر کے تاریخی سرمایہ کی موجودگی سے ناواقف ہیں۔کلفٹن اور ڈیفنس میں ایک کراچی آباد ہے اور ان امیر بستیوں کے باہر دُوسرا عام آدمی کا کراچی جہاں تمام تاریخی عمارتیں ہیں۔ و ہی کراچی کے ماضی کا امین ہے۔ جن تاریخی عمارتوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے وہ بھی سیاحوں کی نظروں سے بدستور اوجھل ہیں۔ قائداعظم کی سرکاری رہائش گاہ (فلیگ سٹاف ہائوس) بھی خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس عمارت کو ایک یہودی معمار کے وضع کردہ نقشہ کے مطابق بنایا گیا تھا۔ دو سو سال پہلے کراچی میں یہودی اور زرتشتی آتش پرست (Zorastarians) بڑی تعداد میں رہتے تھے۔ کراچی اُن کے دم قدم سے آباد تھا۔ انہی کی محنت اور لگن ، ذوق حسن وزیبائی کے باعث مچھیروں کی بستی ایک جدید شہر میں تبدیل ہوئی۔
صد افسوس کہ ان لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، جو کراچی میں اُس عمارت (وزیر مینشن) کی زیارت کو جاتے ہیں، جہاں قائداعظم نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ صدر بازار کی وہ تنگ گلیاں، جن سے گزرے بغیر آپ وزیر مینشن نہیں جا سکتے۔ اب اس قدر خطرناک سمجھی جاتی ہیں کہ انگریزی محاورہ کے مطابقNo Go Area بن چکی ہیں۔ قائداعظم کے بنائے ہوئے ملک (جس کا نام کتنے چائو سے رکھا گیا تھا) کی ان دنوں کتنی گت بن چکی ہے، (اور شاید ابھی مزید بنے) آپ اُس کا اندازہ ان کی جنم بھومی سے لگالیں۔ قائداعظم کے لیے یہ منظر کس قدر سوہان روح ہوگا۔ یہ بے چارہ کالم نگار اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر عقل سلیم کہتی ہے کہ قائداعظم کا نحیف و نزار (مگر جرأت و ہمت اور بہادری کا پیکر) جسد خاکی ان کی آخری آرام گاہ میں کس طرح تڑپتا ہوگا، رنج و غم کے عالم میں کتنے پہلو بدلتا ہوگا !۔مزار قائد کے نگرانوں کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ مزار قائد کی ہر ماہ نہیں تو تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مگر باقاعدگی سے مرمت کراتے رہیں۔ دُعا ہے کہ پاک سرزمین پر رہنے والے اسے پاک صاف اور پرُ سکون، خوش اور خوشحال رکھیں تاکہ اُن کے ملک کا بنانے والا کراچی میں اپنی ابدی نیند آرام سے سو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں